Shoosha Aik Safeed Choha - Article No. 907

Shoosha Aik Safeed Choha

شوشہ ایک سفید چوہا - تحریر نمبر 907

لفظ شوشہ کا صوتی تاثربے حد دلچسپ ہے اور پھر جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ شوشہ چھوڑا تو ذہن میں کچھ اس قسم کی تصویر ابھرتی ہے کہ شوشہ دراصل کوئی سفید چوہا قسم کی چیز ہے جسے کوئی صاحب جیب میں چھپا کر لاتے ہیں

پیر 15 جون 2015

مستنصر حسین تارڑ:
لفظ شوشہ کا صوتی تاثربے حد دلچسپ ہے اور پھر جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ شوشہ چھوڑا تو ذہن میں کچھ اس قسم کی تصویر ابھرتی ہے کہ شوشہ دراصل کوئی سفید چوہا قسم کی چیز ہے جسے کوئی صاحب جیب میں چھپا کر لاتے ہیں اور کسی بھری محفل میں چھوڑدیتے ہیں وہاں خوب کھلبلی مچتی ہے اور بالآخر معلوم ہوتا ہے کہ جوشے بڑی تیزی سے ادھر ادھر بھاگ رہی تھی اور جس نے کارروبار حیات کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے دراصل شوشہ تھا۔
لوگوں میں کھلبلی مچانے کے بعد وہ صاحب اپنے شوشے کو پکڑتے ہیں ۔جیب میں ڈالتے ہیں اور اسے کسی اور محفل میں چھوڑنے کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں۔
مختلف قسم کے شوشے حکومتوں اداروں اور اہم شخصیات نے پال رکھے ہوتے ہیں جو وہ بوقت ضرورت چھوڑتے رہتے ہیں قدرے نچلی سطح پر آجایئے تو آپ اور مجھ ایسے ناچیزوں کے پاس بھی اپنے اپنے چھوٹے موٹے ناتواں قسم کے شوشے ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان شوشوں کو چھوڑنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے کیونکہ شوشہ پالنے اور اسے چھوڑنے کے لئے ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ اگر آپ کوئی حکومت ہوں تو سپرپاورہوں اور اگر ادارہ ہوں تو بہت پاورفل ہوں جیسے ایل ڈی اے واپڈا،ٹیلی فون وغیرہ اور اگر شخصیت ہوں تو بااثر ہوں مثلأٴ سرکاری،افسرسیاست دان وغیرہ اور اگر آپ یہ سب کچھ نہیں ہیں اور آپ اپنا غریب غربا شوشا چھوڑنا چاہیں تو اوّل تو وہ اتنا ناتواں ہوگا کہ چھوٹنے سے انکار کردے گا اور اگر آپ اسے دھکا سٹارٹ کر کے چھوڑدیں تو لوگ اسے نہیں چھوڑیں گے اور آپ کو دروغ گوئی اور جعل سازی کے الزام میں دھر لیاجائے گا اور آپ کے شوشے کو جوتیاں مار مار کر بھگا دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

اتنا کچھ ہونے کے بعد آپ آئندہ کے لئے تائب ہوجائیں گے اور اپنے شوشے کو بھی ہدایت کریں گے کہ وہ کوئی اورباثر مالک تلاش کرے۔
حکومتوں کی سطح پرہر دوسرے روز کسی ایک پاور کی طرف سے بیان جاری کیا جاتاہے کہ دنیا میں امن ہونا چاہیے جنگ نہایت خوفناک چیز ہے تخفیف اسلحہ نہایت ضروری ہے اور یہ کہ ہمارے ملک نے ہمیشہ دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے جدوجہد کی ہے یہ بیان ایک شوشہ ہوتا ہے کو چھوٹے موٹے ملکوں کو اطمینان دلانے کے لئے چھوردیا جاتا ہے۔
اس دوران یہ سپرپاور انہی چھوٹے موٹے ملکوں میں سے کسی ایک میں امن قائم کرنے کی خاطر اپنی فوجیں بھیج دیتی ہے اس پر دوسری سپرپاور بے حداپ سیٹ ہوتی ہے اور فورأٴ اپنی سرحد کے آس پاس کوئی ایسا ملک تلاش کرتی ہے جہاں امن قائم کیا جائے ایسا ملک دستیاب نہ ہوتو اسے ایسا بنادیا جاتا ہے اور پھر فوج کشی کر کے وہاں امن قائم کر دیا جاتا ہے اس عمل کوعرف عام میں بیلنس آف پاور کہا جاتا ہے۔

