1947 Se Ab Tak Mulk Main Sanatoon Ki Raftar

1947 Se Ab Tak Mulk Main Sanatoon Ki Raftar

1947 سے اب تک ملک میں صنعتوں کی رفتار

دو سو سالہ طوےل غلامی کے نتےجے مےں مسلمان صنعتی، سائنسی اور تعلےمی ترقی مےں بہت پےچھے رہ گئے تھے۔ ہندوستان کے ان حصوں مےں جو آج پاکستان مےں شامل ہےں انگرےزوں نے جائےدادےں تقسےم کر کے انہےں زراعت کی طرف لگا دےا تھا۔

رانا زاہد اقبال :
دو سو سالہ طوےل غلامی کے نتےجے مےں مسلمان صنعتی، سائنسی اور تعلےمی ترقی مےں بہت پےچھے رہ گئے تھے۔ ہندوستان کے ان حصوں مےں جو آج پاکستان مےں شامل ہےں انگرےزوں نے جائےدادےں تقسےم کر کے انہےں زراعت کی طرف لگا دےا تھا۔ اسی زرعی معےشت کی بنےاد پر انہوں نے خطے کو سونے کی چڑےا قرار دےا تھا۔
ان مےں بہت کم لوگ اےسے تھے جنہوں نے جدےد رجحانات اپنانے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس ہندوستان کے دوسرے حصوں مےں صنعتی شعبہ بہت مضبوط ہونے لگا۔ حتیٰ کہ تقسےمِ برِ صغےر کے وقت ٹاٹا اور بعض دوسرے خاندانوں کی نہ صرف ہائی ٹےک انڈسٹریز چل رہی تھےں بلکہ بھاری اسٹےل انڈسٹری بھی موجود تھی جب کہ پاکستان مےں پہلی اسٹےل انڈسٹری نے1972ءمےں کام کا آغاز کےا ےعنی قےامِ پاکستان کے تقرےباً 25سال بعد۔

(جاری ہے)

