Pakistan Railway Main Khasary Se Taraqi Ka Rujhan

Pakistan Railway Main Khasary Se Taraqi Ka Rujhan

پاکستان ریلوے میں خسارے سے ترقی کا رحجان

پاکستان ریلویز کا شمار آج سے چار برس پہلے ایسے ہی اداروںمیںہوتاتھا،جس کا خسارہ33ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکا تھا۔جس میں ہر برس تین سے چار ارب کا اضافہ ہو رہا تھا۔ ایسے برے حالات میں جب سعد رفیق وفاقی وزیرریلوے بنے تو اس وقت پاکستان ریلوے کو نیلام کر نے کی تجاویز زیر غور تھیں۔

ابوزین:
پاکستان ریلویز کا شمار آج سے چار برس پہلے ایسے ہی اداروںمیںہوتاتھا،جس کا خسارہ33ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکا تھا۔جس میں ہر برس تین سے چار ارب کا اضافہ ہو رہا تھا۔ ایسے برے حالات میں جب سعد رفیق وفاقی وزیرریلوے بنے تو اس وقت پاکستان ریلوے کو نیلام کر نے کی تجاویز زیر غور تھیں۔ اس کی شہر ، شہر بکھری اربوں، کھربوں روپوں کی زمین قبضہ گروپوں نے کوڑیوں کے مول ہتھیانے کی تیاری کر رکھی تھی، کہ خواجہ سعد رفیق نے اعلان کیا وہ قومی اثاثہ پاکستان ریلویز کو نہ تو نیلام ہونے دیں گے او رنہ ہی اس کی نجکاری کریںگے۔
یہ ایک ناقابل یقین اعلان تھا، جب ریلوے کی فیکٹریاں بند ہو چکی تھیں، وہاں بجلی کے کنکشن کٹ چکے تھے، کارکنوں کو تنخواہوں کے حصول کے لئے احتجاجاً سڑکیں بند کرنا پڑتی تھےں۔

(جاری ہے)

مختلف سیکشن تیزی کے ساتھ بند ہو رہے تھے ، بزرگ کارکنوں اور لاچارپنشنروں کے اربوں روپے واجب الادا ہو چکے تھے۔ ریلوے کو عملی طور پر ٹھیکیدار چلا تے تھے یعنی وہ فیصلہ کرتے تھے کہ پاکستان ریلوے کو کس شے کی اور کس قیمت پر ضرورت ہے۔

