Urdu Se Be Insafi - Article No. 987

Urdu Se Be Insafi

اُردو سے بے انصافی - تحریر نمبر 987

قومی زبان کواس کاحق کب ملے گا؟

پیر 30 نومبر 2015

محمد قاسم حمدان:
1998ء کواردو کے نفاد کاسال قرار دیاگیا تھا مگر 27سال گزرنے کے باوجود بھی اردو کو اس کاحق نہیں دیا جاسکا۔ جسٹس جوادایس خواجہ جنہیں صرف چوبیس دن کے لئے چیف جسٹس بنایاگیا انہوں نے اپنے عہدے کاحلف اردوزبان میں اٹھا کر عمدہ روایت قائم کی ہے۔ جسٹس جوادایس خواجہ نے اردو کے نفاد کے لئے جوکوشش شروع کی ہے، اللہ کرے اس بارکشتی منجدھارسے نکل کرکنارے لگ جائے۔
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ 1973ء کے دستور کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردوہے۔
قوموں کے عرج وزوال میں زبان کاکردار ریڑھ کی ہڈی جیسا ہوتا ہے۔ مادری زبان فطری زبان ہوتی ہے۔ انسان کی صلاحیتوں کانکھارکراسے بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ مگر اردو بحیثیت زبان آج تک یتیمی کاکرب سہہ رہی ہے۔

(جاری ہے)

اردو بحیثیت زبان یہاں سرکاری حیثیت سے اپنا آپ کبھی مہ منواسکی۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لارڈمیکالے کادیا ہوانظام تعلیم ہمارے اشرافیہ کے رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ انگریزی کوہم نے غلامی سے اپنا رشتہ استوار رکھنے کاایک موثر ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔ قدرت اللہ شہاب رقمطرازہیں، دورہ انڈنیشیا کے دوران وہ بھی ایک عوامی جلسہ میں شریک ہوئے جس سے صدر سوئیکارنوخطاب کررہے تھے اپنی زبان میں تقریرکرتے ہوئے متعدد باروہ لندیزی زبان میں بھی گرچتے۔
شہاب نے مترجم سے وجہ پوچھی تواُس نے بتایا غصے میں آکر صدرسوئیکارنوجب کسی کوڈانتے ہیں یاگالی دیتے ہیں توایسے موقع پر بے اختیار ڈچ زبان استعمال کرتے ہیں۔ اس کی وجہ مترجم نے یہ بتائی کہ غلامی کے دور میں انڈونیشی قوم نے ڈچ زبان میں گالی گلوچ اور ڈانٹ ڈپٹ سنتے سنتے کئی صدیاں گزارہیں۔ اسی لئے ڈانٹ اوردشنام کے لئے یہ زبان ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔

اگر انصاف کی بات کریں تو انگریزی کے ساتھ ہمارا بھی کچھ اسی طرح کامعاملہ ہے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہاہے کہ جب کسی ان پڑھ شخص کوانگریزی زبان میں کوئی عدالتی نوٹس جاتا ہے تووکیل حضرات اُس سے محض اُکاترجمعہ کرنے پرہی 5سوسے5ہزار روپے لے جاتے ہیں۔جوادایس خواجہ نے کہاکہ انگریز چلے گئے مگر انگریزی کی غلامی کی لعنت نہیں گئی۔ وہ اس طرح قائم ہے۔
اگر انگریزی کوہی برقرار رکھنا تھا توآزادی حاصل کرنے کی کیاضرورت تھی۔
جسٹس جوادایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ شعراء کاکلام فارسی، پنجاب اور اردو میں ہے۔ انگریزی میں نہیں۔ ہرقوم نے اپنے کلچر اور زبان کومحفوظ کیاہے۔ دنیاکے 200سے زائدممالک میں سے 189ممالک کی سرکاری زبان اُن کی قومی زبان ہے جوقومیں اپنی قومی زبان کواختیار نہیں کرتیں وہ کبھی اپنے قومی درثہ کی حفاظت نہیں کرپاتی۔

مسلمانوں کے دورحکومت میں بنگال کی زبان کارسم الخط عربی تھا اور وہ اردو سے بہت زیادہ قریب تھی لیکن جب انگریز دور میں ہندوؤں کوقوت ملی تو انہوں نے سازش کرکے بنگال میں دیونا گری رسم مسلط کردیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ا س چیز نے بنیادی کردارادا کیا۔ 1938ء میں قائداعظم نے دلی میں کہا تھا ہندی کاجبری نفاد اسلامی تمدن اور اردوزبان کے لئے پیغام مرگ ہے۔
اگرہندی کانفاد پیغام مرگ ہے توانگریزی بھی ہماری ترقی کی راہ میں دیواربرلن ہے۔ جسے اب قوم کے مفاد میں گرادنیا ضروری ٹھہرگیاہے۔
ہم 67سال سے قوم کوانگریزی پڑھارہے ہیں لیکن جب بھی پنجاب یونیورسٹی کابے اے کا رزلٹ آتاہے۔ سرشرم سے جھک جاتاہے۔ 60فیصد طلبا انگریزی میں فیل ہوتے ہیں ۔ اکثر طلباء دل برداشتہ ہوکرتعلیم کوخیربادکہہ دیتے ہیں اور یوں کامستقبل تاریکیوں میں ضائع ہوجاتاہے ۔
قائداعظم نے 1939ء میں چندربوس کے جواب میں کہاتھا ہم نے اس ہندوستان میں ہندوؤں کی خاطرعربی چھوری، ترکی چھوڑی اور زبان اختیار کی جواس ملک میں بنی اور جوکہیں اور نہیں بولی جاتی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اردو کے نفاذ کے لئے سنجیدہ کوشش ہوئی۔ اس دور میں فوج کوبھی اردو نافذکرنے کاحکم دیاگیا۔ چنانچہ 800 صفحات پر مشتمل ایک سٹینڈرڈانگلش اردو ملٹری ڈکشنری مرتب ہوکرشائع ہوئی اور تمام فوجہ یونٹوں میں تقسیم بھی کی گئی لیکن ضیاء الحق کی شہادت کے بعد آنے والے آرمی چیف نے 1973 کے آئین کی خلاف ورزی میں سوبلین حکمرانوں کا پورا پورا ساتھ دیا۔

