Chaay Ki Tarikh - Article No. 943

Urdu Cooking Chaay Ki Tarikh چائے کی تاریخ (Article No. 943) - Pakistani cooking Articles in Urdu, cooking information in Urdu and Food recipes in Urdu. Cooking articles in Urdu and Cooking features in Urdu.

Chaay Ki Tarikh Recipe In Urdu

چائے کی تاریخ - آرٹیکل نمبر 943

عبدالوحید: چائے (Tea) ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہے۔ جب ہم ہلکے رنگ کا مرکب اپنے کپ میں انڈیلتے ہیں اور اس خوشبودار مشروب کو ہونٹوں کے ساتھ لگاتے ہیں تویہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ہم 5ہزارسال پرانی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بلاشبہ تاریخی اعتبار سے چائے ایک پرانا مشروب ہے۔ لفظ چائے (چاء) سے نکلا ہے اور یہ چینی زبان کا لفظ ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق چائے کا استعمال سب سے پہلے 2737 قبل مسیح میں شہنشاہ شینانگ (Shennong) کے عید میں چین سے شروع ہوا۔ لیکن چینی لٹریچر میں چائے کا ذکر 350ء میں شامل کیا گیا۔
یہ افسانوی مشروب 5ہزار سال پہلے ایک غلطی کے نتیجے میں سامنے آیا چین کا ایک شہنشاہ شینانگ ہمیشہ پانی ابال کرپیتا تھا ایک دفعہ وہ شکار کیلئے جنگل میں گیا۔ وہاں اس کا خادم پانی ابال رہا تھا۔ قریب ہی سوکھی ٹہنیوں کی آگ جل رہی تھی کہ سوکھی ٹہنی کے چند خشک پتے پانی کی کیتلی میں گر گئے۔
پتوں کی وجہ سے پانی کارنگ قدرے رنگین ہو گیا۔ جلدی میں پانی شہنشا نے پی لیا۔ شہنشاہ کوپانی کا ذائقہ پسند آیا۔ چنانچہ شہنشاہ شینانگ نیان جھاڑیوں کے بیج جمع کرنے کاحکم دے دیا۔ یہ دنیا میں چائے کا پہلا گھونٹ تھا جوشہنشاہ شینانگ نے پیا۔
جلد ہی چائے چین کی ثقافت بن گئی۔ چھٹی صدی عیسوی میں چائے کا پھیلاؤ جاپان کی طرف ہوا۔ 800ء تک ایک ذین بدھ راہب چائے کے استعمال پرتفصیلی تاریخ لکھ چکا تھا اور چونکہ ذین بدوں کا خیال تھاکہ چائے روانی ارتکاز میں مدد دیتی ہے۔
اس لئے یہ مشروب ان کی مذہبی رسومات کا حصہ بن چکا تھا۔ بدھ مشنری لوگ جب جاپان گئے تو اپنے ساتھ چائے بھی لے گئے چائے کی دیو مالائی داستان میں وہ وقت بھی آیا جب کچھ بھارتی اور جاپانی بدھوں نے چائے کا استعمال مہاتما بدھ کی کہانی بیان کرنے کے لئے کیا۔
ان کے مطابق مہاتما بدھ پانچ سال بعد جب مراقبے سے جاگے تو انہوں نے چائے کے جنگلی درخت کے پتے کھائے۔جاپان میں تعارف کے بعد جلد ہی وہاں پر چائے کی ثقافت اور چائے کی رسم ”چاؤ تو یو“ نے جنم لیا جس کے لفظی معنی چائے کیلئے گرم پانی ہے۔
چائے کی اس رسم میں چائے انڈیلنا اور ”گیشا“ کے مہمان کو چائے پیش کرنا نفاست اور خوش اسلوبی کا انداز سمجھاجانے لگا۔ آئرش نژاد یونانی صحافی اور تاریخ دان لفسا دیون برن نے جسے اس زمانے میں جاپانی شہریت ملی تھی چائے کی اس رسم کو دیکھا اور لکھا۔
جیسے جیسے جاپانی امراء کے درمیان چائے کے مقابلے میں عام ہونے لگے تو چائے کے استعمال سے اصل ذین بدھ مت کاعنصر ختم ہونے لگا۔ ان مقابلوں میں چائے کی صحیح آمیزش کا مقابلہ جیت جاتا تو انعام میں اسے جواہرات اور زرہ بکتر دیا جاتا۔
13ویں عیسوی میں بدھ راہبوں نے چائے کو اس کی اصلی ذین ترکیب استعمال کی طرف لانے کی ناکام کوشش کی۔1560ء میں جب پرتگالی مشنریوں نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کئے تو یورپ میں چائے درآمد کی جانے لگی۔ کچھ تاریخ دان اس کی مخالفت کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس سے ایک سال پہلے عرب تاجر چائے اٹلی کے شہر وینس میں لاچکے تھے۔
یورپ کو چائے کاپہلا جہاز 1610ء میں ولندیزی تاجروں نے بھیجا جو یہ چین اور جاپان سے امپورٹ کرتے تھے۔ 1650ء میں ان تاجروں نے اس کی درآمد کا سلسلہ امریکن کالونیوں سے شروع کیا۔ شروع شروع میں چونکہ چاہئے بہت مہنگی تھی اس لئے یہ صرف امراء کا مشروب بن کر رہ گئی۔
