Gannay Ki Crushing Sugar Malikaan Ka Aika

Gannay Ki Crushing Sugar Malikaan Ka Aika

گنے کی کر شنگ شوگر مالکان کا ایکا

ہر سال گنے کی کرشنگ سیزن سے پہلے کاشتکار شوگر مل مالکان انتظامیہ کی ہٹ دھرمی پر سراپا احتجاج بنتے ہیں تو گنے کی کرشنگ کے بعد اپنی فصلوں کی رقم حاصل کرنے کے لئے سراپا احتجاج بننا بھی کماد کے کاشتکاروں کی قسمت بن چکی ہے۔

احمد جمال نظامی:
گنے کے کاشتکاروں اور شوگر مل مالکان کے مابین آنکھ مچولی کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری رہتا ہے۔ ہر سال گنے کی کرشنگ سیزن سے پہلے کاشتکار شوگر مل مالکان انتظامیہ کی ہٹ دھرمی پر سراپا احتجاج بنتے ہیں تو گنے کی کرشنگ کے بعد اپنی فصلوں کی رقم حاصل کرنے کے لئے سراپا احتجاج بننا بھی کماد کے کاشتکاروں کی قسمت بن چکی ہے۔
اس ضمن میں کاشتکاروں کو کون کون سے مسائل کا سامنا ہے اور ان مسائل کی بنیادی وجہ کیا ہے، اس کو سمجھنا زیادہ مشکل کام اس لئے نہیں کہ صوبہ سندھ ہو، پنجاب ہو یا دیگر صوبے، شوگر مل مالکان کی اکثریت بڑے وڈیروں، وزرا ء ارکان اسمبلی، اور دیگر سیاستدانوں کی ملکیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شوگر مل اگر کسی نے بھی لگانی ہو تو اس کے لئے قرض کی شرائط اتنی آسان ہیں کہ قرض حاصل کرنے والا دونوں ہاتھوں سے اپنی جیبیں بھرتا ہے۔

(جاری ہے)