1973ء سے لے کر2012ء تک چھ حکومتیں آئی ہیں۔ کسی نے بھی اردوکوسرکاری زبان بنانے کے لئے مخلصانہ کوشش ہی نہیں کی۔ 2005ء میں سیکرٹری کیبنٹ نے اردو کے نامور ادیبوں پرمشتمل ایک کمیٹی قائم کی۔ کمیٹی نے اردوزبان کوبطور سرکاری زبان نفاذاور ترویج واشاعت کے حوالے سے رپورٹ اُس وقت کے وزیراعظم کوبھیجوائی۔ انہوں نے وفاقی وزراء اور ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین عطاء الرحمن سمیت سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی لیکن ان کمیٹیوں کی سفارشات اور رپورٹس کے باوجود اردوسرکاری زبان کادرجہ نہ مل سکا۔
سیدیوسف رضاگیلانی نے بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے تین تین ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی یہاں بھی بات کاغذی کارروائی تک محدود رہی۔ سب سے زیادہ جوسنجیدہ کوشش ہوئی وہ 1986ء میں ہوئی۔ کیبنٹ ڈویژن سرکاری افسروں اورساڑھے تین ہزار سٹینوگرافروں اور دیگر ملازمین کو اردو زبان کے کورس کروائے لیکن 14اگست1988ء کوآئینی مہلت کے خاتمے کے بعد لاء ڈویژن کی طرف سے اٹارنی جنرل کی ایڈوائس کے بعد اردوزبان کے نفاذ کامسئلہ سردخانے میں ایسا جاپڑاکہ پھردوبارہ اٹھ ہی نہ سکا۔

بلاشبہ اس وقت چین ، جاپان، امریکہ سمیت دنیا کاشاید ہی کوئی ہوجہاں اردوبولنے اور سمجھنے والے نہ ہوں۔دنیا کی بے شمار یونیورسٹیوں میں اردو ڈیپارٹمنٹ قائم ہوچکے ہیں۔ وہاں اردوادب پرکام ہورہاہے۔ کتنے ہی ملک ہیں جہاں سے اردویڈیوسروس باقاعدگی سے جاری ہے۔ توکوں کے ہاں یہ مشہور ہے کہ ترکی اور پاکستان ملک دولیکن جسم ایک ہیں۔ ترکی سے ترک ریڈیواینڈٹی وی(TRT) اردوسردس نشرکرتاہے۔
ترکی کی انفرہ یونیورسٹی میں اردو ڈیپارٹمنٹ موجودہے۔
اردو کے نفاذ کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اردو میں جدید تکینکی ، سائنسی اور دیگر انسانی علوم پیش کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ جدید اصطلاحات کے لئے اردو میں مناسب الفاظ نہیں ہیں۔ یہ اعتراض محض غدرلنگ ہے۔ مقتدرہ قومی زبان نے اس حوالے سے بہت زیادہ کام کررکھاہے۔ اصطلاحات اور متبادل تلاش کئے جاچکے ہیں جو تھوڑی بہت کمی ہے وقت کے ساتھ مکمل ہوتی جائے گی۔
حالات وواقعات سے جوں جوں سابقہ ہوگا اصطلاحات والفاظ بھی ایجادہوتے جائیں گے۔ پاکستان میں ایسے ہی اعتراضات کرنے والوں نے انگریزی چینل شروع کئے لیکن وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ انہیں دیکھ کرجواڑان بھررہے تھے انہوں نے بھی مایوسی سے خاموشی اختیارکرلی۔ اس وقت ریاست کوبچانے اور ملک کو مضبوط اور ترقی کی شاہراہ پرگامزن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ریاست کی اپنی زبان کو سرکاری وقومی زبان بنایا جائے۔
سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کے حوالے سے ترکی کورول ماڈل بنالیں۔ جہاں ترجیح تواپنی زبان کودی گئی ہے لیکن ایک جامعات میں طلبا کی آسانی کے لئے انگریزی زبان بھی ذریعہ تعلیم ہے۔ موجودہ حکومت کواردو کو اُس کا حق وحیثیت دلانے میں پوری طرح کوششیں بروئے کارلاناہوں گی۔

Browse More Urdu Literature Articles