Sui Gas Aur Bijli Ki Bandish

Sui Gas Aur Bijli Ki Bandish

سوئی گیس اور بجلی کی بندش

امرواقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں زندگی کی سہولتوں سے قطعی طور پر محروم طبقہ کے کروڑوں خاندان جس مفلسی، بے بسی، بے چارگی اور کم مائیگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کی مثال قیام پاکستان سے لے کر اکیسویں صدی کے اب تک کے قریباً دو عشروں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

خالد کاشمیری:
امرواقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں زندگی کی سہولتوں سے قطعی طور پر محروم طبقہ کے کروڑوں خاندان جس مفلسی، بے بسی، بے چارگی اور کم مائیگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کی مثال قیام پاکستان سے لے کر اکیسویں صدی کے اب تک کے قریباً دو عشروں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل بیس کروڑ سے زائد آبادی میں چالیس فیصد لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ حقیقت کس قدر تکلیف دہ اور اذیتی ناک ہے۔ اس کا اندازہ وہی کروڑوں خاندان لگا سکتے ہیں جو عصر حاضر کے ایسے دور میں شاہراہ حیات پر بچوں، عورتوں، جوانوں اور ضعیف العمر اہل خانہ کے ساتھ سسکتے ہوئے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیداکرنے کے لئے آئے دن اس محدود اہل ثروت طبقہ کی طرف سے نہ کوئی کوشش کی گئی نہ ایسی کسی کوشش کا ان لوگوں کی طرف سے بروئے کار لانے کا امکان ہے لیکن ملک کی کثیر آبادی سے تعلق رکھنے والے کروڑوں لوگوں کی حالت بدلنے کے جھوٹے دعوے کرتے تھکتے نہیں یہ بات اب تو محروم طبقے کے کروڑوں خاندانوں پر بھی واضح ہو چکی ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہے کہ غربت کی بھٹی میں سلگتے ہوئے عوام پر ایوان اقتدار کے سراب نما جھوٹے دعوؤں اور نعروں کا بھرم پوری طرح کھل چکا ہے۔

(جاری ہے)

