Shairi Or Islami Tafakur - Allama Iqbal - Article No. 881

Shairi Or Islami Tafakur - Allama Iqbal

شاعری اور اسلامی تفکر۔۔علامہ اقبال - تحریر نمبر 881

دسمبر 1937ء میں ایک دن میں اور میرے ایک دوست کسی کام سے جارہے تھے کہ سنٹرل ٹریننگ کالج کے پاس ہمیں ایک خوش پوش نوجوان نے ٹھہرا لیا۔ ان دنوں یوم اقبال منانے کی تحریک کا بڑا چرچا تھا

پیر 10 نومبر 2014

سید عابد علی عابد:
دسمبر 1937ء میں ایک دن میں اور میرے ایک دوست کسی کام سے جارہے تھے کہ سنٹرل ٹریننگ کالج کے پاس ہمیں ایک خوش پوش نوجوان نے ٹھہرا لیا۔ ان دنوں یوم اقبال منانے کی تحریک کا بڑا چرچا تھا۔ میں اگرچہ ذرا فاصلے پر تھا لیکن میں سن رہا تھا کہ یہ نوجوان اس تحریک کے متعلق کچھ باتیں کررہا ہے۔ چنانچہ یہ سمجھ کر کہ ان دونوں کی باتیں شاید ایسی ہوں کہ میرا شامل ہونا انہیں ناگوار ہو، میں ذرا آگے بڑھ گیا۔
میرے دوست نے مجھے آواز دے کر بلایا۔ اور اب معلوم ہوا کہ یہ نوجوان میرے دوست سے یوم اقبال کے سلسلے میں مشورہ لے رہا ہے۔میرے دوست نے میرا تعارف کرایا تو اس باہمت نوجوان نے میرا نام سنتے ہی فوراَ کہا کہ آپ علامہ کی شاعری پر کوئی پیپر پڑھیں گے۔

(جاری ہے)

میں نے کوئی رسمی سا عذر پیش کیا لیکن دوونوں صاحب میرے سر ہوگئے اور آخر مجھے وعدہ کرنا پڑا کہ میں اقبال اور فنون لطیفہ پر مقالہ پڑھوں گا۔


رات کو لوٹا اور اس مضمون کا خیال آیا تو کچھ الجھن سی ہونے لگی۔ سوچتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جو علامہ کی تعلیم کی اصل روح کے خلاف ہو۔ اگرچہ نقد کی حیثیت سے مجھے کامل آزادی حاصل تھی لیکن علامہ سے جو مجھے عقیدت تھی اس کی وجہ سے یہ خیال ضرور پیدا ہوتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جس سے اصل مقصد (اقبال کے نظریہ فنون لطیفہ کی تفسیر) فوت ہوجائے، یا علامہ کو کسی قسم کی ذہنی تکلیف ہو۔

دوسرے دن راجہ حسن اختر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے موقع پاکر اپنی الجھن کا ذکر چھیڑا۔ راجہ صاحب نے بے ساختہ کہا کہ چلئے علامہ کے ہاں چلتے ہیں۔ مجھے جرأت تو نہیں کہ ان کے سامنے بحث کا آغاز کرسکوں لیکن اگر آپ کسی مسئلے پر بحث چھیڑدیں گے اور علامہ کو اس سے دلچسپی پیدا ہو جائے گی تو کئی گرہیں خودبخود کھل جائیں گی۔ چنانچہ اسی شامل میں اور راجہ صاحب علامہ کے دردولت پر حاضر ہوئے۔

راجہ صاحب نے موقع دیکھ کر کہہ دیا کہ عابد صاحب ”اقبال اور فنون لطیفہ“ پر ایک مقالہ پڑھ رہے ہیں۔ علامہ نے میری طرف تیز تیز متجسانہ نظروں سے دیکھا جن لوگوں کو ان نظروں کی دور بینی اور دور رسی محسوس کرنے کا اتفاق ہوا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان تیز تیز نظروں میں کیا بات پوشیدہ تھی۔ علامہ کی آنکھیں گویا مخاطب کے تمام سرمایہ ذہنی کو ٹٹول کر اس کے تہہ قلب کے خفیہ ترین گوشوں میں پہنچ کر اس کے اعمال اور افعال کے محرکات شعوری وغیر شعوری کا جائزہ لیتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور اس طرح محسوس ہوتا تھا گویا علامہ مخاطب کو تول رہے ہیں۔
ان تاثرات کا بیان کرنے کیلئے پانچ چھ سطریں لکھنے کی ضرورت پڑی ہے لیکن درحقیقت یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہوگیا۔ ایک آدھ منٹ چپ رہنے کے بعد علامہ نے فرمایا” میرے کلام کا آرٹ (شاید اس کا مغربی تصور مراد تھا) سے کیا تعلق ہے؟ میری شاعری اسلامی تفکر اور فقہ کی تفسیر اور تعبیر ہے“ میں نے عرض کیا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو واضح کردوں کہ آپ ک ے خیال میں فنون لطیف کا نصب العین کیا ہے۔
فرمایا: ”ہاں، اس اعتبار سے مقالہ لکھا جاسکتا ہے۔“
اس کے بعد کچھ عرصہ علامہ چپ رہے۔ شفیع صاحب آگئے اور ان کے شانے دبانے لگے۔ میں نے جرأت کر کے پوچھا کہ آرٹ کے زوال پزیر ہونے کے جو محرکات ہوتے ہیں ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ علامہ نے لیٹے لیٹے جواب دیا کہ آرٹ کی زوال پزیری دراصل اقوام کی مجموعی زوال پزیری کے تابع ہوتی ہے جب تک خدا کوکسی قوم سے کچھ کام لینا مقصود ہوتا ہے اور اسے سرداری کے منصب پر فائز رکھنا منظور ہوتا ہے اس وقت تک آرٹ زندہ اور جاندار رہتا ہے، بلکہ سب سے پہلے کسی قوم کی زوال پزیری کی علامت آرٹ کی زوال پزیری کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔
علامہ یہ کہہ کر چپ ہوئے تو نیازی صاحب نے پوچھا کہ ان حالات میں کای شاعری سب سے پہلے متاثر ہوتی ہے۔ فرمایا: ضروری نہیں لیکن اکثر ایسا ہوتاہے جب کوئی قوم زوال پر آمادہ ہوجاتی ہے تو معنی سے بیگانہ ہوجاتی ہے۔ چھلکے سے، شکل سے دل بستگی بڑھ جاتی ہے۔ یہی آرٹ کی زوال پزیری ہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ علامہ چپ رہے۔ ایک صاحب نے کسی نئی تصنیف کا ذکر چھیڑا جس میں آرٹ کے فلسفے سے بحث کی گئی تھی۔
علامہ نے فرمایا: ”ایک جرمن مصنف کہتا ہے کہ فلسفے کے نظام دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ٹھوس وزنی، ان میں مغز زیادہ ہوتا ہے۔ دوسے ذرا ہلکے۔ جب قومیں زوال پزر ہوتی ہیں تو ہر ٹھوس چیز سے بیگانہ ہوجاتی ہیں۔“ میں نے پوچھا: ”آرٹ بھی ٹھوس اور ہلکا ہوسکتا ہے۔“ فرمایا: ’ہوسکتاہے۔ زوال پزیر اقوام میں آرٹ کا رس نچوڑ کر نہیں پیا جاتا بلکہ پھل کی شکل بنا دی جاتی ہے اور اس کے رنگ کو دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔“

Browse More Urdu Literature Articles