1950مےں پاکستان مےں 17بڑی ملےں اور 100 کے قرےب چھوٹے کارخانے کام کر رہے تھے۔ 1948ءمےں سےمنٹ کی پےداوار 3.24لاکھ ٹن سالانہ تھی۔ جو 1964ءمےں 6.73لاکھ ٹن سالانہ ہو گئی۔ 1947ءبجلی کی پےداوار 1.10لاکھ کلو واٹ تھی جو 1954ءمےں 2.80لاکھ کلو واٹ ہو گئی۔ 1948ءمےں ہاوسنگ انڈسٹری کے لئے 14 کروڑ روپے رکھے گئے تھے۔1955ءکے بعد ہونے والے سروے کے مطابق ملک مےں اسٹےل مل کے دو, اسٹےل ری رولنگ کے 34 ، شپ ےارڈ کے 12، لائٹ انجےنئرنگ کے 352 چھوٹے بڑے کارخانے کام کر رہے تھے۔
دےگر صنعتوں کی تعداد 117تھی۔1950ءسے 1959ءتک بڑی صنعتوں کی تعداد مےں پانچ گنا اضافہ ہوا۔ قےامِ پاکستان کے وقت فلور مل انڈسٹری مےں 3.25ملےن ٹن گندم پےسنے کی صلاحےت تھی جو 1959ءمےں 20لاکھ ٹن ہو گئی۔ چےنی کی پےداوار 1.15لاکھ ٹن سے بڑھ کر 1960ءمےں 2.35 لاکھ ٹن تھی۔ کاٹن سےڈ آئل کی پےداوار 30ہزارٹن اور چائے کی پےداوار 10لاکھ پونڈ ہو گئی۔ 1947ءمےں 17700 اسپنڈلز اور 4800 پاور لومز کام کر رہی تھےں۔
1960ءپاور لومز کی کی تعداد 37000 ہو گئی۔ جب کہ اسپنڈلز کی تعداد مےں بھی کئی لاکھ کا اضافہ ہوا ۔ پاکستان مےں جوتوں کی چھوٹی بڑی 12فےکٹرےاں ورثے مےں ملی تھےں۔ 1957ءچمڑے کی 40 لاکھ روپے کی مصنوعات برآمد کےں۔ 1955ءمےں ٹےنرےز کی تعداد بھی 80ہو گئی تھی۔ 1959مےں مجموعی طور پر ٹےکسٹائل انڈسٹری مےں اےک ارب روپے کی سرماےہ کاری ہوئی۔ 1952ءمےں 90کروڑ روپے کی کاٹن مصنوعات برآمد کی گئےں۔
کاٹن مصنوعات کی برآمد ملک کی تارےخ کا اہم ترےن موڑ تھا۔1950ءسے 1970ءتک جی اےن پی مےں ترقی کی شرح 122فےصد رہی۔ پہلے دس سال مےں اضافہ کی شرح 28فےصد اور دوسرے عشرے مےں 73فیصد رہی ہے۔ 1949ءمےں جی اےن پی 24.466 ارب روپے اور مجموعی فی کس آمدنی 253روپے سالانہ تھی۔ 1960ءمےں جی اےن پی 54.289 ارب روپے اور فی کس آمدنی 567روپے سالانی ہو گئی تھی۔ 2001ءمےں جی اےن پی 3778155 ملےن روپے جب کہ 2016ءمےں جی اےن پی 12465443ملےن روپے ہو گئی۔
تعمےراتی انڈسٹری کا جی اےن پی مےں حصہ 1949ءمےں اےک فےصد تھا جو 1970ءمےں بڑھ کر پانچ فےصد ہو گےا۔ مےنوفےکچرنگ کا حصہ 6فےصد سے بڑ کر 12فےصد ہو گےا۔ 1955ءمےں ملک بھر مےں 3035فےکٹرےاں اور کارخانے تھے۔ جن مےں سوا دو ارب روپے کی سرماےہ کاری ہوئی تھی۔ ان مےں سے 10 بڑے کارخانے پی آئی ڈی سی نے 1.40ارب روپے سے لگائے تھے۔ زرعی بنےاد رکھنے والی فےکٹرےوں کی تعداد سب سے زےادہ ےعنی 1264تھی۔
گندم کے 40، چاول صاف کرنے کے 219، وےجیٹےبل گھی کے 219، خوردنی تےل کے 130، فوڈ پروسےسنگ کے 6،چےنی کے 10، سگرےٹ کے 6، ٹےکسٹائل کے 340، ہوزری کے 75، پےپر وغےرہ کے 13، چائے کے 119، کےمےکل کے109، صابن کے 6، ماچس سازی کے 19، ادوےہ کے56، پلائی وڈ کے 3اور لکڑی وغےرہ کے 28کارخانے اس مےں شامل تھے۔ اےک رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب مےں 1975 ءمےں چھوٹے بڑے کارخانوں کی تعداد 6236تھی جو 1980ءمےں 8729، 1985ءمےں 11658، 1988ءمےں 44560، 2002ءمےں 61103، 2006ءمےں ان کی تعداد اےک لاکھ اور 2016ءمےں دو لاکھ سے زائد ہو چکی تھی۔
1970ءمےں سابق مشرقی پاکستان مےں حالات کی خرابی اور اس کے بعد ہونے والی پاک بھارت جنگ سے ہماری معےشت کو مزےد دھچکا لگا اور عالمی تجارت پر بھی برا اثر پڑا۔ 1974ءمےں بڑی صنعتےں قومےانے کے باعث صنعت کاروں نے بھی سرماےہ کاری سے ہاتھ کھےنچ لیا جس سے صنعتی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا جب کہ سرماےہ غےر قانونی طور پر باہر منتقل ہو گےا۔ 1970ءسے 1976ءتک کا دورِ حکومت صنعتی ابتلا کا دور تھا۔
اس دور مےں صنعتی ترقی تےن فےصد تک رہی۔ 1980ءمےں صنعتےں قومےانے کی پالےسی کو رےورس کےا گےا جس سے سرماےہ کاروں کا حوصلہ بڑھا اور بڑی صنعتوں کی ترقی کی رفتار تقرےباً 9فےصد تک رہی۔ 1980ءمےں پہلی مرتبہ آئی اےم اےف سے مذاکرات شروع ہوئے، صنعتی ترقی کے لئے اےک تےن سالہ معاہدہ ترتےب دےا گےا۔ جس کے بعد عالمی بےنک، اےشےائی ترقےاتی بنک، جاپانی فنڈ، کےنےڈا کی اےجنسےوں سمےت کئی عالمی ادارے مےدان مےں آئے ۔
مگر ساتھ ہی ہمارے بےرونی قرضے تےزی سے بڑھنے لگے اور اب پاکستان پر عالمی قرضوں کا بوجھ 78ارب ڈالر سے زائد ہے۔بعد کے برسوں میں قومی معےشت مےں نجی شعبے کی زےادہ سے زےادہ شرکت کے لئے جو قانون سازی شروع ہوئی وہ موجودہ حکومت کے دور تک جاری ہے۔گزشتہ چند برسوں مےں ٹےلی کام، موبائل و کار انڈسٹری نے بے انتہا ترقی کی ہے۔ اس وقت ملک مےں 83 کارخانے گاڑےاں اسمبل کر رہے ہےں جب کہ 600ادارے اس صنعت سے منسلک ہےںاس مےں اربوں کی سرماےہ کاری اور لاکھوں افراد کو روزگار مےسر ہے۔
صوبہ خےبر پختونخواہ کے دور افتادہ علاقوں مےں بھی صنعتےں قائم کی گئےں۔ چونےاں، لاہور، ملتان، فےصل آباد، کراچی، گوجرانوالہ اور گدون امازئی سمےت اس سمت کافی کام ہوا۔ملک مےں اس وقت 52اقسام کی معدنےات کی تلاش اور اس سے ملکی معےشت کوتقوےت دےنے کے مختلف منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ 1988ءکے بعد سے مختلف حکومتوں کی صنعتی پالےسی کم و بےش اےک جےسی رہی ہے آئی اےم اےف اور عالمی بےنک کے ساتھ معاہدات کے بعد پالےسی مےں تسلسل برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بےرونی سرماےہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی اور انہےں سستی اراضی بھی مہےا کی گئی۔ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ ملک مےں تےزی سے جاری ہے جو کہ گےم چےنجر ثابت ہو گا اس کی تکمےل پر ملک صنعتی ، تجارتی اور کاروباری لحاظ سے بہت ترقی کر ے گا اور آنے والے وقتوں مےں ےہ منصوبہ ملکی ترقی مےں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جس سے نہ صرف ملکی معےشت مضبوط ہو گی بلکہ روزگار کے ذرائع بھی پےدا ہوں گے۔ دنےا کے لئے اس سے استفادہ ناگزےر ہو جائے گا اور آج جو ممالک اس کی مخالفت کر رہے ہےں کل وہ بھی اس سے فائدہ اٹھانے والوں مےں شامل ہوں گے۔

Browse More Business Articles