اسی طوربین الاقوامی اور ملکی اداروں کے پاس بھی اپنے اپنے پالتو شوشے ہوتے ہیں جو وہ ہمہ وقت چھوڑتے رہتے ہیں ۔اقوام متحدہ کے پاس حق رائے دہندگی کا شوشہ ہے وہ کشمیریوں کو خوش کرنے کے لئے کبھی کبھار چھوڑ دیتی ہے۔دیٹو کا حق صرف سپرپاور کو دیا گیا ہے تاکہ وہ بیلنس آف پاور قائم رکھنے کی خاطر اسے ایک دوسرے کے کیمپ میں وقتأٴ چھوڑتی رہیں ہمارے اپنے ایل ڈی اے کے پاس مال روڈ اور نہر کناروں کو بیوٹی گائی کرنے کا شوشہ ہے جو وہ بقیہ شہرکی گندگی اور توٹی ہوئی سڑکوں پر چھوٹی رہتی ہے واپڈا ایک طرف تو ملک میں بجلی کے اضافے کی نویدسناتا ہے یاسناتی ہے اور دوسری جانب موسم سرماکے شروع ہوتے ہی پانی کی کمی کے باعث بجلی کی کمی کا شوشہ چھوڑدیا جاتا ہے کچھ ایسے شوشے بھی ہیں جو آدم خور ہیں یعنی لاہور شہر اور اس کے نواح میں دوڑنے والی ویگنیں جو پٹرول کی بجائے انسانی خون پر چلتی ہیں اور کچھ پتہ نہیں چلتا کہ انہیں کس نے چھوڑرکھا ہے اگر موٹرسائیکلیں اور کاروں کے ساتھ ساتھ ان کی بھی چیکنگ کرنے والوں نے ہی چھوڑ رکھا ہے اور افواہ پر کون یقین کرے کیونکہ یہ شوشے کی چھوٹی بہن ہوا کرتی ہے۔

شوشے چھوڑنے کے سلسلے میں ہمارا ہمسایہ ملک بھی بہت ایڈوانس ہے بلکہ چیمپیئن ہے اس کے پاس انواع واقسام کے شوشے ہیں جووہ موقع محل کی مناسبت سے چھوڑتا رہتا ہے ان میں سے بیشتر شوشوں کا رخ پاکستان کی جانب کر دیا جاتا ہے کہ جاؤ بچہ وہاں جا کر کھلبلی مچا دوادھر سے چھوڑے جانے والے سیاسی شوشوں کی تعداداتنی زیادہ ہے انہیں یہاں درج کرنا ممکن نہیں اس لئے ماضی میں چھوڑے گئے صرف ایک شوشے پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ وہ صاحب تاج محل دراصل مغلوں نے نہیں بلکہ راجپوت ہندوؤں نے تعمیر کیا تھا اور یہ مقبرہ وغیرہ نہیں کسی اعلیٰ قسم کی دیوی کا مندرہے یہ شوشہ اگرچہ بہت ہی لاغراور ناتواں قسم کا تھا ۔
لیکن اس پر خوب خوب بحثیں ہوئیں اور معاملہ ابھی تک حل طلب ہے انہی دنوں لائف میگزین میں تاج محل کی ایک رنگین تصویر شائع ہوئی جس میں ایک سکھ خاندان بمعہ اپنی پگڑیوں کے عمارت کے حسن سے لاتعلق مونگ پھلیاں وغیرہ کھا رہا ہے اور نیچے لکھا تھا یہ عمارت ان کے آباواجداد نے تعمیر کی تھی۔یعنی شوشے کا اثر امریکہ تک پہنچ گیا تھا میں نے ایک محب الوطن ہندستانی سے اس نئی دریافت کے بارے میں استفاد کیا تو اس کا جواب یہ تھا کہ ٹھیک ہے تاج محل بنانے کا حکم توشاہجہاں نے دیا تھا لیکن اس پر جو مزدور کام کرتے رہے وہ تو ہندو اور سکھ تھے اب یہ تو سبط الحسن ضیغم ہی بتاسکیں گے کہ شاہجہاں کے زمانے میں سکھوں کی تعداد کتنی تھی لیکن اگر اس شوشے کو مان لیا جائے کہ عمارت بنوانے والے کے نام نہیں ہوتی بلکہ اسے تعمیر کرنے والے افراد کی ہوتی ہے تو اس سے بے شمار شوشے جنم لے سکتے ہیں مثلأٴ یہ کہ اہرام مصریہودیوں نے بنائے تھے۔
مسجد قرطبہ کی تعمیر میں چونکہ عیسائی کا ریگر میں بھی ترکوں نے حصہ لیا تھا اس لئے وہ کلیسا دراصل ترکوں نے بنایا تھا۔ سکھوں کنے مقدس دربار صاحب کا سنگ بنیاد چونکہ میاں میر صاحب نے رکھا تھا اس لئے یہ بات نکلتی ہے تو بہت دور تک جاسکتی ہے۔
اسی شوشے نے میری راتوں کی نیند اڑادی ہے کیونکہ میں براہ راست اس کی زدمیں آیا ہوں یعنی میں نے دھکے کھا کھا کر اور مقروض ہو کر ایک مکان بنوایا ہے وہ اس شوشے کی روسے میرا نہیں بلکہ مستری غلام علی اور ہدایت کا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles