سانحہ پشاور ”اسے صدیوں نہ بھولے گا زمانہ“

بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں انہیں گھر میں اچھی تربیت جبکہ سکول میں اچھا ماحول ملتا ہے،وہاں اچھی اچھی نصیحتیں کی جاتی ہیں اور یہی سمجھایا جاتا ہے کہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں۔

بدھ 13 دسمبر 2017

Saneha Peshawar Isay Sadion Na Bhoolay Ga Zamana
مظہرحسین شیخ:
بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں انہیں گھر میں اچھی تربیت جبکہ سکول میں اچھا ماحول ملتا ہے،وہاں اچھی اچھی نصیحتیں کی جاتی ہیں اور یہی سمجھایا جاتا ہے کہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں۔ ایک دوسرے سے جھگڑا مت کریں کسی کی دل شکنی نہ کریں،اتفاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اورجب بچے آپس میں ناراض ہو بھی جائیں تو چند لمحوں میں سب کچھ بھلا کر دوبارہ گھل مل جاتے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ بچے بڑوں سے اثر لیتے ہیں۔

گھر کا اچھا ماحول بچوں پر اچھے اور لڑائی جھگڑے والا ماحول برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ جس گھر میں لڑائی جھگڑا ہو وہاں سے رزق اٹھ جاتا ہے۔ یہی حال پاکستان کے حکمرانوں کا ہے،اتفاق تو دور کی بات ایک دوسرے کی صحیح بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

قائد اعظم نے بے شمار قربانیوں کے بعد پاک وطن حاصل کیا اس کی ایک طویل داستان ہے۔ بد قسمتی سے ہمیں آج تک کوئی بھی قائد اعظم جیسا لیڈر نہیں ملا۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمارے حکمرانوں کی آپس کی چپکلش سے ملک نے ترقی نہیں کی۔تین برس قبل پشاور کے آرمی پبلک سکول میں جو پاکستانی تاریخ کا بد ترین سانحہ پیش آیا قوم کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے۔ کیا یہ سب کچھ ہمارے ” بڑوں“ کی آپس کی نا اتفاقی کا نتیجہ تھا؟یقیناً ایسا ہی ہے۔16 دسمبر 2014ء سانحہ پشاورکو کوئی نہیں بھول سکتااور یہ پہلو بھی بھولنے والا نہیں کہ پاکستان میں ماؤں نے سب سے زیادہ آنسو بہائے۔

معصوم اور بے گناہ بچوں کو بڑی بیدردی سے قتل کیا گیا اس موقع پر ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر سوچ رونے پر مجبور تھی۔ سول سے فوج تک اور دانشور سے عام شہریوں تک اپنی نئی نسل کے وحشت اور بربریت کے انتہائی سفاک مظاہرے کو دیکھنا پڑا دہشت گردی کا جواب پاک فوج نے خوب دیا،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان درندوں،حیوانوں کے دل نہ تھے جو پسیج جاتے ؟جنہوں نے معصوم بچوں پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی آخر ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا اْنہوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔

پشاور کے سانحہ تک پہنچنے کیلئے دہشت گردی ظلم اور زیادتی کی کارروائیوں نے ایک طویل سفر طے کیا،جبکہ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سب کچھ نااتفاقی سے ہوا۔ ہمارے لیڈراور رہنما ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے بچے ملکی اور غیر ملکی حالات سے باخبر ہیں، الیکٹرانک میڈیا اور انٹر نیٹ نے انہیں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ہمارے حکمرانوں کو ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قومی صورتحال کو بہتر بنانے اور ملک اور قوم کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی کوششں کرنی چاہئے۔لیکن ابھی تک وہ اس مقصد میں ناکام ہیں،دیکھا اور محسوس صیہی کیا گیا ہے کہ وہ اقتدار کی ہوس میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔تاریخ کا بد ترین واقعہ سانحہ پشاور بھی اسی روز رونما ہوا تھا جس روز متحدہ پاکستان دولخت ہوا۔

ملک کا ایک بڑا حصہ ملک سے الگ ہوا تھا۔23نومبر 1971ء کے دن انڈیا کھلم کھلا پاکستان کے خلاف میدانِ جنگ میں اتر آیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔ دسمبر 1971کے ابتدائی دنوں میں مغربی پاکستان اور کشمیر کے محاذ پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ شروع ہو ئی تو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کی کوشش کی مگر روس کی شہ پر بھارت نے جنگ بندی سے انکار کر دیااور اپنے اوچھے ہتھکنڈے پر اترآیا۔

بالآخر16 دسمبر 1971کو مشرقی پاکستان کے دارالخلافہ ڈھاکہ میں پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دئیے گئے۔ اس کے فوراً بعد امریکہ کے دباو کے باعث فر یقین نے دونوں محاذوں پر جنگ بندی کر دی۔ اس وقت جنرل یحییٰ خان اقتدار میں تھے انہوں نے 30دسمبر 1971کو ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت کا اقتدار منتقل کر دیا۔جبکہ سانحہ پشاور بھی 16دسمبر اس سانحہ کے روز ایک اور سانحہ کے برپا ہونے سے زیادہ کوئی تحریک نہیں ہوسکتی جو ہمیں اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی کوششوں کو کامیاب بنانے کی ترغیب دے سکے۔