کسی بھی کمرشل ٹرانسپورٹ ادارے میں فریٹ یعنی مال برداری سے ہی منافع کمایا جاتا ہے جبکہ مسافر بردار گاڑیوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ مگر عملی صورتحال یہ تھی کہ ریلوے سال میں فریٹ کی صرف ایک سو بیاسی ٹرینیں اپ کنٹری روانہ کر رہا تھا یعنی ہر دوسرے روز محض ایکفریٹ ٹرین نکلتی تھی ۔ صنعتی امن خواب ہوتا چلا جا رہا تھا اور جو دھڑا مضبوط اور طاقت ور تھا وہ انتظامیہ سے مراعات پر مراعات لے رہا تھا۔
ریلوے کو لوکوموٹیوز یعنی انجن چلاتے ہیں مگر ان انجنوں میں جعلی موبل آئل استعمال ہو رہاتھا، ڈیزل کے ٹینک خالی تھے۔ اس کی نشاندہی دو ہزار گیارہ کی آڈٹ رپورٹ میں بھی موجود ہے۔ چار ٹریکشن موٹروں پر چلنے والے انجن ایک ، دو یا تین موٹروں پر بھی چل رہے تھے۔ معلقہ وزارت نے چیئر پرسن، سی ای او، ممبر فنانس سمیت اہم عہدوں کے لئے محنتی اور دیانتدار افسران کا انتخاب کر کے کام کا آغاز کیا۔
ادارے میںہفتے کی چھٹی بھی ختم کر دی گئی ،روزانہ بارہ ، بارہ گھنٹے اجلاس ہونے لگے، دل لگا کے دماغ کھپائے جانے لگے اور دم توڑتی ہوئی ریلوے میں زندگی کے آثار نظر آنے لگے۔سب سے اہم مسئلہ وقت مقررہ پر ٹرینوں کی آمدو رفت تھی۔ ٹرینوں میں وقت کی پابندی نصف سے بھی کم پر پہنچ چکی تھی، ٹرینوں میں بجلی کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ ایک ٹرین کے کچھ ڈبے دوسو بیس وولٹ پر ہوتے تو باقی آدھے ایک سو دس وولٹ پر اور نتیجے میں پوری ٹرین ہی بغیر بلبوں اور پنکھوں کے اندھیری ڈرآنی غار بنی چل رہی ہوتی تھی۔
ریلوے ایک کمرشل ادارہ ہے اور کمرشل ادارے اپنی کمائی پر ہی چلتے ہیں۔ چار برس پہلے اس میں لائی جانے والی تبدیلیاں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔پہلے سال میں اس کی آمدن اٹھارہ ارب روپے ہو گئی پھر وفاقی حکومت نے تیس ارب کمانے کا ٹارگٹ دیا تو تینتیس ارب کمائے گئے، تینتیس ارب کے ٹارگٹ پر چھتیس اور چھتیس ارب کے ٹارگٹ کے جواب میں گذشتہ مالی سال میں چالیس ارب روپے کی آمدن حاصل کی جاچکی ہے۔
جبکہ موجودہ مالی سال میں اکٹھے دس ارب کی چھلانگ لگاتے ہوئے پچاس ارب روپے کمانے کا ٹارگٹ رکھ دیا گیا ہے۔ریلوے میںکبھی ٹرینوں کی ٹکٹیں بلیک ہوتی تھیں اور اب آپ بغیر کسی جھنجٹ اور پریشانی کے آن لائن بکنگ کروا سکتے ہیں۔ اوورہالنگ کی بجائے ٹرینوں کی اپ گریڈیشن شروع کی جا چکی ہے ، ایک درجن کے قریب نئی ٹرینیں چلائی جا چکی ہیں جبکہ اگلے ڈیڑھ ،دو برس میں کوئی پرانی کھٹارہ ٹرین باقی نہیں رہے گی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعدانگریز کے پاس پیسے ختم ہو گئے اور ریلوے پر قیام پاکستان کے بعد سے کوئی بڑی رقم خرچ نہیں ہو سکی۔ مگر اس وقت گیارہ ریلوے اسٹیشن زیر تعمیر ہیں جن میں سے چند ہی دنوں میں اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن کا افتتاح ہونے والا ہے۔ کوہاٹ پنڈی ہی نہیں بلکہ سبی ہرنائی کے سیکشن بھی بحال ہو رہے ہیں۔ ریلوے کے پاس چار برس پہلے فریٹ کے لئے صرف آٹھ انجن تھے اور اس وقت پچانوے ہیں، سالانہ چلنے والی 182 فریٹ ٹرینیں اب بڑھ کر ساڑھے تین ہزار سے ہو چکی ہیں۔
حال ہی میں جنرل الیکٹرک امریکن ساختہ چار ہزار ہارس پاور کے پچپن انجن ریلوے فلیٹ کا حصہ بنا دئیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے اس جدت اور طاقت کا حامل کوئی بھی انجن پاکستان ریلوے کے پاس نہیں تھا۔ریلوے کارکنوں کی تنخواہیں اب مہینہ ختم ہوتے ہی ان کے اکاونٹ میں منتقل ہوجاتی ہیں، وہ پنشنرز جن کے اربوں واجب الادا تھے اور وہ قطاروں میں لگے لگے فوت ہو رہے تھے اب ان کی پنشن ان کے اکاونٹ میںمنتقل ہوجاتی ہے ، پانچ ارب کے واجبات کلیئر کیے جا چکے ہیں بلکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کارکنوں کو باقاعدہ الاونس بھی دیا گیا۔
سوا سو برس پہلے انگریز ریلوے کا جو ڈھانچہ بنا کے چلا گیا تھا وہ آج تک قائم ہے اور پہلی مرتبہ ریلوے کی ری سٹرکچرنگ ہورہی ہے۔ تاریخ نے یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھا کہ امسال جولائی میں ہونے والی ڈرائیوروں کی ہڑتال صرف اور صرف خواجہ سعد رفیق او ر ان کی پر اعتماد ٹیم کی کوششوں کے نتیجے میں صرف چھ گھنٹوںمیںختم ہو گئی۔ کامیابی کی داستان کا ابھی یہ پہلا باب ہے۔
دوسرا باب اس وقت لکھا جائے گا جب سی پیک یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے پاکستان ریلویز کی اپ گریڈیشن کی گاڑی کا ایکسیلیٹر دبے گا اور پہلے مرحلے میں ٹرین کی رفتا ر کراچی سے پشاور کے درمیان ایک سو بیس سے ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار سے چلنا شروع ہو گی، لاہور پنڈی کا سفر اڑھائی گھنٹوں اور لاہور کراچی کا سفر نو سے دس گھنٹوں میں طے ہوجائے گا۔

Browse More Business Articles