مل مالکان اور ان کی انتظامیہ کتنی بااثر ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال گنے کی کرشنگ کے لئے کسان بورڈ نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور عدالت کی طرف سے حکم جاری کیا گیا کہ 23نومبر کو ہر حال میں شوگر ملیں چلا دی جائیں تاکہ کماد کی فصلوں کی کرشنگ ہو سکے۔ دراصل جب کماد کی فصل کی بروقت کرشنگ نہیں ہو گی اور کھیت خالی نہیں ہوں گے تو گندم کی فصل کی پیداوار کا سارا مرحلہ تاخیر کا شکار ہو گا۔
دوسرا گنے کی قیمت بھی گرائی جا سکے گی۔ لہٰذا اس ضمن میں گنے کے کاشتکاروں اور مختلف زرعی تنظیموں کی طرف سے یہ الزام سامنے آ رہا ہے کہ کاشتکاروں کو بلیک میل کرنے اور حکومتی نرخوں کے برعکس کاشتکاروں کو من مرضی کے نرخ فراہم کرنے کی غرض سے مل مالکان نے آپس میں اتحاد کر لیا ہے اور اس اتحاد کے ذریعے کئی دنوں تک شوگر ملوں کو نہیں چلایا گیا جس کی وجہ سے گنے کی کرشنگ بھی متاثر ہوئی جبکہ کسان بورڈ کی طرف سے احتجاج سامنے آ رہا ہے کہ شوگر ملوں نے گزشتہ سال کی نسبت گنے کی قیمتیں کم کرنے اور کاشتکاروں کے گنے کے واجبات ہڑپ کر کے پوری قوم کے اربوں روپے لوٹ لئے ہیں اور آئندہ کھربوں روپے لوٹے جانے کا اندیشہ ہے۔
کسان بورڈ کے رہنما علی احمد گورایہ نے کہا کہ شوگر مل مالکان گنے کی قیمت کم کرانے کے لئے شوگر ملیں چلانے میں تاخیر کر رہے ہیں اور کسانوں کو لوٹنے کے لئے انہوں نے آپس میں ایکا کر لیا ہے لیکن حکومت اور حزب اختلاف میں شامل تمام بڑی بڑی پارٹیوں کے سربراہ اور دیگر بڑے بڑے سیاستدان شوگر ملوں کے مالک ہیں اس لئے حکومت اور اپوزیشن نے بھی شوگر ملوں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
شوگر ملوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شوگر مل مالکان اور حکومت کی کسان کش پالیسیوں کی وجہ سے کاشتکار کنگال ہو چکے ہیں اور گنے کی کرشنگ سیزن میں تاخیر سے آئندہ سال گندم کی پیداوار ایک مرتبہ پھر ایک چوتھائی تک کم ہو جائے گی۔ گندم کی پیداوار اور رقبے میں بھی 30فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ حکومت کی طرف سے گنے کی امدادی قیمت 180روپے فی من مقرر کی گئی ہے مگر موجودہ صورت حال کے مطابق یہ بازگشت سامنے آ رہی ہے کہ شوگر مل مالکان آپس میں سازباز کر کے کسانوں کو 160روپے امدادی قیمت فراہم کرنے کا پرچار کر رہے ہیں۔
ہر سال گنے کے کاشتکاروں کو اپنے پورے سال کی محنت کا معاوضہ بھی بروقت نہیں دیا جاتا اس کے لئے کسانوں کو بار بار احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ سڑکیں بلاک کرنی پڑتی ہیں پھر جا کر کہیں ان کے نرخوں کو ادا کیا جاتا ہے۔ بسااوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوگر مل مالکان یا ان کی انتظامیہ گنے کے کاشتکاروں کی کچھ رقم ان کو احتجاج پر فراہم کر دیتے ہیں جبکہ باقی ماندہ رقم نیچے لگا لی جاتی ہے۔
گنے کے کاشتکاروں کو کہا جاتا ہے کہ انہیں یہ رقم آئندہ سال کرشنگ کے موقع پر دے دی جائے گی۔ ظاہری سی بات ہے کہ شوگر مل میں کماد کی فصل بنیادی خام مال کا کردار ادا کرتی ہے اور جب شوگر مل مالکان اپنے حکومتی اور اپوزیشن کے اثرورسوخ کی بناء پر کسی قسم کی کارروائی سے آزاد ہو کر غریب کاشتکاروں کی رقم سے اپنی ملیں چلا رہے ہوتے ہیں۔اس صورت حال کی وجہ سے کماد کی فصل کو انتہائی کلیدی اہمیت حاصل ہو گئی ہے ، یہ فصل پورے سال کیلئے کھیتوں میں کاشت اور دیگر اجناس کا فیصلہ کرتی ہے۔
پاکستان کا شمار ان خوش نصیب ممالک میں ہوتا ہے جس کی معیشت کا انحصار صرف کسی ایک شعبہ پر نہیں بلکہ دو شعبوں پر ہے۔ ان میں سے زراعت بھی ایک شعبہ ہے۔ شعبہ زراعت حقیقی معنوں میں ہمارے ملک میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے لیکن شوگر مل مالکان کاشتکاروں کا ہر سال اور سال بھر گلہ دبا کر رکھتے ہیں۔ یہی معاملہ ہر سال گندم کی کٹائی کے موقع پر باردانہ کے حصول کے سلسلے میں سامنے آتا ہے جب باردانے کا حصول ایک معمہ بنا دیا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے مقررکردہ فی من نرخوں پر عملدرآمد کی بجائے کسان آڑھتیوں اور مڈل مین کے ہاتھوں اپنی فصلوں کو کم نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس صورت حال میں شعبہ زراعت سے منسلک بہت سارے کاشتکار اپنی زمینوں کو فروخت کر کے دیگر روزگار ہائے زندگی اپنانے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جن علاقوں اضلاع اور شہروں میں زرعی زمینیں شہری شاہراہوں کے ساتھ منسلک ہو جاتی ہیں وہاں کے کاشتکار ہنسی خوشی اپنی زمین فروخت کر دیتے ہیں اور اس طرح سے یہ زرعی زمینیں غیرزرعی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہونے لگتی ہیں۔
حکومت کچھ علاقوں میں ابتدائی طور پر انہیں گرین لینڈ ڈکلیئر کر کے پالیسیز کو مربوط بنانے کا ڈرامہ رچاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور کچھ قلیل عرصے کے بعد ہی ایسے علاقوں میں ملیں، کارخانے، پلازے، رہائشی کالونیاں اور دیگر کمرشل سرگرمیوں کی اجازت دے دی جاتی ہے جس سے یہ بات اظہرمن الشمس ہوتی ہے کہ شعبہ زراعت درحقیقت بحران کی زد میں ہے۔
کاشتکار کو اجناس کے پیداواری عوامل میں کھاد، بیج سے لے کر پانی لگانے اور اپنی فصلوں کی کٹائی سے لے کر اسے منڈیوں میں فروخت کرنے تک شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مشکلات میں شعبہ زراعت کو بحران میں دھکیل رکھا ہے مگر ہمارے حکمران اس جانب توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کر رہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر شعبہ زراعت کی بدحالی کو خوشحالی میں بدلنے کے لئے اس کی ابتداء گنے کے کاشتکاروں کو بروقت حکومتی مقررکردہ نرخ فراہم کر کے شروع کی جائے اور آئندہ ہر اجناس اور فصل کی کٹائی سے لے کر فروخت تک اور اسی طرح اس کی بجائی سے لے کر اگائی تک کے تما م معاملات کو موثر بنانے کے لئے حکومت کسان دوست حقیقی پالیسیاں اپنائے۔
سیاسی بنیادوں پر مقاصد حاصل کرنے کے لئے قرضوں کی فراہمی جیسی غیرموثر سکیموں کو صرف اور صرف سیاسی رشوت اور ہتھیار کا نام دیا جا سکتا ہے لیکن اس سے بہتری کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا کہ بہتری بہتر پالیسیوں سے ہی آیا کرتی ہے۔

Browse More Business Articles