آپس میں الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے اتنا وقت اگر ملک میں امن وامان کی بحالی کو یقینی بنانے کی عملی کوشش کی جاتیں تومعاملہ آج کے حالات کے برعکس ہوتا۔ بلاشبہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں یہ کام ہماری موجودہ نسل نوکو کرنا ہوگا۔بچوں کے لہو کے ایک ایک قطرے کا حساب لینا ہوگا۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ بچوں پر نہیں قوم کے دل پر حملہ تھا تو بے جا نہ ہو گا۔

آرمی پبلک سکول پشاور کے 132بچوں کا پرنسپل اور ٹیچرز سمیت 142 زندگیوں کا خون ہمارے اوپر سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا قرض ہے جو ہمیں ادا کرنا ہوگا۔ بائیس کروڑ سے زیادہ قومی زندگیوں کے بہترین مفاد میں ادا کرنا ہوگا۔قوم کے بہادر بچوں نے زخمی ہو کربھی دہشتگردوں کے سامنے جھکنے کے بجائے حالات کا مقابلہ کیا ہمت نہ ہاری اور ڈٹے رہے ایک زخمی طالبعلم نے بتایا تھا مجھے دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگ چکی تھیں اور میں نے بڑے سیاہ جوتوں والے دہشتگرد کو اپنی طرف آتے دیکھا جو بینچ کے نیچے چھپے طالبعلموں کو ڈھونڈ کر مار رہا تھا، میں نے بچنے کے لیے مرنے کی اداکاری کا فیصلہ کیااور اپنی ٹائی کھول کر منہ میں ڈال لی تاکہ تکلیف سے چیخ نہ نکلے، زخمی طالبعلم کے مچابق کہ اس کا جسم تھر تھرکانپ رہا تھا، اس نے موت کو بہت قریب سے دیکھا، دہشتگردوں کے جانے کے بعد رینگتے ہوئے اگلے کمرے میں گیا تو وہاں خاتون آفس اسٹنٹ کی جلتی ہوئی لاش کو دیکھا، جس کرسی پر وہ پڑی تھی وہاں سے خون رس رہا تھا۔

بچے نے بتایا کہ سکول کے ایک ملازم کی لاش بھی نظر آئی جس کے بعد وہ رینگتا ہوا دروازے کے پیچھے چھپ گیا اس کے بعد اسے ہوش نہ رہا، ایک طالبہ شیریں ودود نے بتایا کہ اس نے حملہ آوروں پر ظاہر کیا کہ وہ گولی لگنے کے نتیجے میں شہید ہو چکی ہے لیکن جب وہ اس کی جماعت سے نکل گئے تو وہ وہاں سے بحفاظت نکل گئی۔ طالبہ کی ٹانگ زخمی ہے تاہم وہ شدید خوفزدہ تھی۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ دہشتگرد غیر ملکی لگ رہے تھے، بڑی داڑھیوں والے تھے، فوجی وردی میں ملبوس تھے جبکہ آپس میں عربی بول رہے تھے۔ ایک طالبعلم نے ہسپتال میں بتایا کہ حملے کی خبر ٹی وی پر چلنے کے بعد اس کی والدہ نے اسے فون کیا لیکن اپنی والدہ کو صدمے سے بچانے کے لیے اس نے تسلی دی کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہے حالانکہ اسے سینے میں گولی لگی تھی۔

سانحہ 16دسمبر سے قبل جب بچوں سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟ تو زیادہ تر بچوں کا یہی جواب ہوتا کہ وہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بنیں گے اور غریبوں کا مفت علاج کریں گے اس سانحہ کے بعد بچے نئے جوش و جذبے اور عزم کے ساتھ میدان میں نکلیں گے۔ اب سب بچوں کا ایک ہی خواب ہے جو ضرور پورا ہوگاکہ وہ بڑے ہو کر اپنے بے گناہ بھائیوں کا انتقام لیں گے۔

اب ہر بچہ فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہے۔ تاکہ پیارے وطن پاکستان کو اس گند سے پاک کیا جائے۔ بے شک یہ کام پاک فوج بڑی زمہ داری سے سر انجام دے رہی ہے اور کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ لیکن اس وقت بچوں کا نیا عزم جوش اور جذبہ بھی قابل دید ہے۔ ان کے انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی اور نہ ہی انتقام لینے تک ٹھنڈی نہیں ہوگی۔مستقبل میں ہمارے نونہالوں نے ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، ماضی اور حال کا نقشہ ان کے ذہنوں میں نقش ہے وہ اپنے دشمنوں کو کیسے عبرت ناک سزا دیتے ہیں یہ آنے والاوقت بتائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :