Yorkshire Adabi Forum Aor Naojawan Shoara - Article No. 1585

Yorkshire Adabi Forum Aor Naojawan Shoara

یارکشائر ادبی فورم اور نوجوان شعراء - تحریر نمبر 1585

مال روڈ کی جلتی بجھتی روشنیاں، باغ جناح میں بہتی ہواؤں کی خوشبو، لاہور میں بستے بہت سے دوستوں کا محبت بھرا لمس، الحمرا ہال نمبر تھری میں گونجتی واہ واہ کا شور، ناصر باغ میں اتری گرم راتوں کا فسوں گورنمنٹ کالج کا شکوہ سب ہی چلا آیا

پیر 13 نومبر 2017

تحریر: گلناز کوثر
دس نومبر دو ہزار سترہ کی یہ ایک بھیگی ہوئی شام تھی ۔۔۔ بارش ہواؤں اور بادلوں کی آنکھ مچولی کا کھیل تھا اور برطانوی شہر بریڈ فورڈ کی طرف میرا پسندیدہ سفر ۔۔۔۔ اب تو مجھے یہ رستہ تقریباً یاد ہو گیا ہے، گھنٹے دو گھنٹے کے بعد کچھ بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور پگڈنڈیوں کے سلسلے شروع ہوتے ہیں، پھر سفید پروں والی ونڈ ملز کی قطاریں ۔

۔۔۔ کچھ اندھیرا ہو تو دور اونچے نیچے ٹیلوں اور میدانوں پر بسے گھروں کی جگنوؤں جیسی جلتی بجھتی روشنیاں ۔۔۔ اس بار یارکشائر ادبی فورم نے قونصلیٹ آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے اقبال ڈے کی تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا ۔۔۔ باقاعدہ مشاعرہ تھا لیکن یارکشائر کی ٹیم نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے روایتی مشاعرے کی بجائے نوجوان نسل کو سننے کا اہتمام کر رکھا تھا۔

(جاری ہے)

۔۔۔ اور یہی اس تقریب کی خوبصورتی تھی ۔۔۔۔ مجھے علم ہے یارکشائر کے ایجنڈے میں یہ پلان کافی عرصے سے شامل تھا لیکن مجھے امید نہیں تھی کہ وہ اسے اس عمدگی سے عمل میں بھی لے آئیں گے کیونکہ برطانیہ کے ادبی منظر نامے میں نوجوان نسل تو بہت دور کی بات ہے ہمارے اپنے ہم عصروں میں ستر اسی فیصد لوگ اردو سے صرف روزمرہ بات چیت کی حد تک ہی واقفیت رکھ پاتے ہیں۔
کلچر اور روایت تو کسی نہ کسی طرح سے نبھ ہی جاتی ہے، زبان و ادب کی باری ہی نہیں آتی ۔۔۔ مشاعروں اور ادبی تقریبات کا حال بھی خاصا پتلا ہے ۔۔۔ کسی کی دل آزاری مقصد نہیں لیکن لاہور میں چار دوست چوپال میں بھی جمع ہو جاتے تو وہ سادہ لوح مشاعرہ یہاں کی اونچے بجٹ کی رنگا رنگ تقریب سے کہیں آگے کی چیز ہوا کرتا تھا لیکن خیر یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے غلط بھی ہو سکتا ہے ۔
۔۔ ایسے ماحول میں نئی نسل کو، جس نے انگریزی ماحول میں آنکھ کھولی ہو اور ٹوٹی پھوٹی، ٹکڑا ٹکڑا اردو بول کر گزارا کیا ہو، اس طرح سے آگے لانا ایک اہم کام ہے ۔۔۔۔ یہ ایک رسک تو تھا ہی لیکن بڑے حوصلے سے لیا گیا جس کے لیے یارکشائر کی ٹیم ہی نہیں وہ سارے شعرا بھی دادوتحسین کے لائق ہیں جو اس تقریب کے محض سامعین تھے ۔۔۔ سبھی نے بچوں کی کاوشوں کی خوب حوصلہ افزائی کی ۔
۔۔ یوں ہی جیسے والدین چھوٹے بچے کو قدم قدم لڑکھڑاتا سنبھلتا چلتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔۔۔ پڑھنے والوں میں کل سات نوجوان آوازیں تھیں: طلال ۔۔۔ ڈیوزبری حمزہ عمران ۔۔۔ اولڈ ہام اقرا عباس ۔۔۔۔ کوونٹری ثمر شہداد ۔۔۔ بریڈ فورڈ عمر فاروق ۔۔۔ لندن عثمان عبدالقیوم ۔۔۔ مانچسٹر انور زاہدی ۔۔۔ شیفیلڈ سبھی بچوں نے کمال اعتماد سے پڑھا، کچھ اردو اور کچھ انگریزی کے اشعار اور نظمیں سننے کو ملیں ۔
۔۔ ان کے چہرے جوش سے تلملائے ہوئے تھے اور وہ مل کر آگے بڑھنے کی منصوبہ بندیاں کرنے میں بھی مشغول تھے جس میں شاید ایک تھیٹر گروپ کی تشکیل بھی شامل تھی ۔۔۔ مجھے ذاتی طور پر اور میرے جیسے بہت سوں کواجتماعی طور پر دلی خوشی ہو گی اگر ہمارے بچے آگے بڑھ کر ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیں اوردیار غیر میں اپنی شناخت کو نہ صرف برقرار رکھ سکیں بلکہ ایک سطح پر منوا بھی سکیں ۔
۔۔ یارکشائر ادبی فورم کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے ان سے یہ درخواست ہے کہ وہ اس کام کو اور بھی توجہ اور دلجمعی سے آگے بڑھائیں اور اپنے ہر مشاعرے میں ان نئے لکھنے والوں کی کچھ نہ کچھ شمولیت کو ضرور ممکن بنائیں تاکہ نہ صرف بچوں میں یہ دلچسپی اور جوش برقرار رہے بلکہ وہ اپنے بڑوں سے کچھ سیکھ بھی سکیں ۔۔۔
مشاعرے کے علاوہ ایک تھیٹریکل پرفارمنس کا اہتمام بھی کیا گیا جس کا سکرپٹ اردو ڈرامہ نگار اور شاعرہ سیما غزل نے لکھ کر بھیجا تھا ۔
۔۔ سکرپٹ تو عمدہ تھا ہی لیکن اسے نبھایا بھی عمدگی سے گیا، گو یہ کوئی باقاعدہ پرفارمنس نہیں تھی لیکن بہت خوش آئند بات ہے کہ کہیں آگے چل کر یہ سب ایک منظم سطح پر ترتیب دیا جا سکے اس کے روشن امکانات نظر آتے ہیں۔
مشاعرے کے اختتام پر کونسلر جنرل احمد امجد علی صاحب نے نوجوان شعرا کو خوب سراہا، انہیں شیلڈز اور پھولوں کے تحفے دیے اور بعدازاں بریڈ فورڈ کی پاکستانی کمیونٹی کے لیے کام کرنے والے اہم لوگوں اور اپنے سٹاف کی خدمات کے اعتراف میں انہیں بھی شیلڈز پیش کیں۔

اس تقریب کی ایک اور خاص بات پاکستان سے آئے ہوئے مہمان شعراء کی موجودگی تھی آفتاب مضطر صاحب کو پہلی مرتبہ سننے کا اتفاق ہوا گو کہ ان کی غزل ہر ظلم تیرا یاد ہے سجاد علی کی خوبصورت آواز میں تین چار برس سے ہمارے گھر کے عمومی ماحول کا ایک حصہ ہے لیکن اس تقریب کی وساطت سے ان کی اور غزلیں سننے کا بھی موقع ملا اور جی خوش ہو گیا حالانکہ میرے علم کے مطابق عروض کے ماہر ہیں لیکن شعر بے ساختہ پر تاثیر اور کیفیت سے کہتے ہیں جتنا سنا یہی لگا کہ شعر کہتے ہوئے شعریت کو ہی مقدم رکھتے ہیں ۔
۔۔۔ ان کے کلام سے چند اشعار:
قید غم سے اگر رہا ہو جائے نہ رہے آدمی خدا ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچھڑ رہے ہو تو پلکوں پہ کیوں ستارے ہیں ۔۔۔۔۔۔ قبول و رد کے سبھی فیصلے تمہارے ہیں ۔۔۔۔ تمہاری بات پہ کیسے یقین کر لوں میں ۔۔۔۔ تمہارے ساتھ بہت روزو شب گزارے ہیں ۔۔۔۔۔ تمہاری چاہ میں ہم نے فراق کے دن رات ۔۔۔ گزارنے کے نہیں تھے مگر گزارے ہیں ۔
۔۔۔ قدم یہ سوچ کے رکھنا جنوں کی وادی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس میں صرف خسارہ نہیں خسارے ہیں
رحمان فارس کی آمد فلائٹ کی مجبوری کے باعث خاصی تاخیر سے ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مال روڈ کی جلتی بجھتی روشنیاں باغ جناح میں بہتی ہواؤں کی خوشبو لاہور میں بستے بہت سے دوستوں کا محبت بھرا لمس الحمرا ہال نمبر تھری میں گونجتی واہ واہ کا شور ناصر باغ میں اتری گرم راتوں کا فسوں گورنمنٹ کالج کا شکوہ سب ہی چلا آیا ۔
۔۔ یہ بات پاکستان میں بیٹھے دوست نہیں سمجھ سکتے کہ پردیس میں اپنے شہر سے آئے دوستوں سے ملنا کیسا ہوتا ہے ۔۔۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے زنداں میں کبھی کبھی اچانک ایک درز نمودار ہو اور بھولا بھٹکا ہوا کوئی ہوا کا جھونکا ٹھنڈی چاندنی کی موہوم سی کرن جھلک دکھلانے لگیں ۔۔۔۔ تقریب ختم ہو چکی تھی لیکن دوستوں کے اصرار پر رحمان فارس نے بھی اپنے کلام کا جادو جگایا:
بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں ۔
۔۔۔۔ ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانہ تو ہے نہیں ۔۔۔۔۔ عہد وفا سے کس لیے خائف ہو میری جان ۔۔۔۔ کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں
اختتامی مرحلہ حسب معمول موسیقی کی محفل تھی اور شبنم کی خوبصورت آواز کا جادو بھیگی رات کے فسوں میں اضافہ کرتا سماعتوں میں اترتا رہا ۔۔۔ اس بار دو اور نواجوان گلوکاروں کو بھی سننے کا موقع ملا ۔۔۔۔اور پھر آدھی رات سے کچھ پہلے یہ رنگا رنگ تقریب اختتام کو پہنچی اور سب دوبارہ ملنے کے وعدے لیتے اپنی اپنی منزل کو روانہ ہو گئے۔

Browse More Urdu Literature Articles