پہلے ولندیزی لوگوں میں عام ہوئی۔ ہر کوئی اس انجانے مشروب کوپینے کے لئے تیار بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹروں اور حکیموں کا کہنا تھا کہ یہ کالا اور کڑوا مرکب لوگوں کے لئے کیسے اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔ تقریباً ایک سو سال کی بحث کے بعد1610ء میں عام لوگوں تک چائے کی رسائی ہوئی ڈاکٹروں کی مخالفت کے باوجود یورپی لوگوں کی صحت پر چائے کا مثبت اثر ہوا پینے کا پانی چونکہ صاف نہیں تھا، اس لئے چائے کو محفوظ سمجھا جاتا تھا۔
برطانیہ میں چائے کی تجارت 1652ء میں ہوئی۔ 1652ء میں چائے پہلی دفعہ انگلینڈ کے کافی خانوں کو فروخت کی گئی۔ جلد ہی یہ برطانیہ کاقومی مشروب بن گیا۔ 1700ء تک برطانیہ دو لاکھ 40ہزار پاؤنڈ چائے برآمد کر رہا تھا۔ چائے کی وجہ سے انگریزوں کی روز مرہ زندگی میں ایک خوشگوارتبدیلی آئی اورسہ پہر کی چائے کا رواج عام ہوا۔
برطانوی تجارتی کمپنیاں چائے کی برآمد کے لئے سارے یورپ میں مشہور ہوئیں۔ ان میں لپٹن اور بروک بانڈ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی چائے کی برآد میں اہم کردار ادا کیا برصغیر پاک و ہند میں چائے کی کاشت 1823ء میں شروع ہوئی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں سیاسی عدم استحکام کابہانہ بناتے ہوئے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ اس کی وجہ سے تجارت کو نقصان ہو رہاہے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے بھارت کو پوست اگانے پر مجبور کیا۔ جس کے بدلے وہ چین سے چائے خریدتے تھے۔
اس طرح انگریز اصل سرمایہ اپنی سلطنت تک ہی محدود رکھتے۔ پوست کے بدلے چائے کی اس تجارت کی وجہ سے 18ویں صدی عیسوی میں جنگ افیوین ہوئی جس کے بعد انگریز مکمل طورپر چائے کی تجارت پرقابض ہو گئے۔ 19ویں صدی میں یورپ اور امریکہ کی معاشرتی تحریکوں میں چائے نے اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔
انگلینڈ میں ایک عورت نے جو روٹی کی دکان پر کام کرتی تھی اپنے مالک کو مجبور کیا کہ وہ اسے اپنے خاص گاہکوں کو چائے پیش کرنے کی اجازت دے۔ 1864ء میں اس عورت نے یہ اجازت بھی لے لی کہ دکان میں کچھ میز کرسیاں رکھ سکے تاکہ لوگ ادھر بھی بیٹھ کر چائے پی سکیں۔
برطانیہ میں اس طرح کے چائے خانے خواتین کے لئے ایک نئی طرز کے معاشرتی میل جول کا ذریعہ بنے اور خواتین کی آزادی کا سبب بنے۔ اسی طر ان لوگوں کے لئے جو شراب نہیں پیتے تھے چائے ایک متبادل مشروب کی صورت میں سامنے آئی۔ 1904ء میں امریکیوں نے آئس ٹی ایجاد کرکے چائے کو مزید ترقی دی اور پھر 1908ء میں پہلی بار ”ٹی بیگ“بنا کر اس کے استعمال میں اضافہ کیا۔
چائے کاپودا گرم مرطوب علاقوں کی پیداوار ہے۔ مون سون ہواؤں کا خطہ جہاں گرمیوں کے علاوہ سردیوں میں بھی کسی قدر بارش ہو جاتی ہے اس کے لئے نہایت موزں ہے۔ اوسط درجے کی گرمی اور کثرت باراں اس کے پتوں کیلئے بہت مفیدہے 54سے زیادہ اور 80سے کم درجہ حرارت اور 100انچ سالانہ بارش اوسطاً اس کیلئے بہت مفید ہے زیادہ پانی چائے کے پودوں کی جڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے اس لئے پہاڑی ڈھلوانوں پر اس کی کاشت زیادہ ہوتی ہے۔
میدانی علاقوں میں بھی اس کی کاشت اچھی ہوتی ہے جہاں زمین کی ڈھال مناسب ہو اور پانی آسانی سے بہہ سکے۔ نیز زمین ہلکی اور بھربھری ہو اس کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ اب دنیا کے 46ملکوں میں اس کی کاشت ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ کاشت بھارت میں ہوتی ہے۔
چین دوسرے اورسری لنکا (سیلون) تیسرے نمبرپر آتا ہے۔ اس کے علاوہ جاپان، کینیا بھی اس کی پیداوار کے لئے مشہور ہیں۔ آج کل چائے مختلف اقسام میں ملتی ہے۔ روایتی طور پر امریکی اور یورپی لوگ کالی چائے پسندکرتے آئے ہیں لیکن اب سبز چائے کے فوائد کی بنا پر اس کی طرف راغب ہیں۔
وسطی ایشیا میں واقع مشہور اسلامی ملک ازبکستان کی ایک معروف وادی فرغانہ کے ایک پرانے شر خوقند میں ایک روایت بڑی مشہور تھی۔ روایت کے مطابق ہر خاص و عام دعوت میں استعمال ہونے والے برتنوں اوربڑی تھالیوں میں چائے دانی کی تصور بنائی جاتی تھی تاکہ خاتون خانہ یہ بات نہ بھولیں کہ اس دعوت کے کھانے کے بعد مہمانوں کی چائے سے تواضع کرنی ہے۔ ###

More From Features