عوام ان سے پوری طرح مایوس اور ناامید ہو چکے ہیں۔ اس ناامیدی اور مایوسی کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ جن کروڑوں لوگوں سے عبارت خاندانوں کے بچے ملکی وسائل کے ثمرات سے محروم کر دیئے گئے ہیں اور وہ عوامی ضروریات زندگی کی چکی میں پستے ہوئے دو وقت کی روٹی بھی اپنے بال بچوں کو فراہم کرنے میں ناقابل یقین دشواریوں کا سامنا کر رہے ہوں۔
حکومت کی تحویل میں فراہم ہونے والی سہولتوں کی فراہمی پر بھی پابندی لگا کر ان فاقہ کش لوگوں کی زندگی اجیرن کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ملک میں غیر اعلانیہ ہونے والی بجلی کی لوڈشیڈنگ اور سوئی گیس کی قریباً ہر روز بندش کا عذاب شامل ہے۔ محروم طبقے کے کروڑوں لوگوں کو ایسے تکلیف دہ حالات سے ارباب حکومت کا دوچار کرنا صرف اور صرف اس لئے معمولی اور ناقابل ذکر بات ہے کہ ایوان اقتدار کے مکینوں کو بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی بندش یا کمی بیشی سے واسطہ پڑتا ہی نہیں ان کے محلات میں ان دونوں اشیا میں سے کسی ایک کی بھی بندش یا کمی بیشی کا تصور ہی نہیں ہے۔
حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ دیکھ بھال کے نام پر پنجاب میں آئے دن 5 سے 8 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ جیسا کہ دیکھ بھال کی آڑ میں صوبائی دارالحکومت کے 29 علاقوں میں 15 جنوری کو صبح نو بجے سے تین بجے تک بجلی بند رکھی گی۔ اسی روز صبح نو بجے سے دو بجے تک لاہور کے 62 شہری اور 19 مضافاتی مقامات پر بجلی بند رہی اور اسی دن صبح نو بجے سے چار بجے تک رائے ونڈ کے علاقے صنعتی علاقوں میں برقی رو نہ بحال کی گئی جب کہ اسی دن صبح 8 بجے سے چار بجے تک موضع شامکے کے صنعتی علاقے سمیت چار علاقوں میں بجلی کی سپلائی بحال نہ کی گئی۔
اسی طرح 16 جنوری کو صبح گھنٹوں تک لاہور کے درجنوں شہری اور چار مضافاتی علاقوں کے عوام بجلی سے محروم رکھا گئے۔ اسی روز صبح نو بجے سے دو بجے تک مختلف 90 علاقوں اور مزید مقامات پر لوگوں کو بجلی سے محروم رکھا گیا۔ ان میں لاہور کے مختلف شہری علاقوں سمیت پنجاب کے 3 دیگر شہر بھی شامل تھے ان میں مریدکے، شیخوپورہ چک65، شیخوپورہ، کھڈیاں، پھول نگر، پتوکی، دیپالپور، بچیکی، ملک پور، خانقاہ ڈوگراں، جڑانوالہ، شاہ کوٹ، سانگلہ ہل، نارنگ، اوکاڑہ، قصور، رینالہ، فاروق آباد، حویلی، بصیرپور، چونیاں، للیانی، کنگن پور وغیرہ کے علاقے بھی تھے۔
ان علاقوں کے لوگوں کو صرف برقی لائنوں کی دیکھ بھال اور مرمت کی آڑ میں بجلی کی بنیادی ضرورت سے محروم رکھا گیا اور لوگوں کو اس سہولت سے محروم رکھنے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں مہینوں سے وقفوں وقفوں سے جاری ہے مگریہ بات قابل ذکر ہے کہ ان علاقوں میں جہاں کہیں بھی ارباب اقتدار کی پرتعیش اقامت گاہیں ہیں وہاں برقی رو خصوصی انتظامات کے تحت بحال رکھی جاتی ہے، چاہے پورا ملک یا پنجاب کے لوگ اندھیرے میں رہیں۔
کچھ اسی قسم کی صورت حال سوئی گیس کی بندش کی ہے۔ ارباب اختیار کو سوئی گیس کی بندش یا کمی بیشی کے خوفناک اور تکلیف دہ نتائج کا رتی بھر علم نہیں کیونکہ ان کے محلات میں سوئی گیس کی بندش یا اس کی ترسیل میں کمی بیشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لئے ان کو اس کے نتائج سے تکلیف دہ حالات میں مبتلا ہونے والے عام آدمی کی پریشانیوں کا احساس نہیں ہوتا۔
حکمرانوں نے اپنی غلط پالیسیوں اور کارروائیوں سے محروم طبقے کے کروڑوں خاندانوں کی مشکلات اور مصائب میں جان بوجھ کر اس لئے اضافہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے مسائل ہی میں گھرے رہیں اور انہیں ملکی معاملات اور ایوان اقتدار کے مکینوں کے اللوں تللوں بارے سوچنے کا موقع ہی نہ ملے۔ کروڑوں غربت کا شکار لوگوں کے چولہے ٹھنڈے کرنے کی بھی دانستہ حکومتی کوششیں اس طرح رنگ دکھا رہی ہیں کہ گھروں میں سوئی گیس کا گھروں میں پریشر اس حد تک کم دیا جاتا ہے کہ گیس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
گیس کی ایسی بندش کا سلسلہ صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس حکومتی پالیسی کے نتیجے میں لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ لوگ سکول جانے والے بچوں کو حسب استطاعت ناشتہ نہار کرنے سے معذور رہتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ سرکاری محکمہ سوئی گیس کے با اختیار بزر جمہروں کی طرف سے ایوان اقتدار کے مکینوں کی مرضی و منشاء کے مطابق عوام کو مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کے لئے نام نہاد قواعد و ضوابط وضع کر رکھے ہیں۔
جو آئین اور قانون کے قطعی برعکس ہیں۔ سوئی گیس کی بندش یا کمی بیشی پر جو لوگ مجبور ہو کر اپنے خرچ پر کمپریسر اپنے چولہے کے ساتھ لگا کر اس قدر گیس حاصل کرتے ہیں کہ باقاعدہ میٹر کے ذریعے حاصل ہونے والی گیس سے ان کا چولہا روشن ہو سکے اور وہ بیچارے اپنے بال بچوں کے لئے دال روٹی پکا سکیں۔ مگر حکومت کی طرف سے خود ساختہ عوام دشمن پالیسی کے تحت جو قواعد مرتب کئے جاتے ہیں ایسے من مانے قواعد پر عمل کرتے ہوئے گھروں کو سوئی گیس سے محروم کر دینے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔
بلکہ صرف ”کمپریسر“ استعمال کرنے کی اطلاع پر سوئی گیس کنکشن کاٹ کر میٹر اْْتارے جا رہے ہیں۔ اس اقدام سے یوں محسوس ہوتا ہے۔ کہ محکمہ سوئی گیس کے ارباب اختیار کسی ”گٹھ جوڑ“ کے تحت سلنڈروں میں بھرنے والی گیس کی فروخت بڑھانے میں سرگرم عمل ہیں۔ مگر سوئی گیس کے ارباب اختیار کی طرف سے سوئی گیس کی بندش کے جرم کا ارتکاب در حقیقت روک کے غریب لوگوں کو ان کی پریشانیوں اور مصائب میں جان بوجھ کر اضافہ کرنا ہے کرہ ارض کے کسی بھی جمہوری ملک اور مہذب معاشرے میں سرکاری تحویل میں چلنے والے ادارے کے حکام کی طرف سے ایسے عوام دشمن اقدامات کا ارتکاب کیا جائے تو نہ صرف ان کی باز پرس بلکہ انہیں عوام کو پریشانیوں میں بلا وجہ گرفتار کرنے کی سزا کا مستوجب قرار دیا جائے۔
مگر جہاں ہمارے ایسے ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہو ارباب حکومت کو عوامی مشکلات کا احساس تک نہ ہو اور ایوان اقتدار کے مکینوں کو بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے واسطہ ہی نہ پڑا ہو اور خود کو ملکی عوام سے بالاتر مخلوق تصور کرتے ہوں وہاں کے عوام کو عدل و انصاف سے محروم ہونا ہی ہوتا ہے اور یہ حالت اس وقت تک برقرار رہتی ہے۔ جب تک وہ مخلوق اپنے طرز عمل کے نتیجے میں رب ذوالجلال کی پکڑ میں نہیں آ جاتی۔
محکمہ سوئی گیس کے ارباب اختیار کو لوگوں کے گھروں میں گیس کی ترسیل بند کرنے یا اس میں ناقابل یقین حد تک کمی کرنے کی بازپرس سمیت لوگوں کے گھروں سے کمپریسر اتار کر گیس کنکشن کاٹ دینے کے جرم میں عبرتناک سزا ملنی چاہیے کہ وہ پریشان غریب عوام میں ملکی نظام کے بارے میں بددلی اور مایوسیاں پھیلانے کا موٴجب ہیں۔ اور محکمہ سوئی گیس کو بلاتاخیر کمپریسروں کے استعمال پر اتارے گئے میٹر ازخود لگا کر کنکشن بحال کرنے چاہیے۔

Browse More Business Articles