Marboot Taraqi Ka Razz

Marboot Taraqi Ka Razz

مربوط ترقی کا راز اور تھنک ٹینکس

خلفا و راشدین کے بادشاہوں کے درباروں تک صلاح و مشورے اور پبلک پالیسی کے سلسلے میں کیا جانے والا مشاورت کا سفر منازل طے کرتا ہوا آج کی جدید دنیا میں تھنک ٹینکس کی صورت اختیار کر چکا ہے جن سے نا صرف حکومتیں بلکہ افراد و کاروباری ادارے بھی مستفید ہو رہے ہیں

راحت جاوید:
خلفا و راشدین کے بادشاہوں کے درباروں تک صلاح و مشورے اور پبلک پالیسی کے سلسلے میں کیا جانے والا مشاورت کا سفر منازل طے کرتا ہوا آج کی جدید دنیا میں تھنک ٹینکس کی صورت اختیار کر چکا ہے جن سے نا صرف حکومتیں بلکہ افراد و کاروباری ادارے بھی مستفید ہو رہے ہیں۔پوری دنیا کے معاشی و اقتصادی معاملات کو ایک سرکلر میں جکڑنا ہو یا تہذیبوں کا ٹکراؤ کرانا ہو یا دنیا کی جنگوں کو ڈائیلاگز کی مدد سے جیتنا ہو یا پھر دنیا کو Dominant کرنے کی پلاننگ ہو یا پھر مخالف نظریات رکھنے والوں کو خانہ جنگی میں الجھا کر اپنے عزائم کو پورا کرنے کی جستجو ان تمام مقاصد کے حصول کیلئے امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا جس قوت کی محتاج ہے وہ تھنک ٹینکس ہی ہیں جس میں مختلف Fields Of Lifeکے مکاتب فکر مل بیٹھ کر کسی ایک مسئلہ کے حوالے سے مشاورت کرتے ہیں اور اپنی سفارشات متعلقہ حکومتی اداروں کو فراہم کرتے ہیں انہی سفارشات کی روشنی میں حکومتیں پالیسیاں بناتی ہیں اور پھر نتائج دنیا دیکھتی ہے۔

(جاری ہے)

عالمگیریت کے اس دور میں بقاء ترقی اور اختیار صرف ان ہی کو حاصل ہیں جو علم، تجربہ اور مہارت کی بنیاد پر مرتب کردہ مشوروں کو اپنی قلیل اور طویل المدتی پالیسیوں کا حصہ بناتے ہیں اور ان کے تسلسل کو جاری رکھتے ہیں مشاورت کا یہ عمل آج دنیا میں 6846 تھنک ٹینکس کی شکل میں موجود تحقیق اور حقائق کی پرکھ سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں پالیسی سازی کرتے ہیں اس طرح کئی ممالک تو ترقی کی راہ میں کہیں آگے نکل گئے ہیں تو کئی ابھی راستے کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔
امریکہ سپر پاور ہونے کی حیثیت سے اس وقت دنیا کے 27 فیصد تھنک ٹینکس رکھتے ہوئے سب سے آگے ہے اس ترقی کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ اپنے حکومتی معاملات سے سوسائٹی اور میڈیا کی مشاورت و رہنمائی اور معلومات تک کی رسائی کیلئے ان سے استفادہ کرتا ہے اور ان کے مشوروں کو انتہائی قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھتا اور اپنی پالیسیاں انہی کی روشنی میں ترتیب دیتا ہے۔
اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک خصوصاً وطن عزیز میں تھنک ٹینکس سے استفادہ کی صورتحال کوئی اتنی حوصلہ افزا نہیں۔دراصل تھنک ٹینکس پبلک پالیسی کی تحقیق اور تجزیہ میں مصروف ایسے ادارے ہیں جو مقامی اور بین الاقوامی مسائل پر پالیسی، تحقیق، تجزیہ اور صلاح و مشورے دیتے ہیں۔
اس کی تعریف کچھ اس طرح سے کی گئی ہے کہ افراد کا ایسا گروہ جس کو پیسے دیئے جاتے ہیں کچھ نہیں کرنے کے سوائے پڑھنا۔
Discuss کرنا، سوچنا اور لائحہ عمل تیار کرنا۔ یہ ایک ایسی ریسرچ یونیورسٹی ہے جس میں نہ شاگرد ہیں اور نہ استاد صرف ریسرچ اور ریسرچ ہوتی ہے جو ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ان کا بنیادی کام حکومت کو اندرونی و بیرونی مسائل کے حوالے سے اپنی Findings اور معلومات بذریعہ میڈیا، کانفرنسز، آرٹیکلز اور کتابوں کی صورت میں فراہم کرنا ہے جن میں مسئلہ کے حوالے سے کئی اہداف چھپے ہوئے ہوتے ہیں جن میں ملکی سالمیت عالمی و پبلک بہتری وغیرہ شامل ہیں۔
افلاطون کے مطابق یہ تھنک ٹینکس سیاستدانوں کوسوچنے کا لائحہ عمل اور مواد فراہم کرتے ہیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ To Hep The Govt To Think یعنی گورنمنٹ کیلئے Supporting Role کا کام کرتے ہیں۔یہ تھنک ٹینکس ایسی آرمی کے طور پر جانے جاتے ہیں جو سوچ کو بدلتے ہیں جس کے نتیجے کے طور پر Actual آرمی کام کرتی ہے۔ زیادہ تر امریکہ کے جتنے بھی تھنک ٹینکس ہیں ان کے اہداف امریکہ کی Supermacy اور اس کے ذاتی مفادات پر ہی ختم ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ دراصل تھنک ٹینکس کی سوچ کی ہی ایک شکل ہے۔ان کی فارن پالیسی میں Level Consistent پایا جاتا ہے اور ان میں Clearity پائی جاتی ہے۔ جو کہ تھنک ٹینکس کی طرف سے تشکیل کردہ ہوتی ہیں لہٰذا صدور کی بدلی اس میں کوئی فرق نہیں لا پاتی۔
یہ زیادہ تر خاص سطح پر کام کرتے ہیں جن میں حکومت، پرائیویٹ سیکٹر اور دیگر اہم گروپس اور ادارے شامل ہیں اور ان کی تحقیقات حقائق پر مبنی ہوتی ہیں نہ کہ اپنی انفرادیت پر۔
تھنک ٹینکس میں وہ لوگ شامل ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ، محقق اور وسیع المطالعہ ہوتے ہیں یہ اپنے خیالات کو متعارف کرواتے ہیں جو تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں۔امریکہ میں سوشل یونیورسٹیز میں بھی تھنک ٹینکس موجود ہیں جس میں وہ اپنی تحقیق Class Room تک لاتے ہیں اور اپنی سفارشات متعارف کراتے ہیں وہاں یہ بہت عام سی بات سمجھی جاتی ہے کہ پروفیسرز ایک دو سال کی چھٹی پر جا کر حکومت کے ساتھ کام کرتے ہے۔
دنیا کا پہلا تھنک ٹینک جو کہ 1824ء میں امریکہ میں دی فرینکلن انسٹیٹیوٹ
Franklin Institute Theسے ملتا جلتا تھا جس کا کام Franklin Benjamin کو خراج تحسین پیش کرنا اور ان کی ایجادات کو بڑھانا تھا۔ دنیا کا پہلا سیاسی تھنک ٹینک The Society Fobian ہے جو برطانیہ میں 1884ء میں قائم ہوا۔ تھنک ٹینک کی باقاعدہ اصطلاح D Corporatio RANسے نکلی ہے جس نے امریکہ کیلئے سٹرٹیجک سوچ و بچار کا محفوظ ماحول فراہم کیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اس طرح کے ادارے دنیا بھر میں پھیلنے لگے اور اب 197 ممالک میں تھنک ٹینکس موجود ہیں۔ 2015ء کی رپورٹ کے مطابق 1835ء کی تعداد کے ساتھ امریکہ پہلے نمبر پر، چین 435 کی تعداد کے ساتھ دوسرے جبکہ برطانیہ 288 کی تعداد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
ان ترقی یافتہ ممالک کی پوزیشن سے ان کی ترقی و بقاء و خو مختاریت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں اس طرح سے تھنک ٹینکس موجود نہیں اور نہ ہی ریاستیں اس طرح سے ان سے مستفید ہو رہی ہیں۔ حالانکہ حکومتیں ان کی اہمیت و نوعیت سے بخوبی آشنا ہیں اور انہیں کسی حد تک اہم بھی گردانتی ہیں مگر ابھی ان کی وہ Capacity نہیں ہے یہ معاملات پاکستان میں ابھی پیچیدہ ہیں جب تک تعلیم کو اہمیت نہیں دی جائے گی کوئی یقینی صورتحال نہیں نکالی جا سکتی۔
حکومتوں میں بھی Awarness اورClearity in terms نہیں ہے یہ اس چیز سے بے خبر ہیں کہ پاکستان کو کہاں لے کر جانا ہے۔ یہ صرف Anti Govt لوگوں کو Deal کرنا جانتے ہیں یہاں Anti State سے زیادہ Govt Anti زیادہ Crisis کا شکار ہے۔ کوئی مقاصد و ہدف نظر نہیں آتے اور نہ پاکستان کیلئے کوئی ایک Direction ہے جتنے لوگ اتنی ہی پالیسیز ہیں۔پاکستان کے سروے باہر کی کمپنیاں بیٹھ کر کر رہی ہیں Rating باہر کی جاتی ہے اور پالیسیاں بھی باہر سے بن کر آتی ہیں۔
پھر ایسے میں پاکستان کس حد تک کامیابی کی طرف جا سکتا ہے جب بیرونی تھنک ٹینکس پاکستان کیلئے کام کریں گے تو وہ پہلے اپنے مفادات کو پورا کریں گے اور پھر کہیں امدادی کارروائی کریں گے ۔ تھنک ٹینکس پاکستان کی ضرورت ہیں اگر یہ تشکیل دے دیئے جائیں اور ان کی تحقیقات کی روشنی میں پالیسیاں ترتیب دی جائیں تو پاکستان بھی ترقی کی منازل طے کرنے میں پیچھے نہیں رہے گا۔ ضرورت صرف جذبہ حب الوطنی، ریاست سے خلوص، تعلیم سے لگن اور Goals میں Clearity کی ہے۔

Browse More Business Articles