بجٹ سازی میں سیاسی جرات کا تقاضا

بجٹ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔کسی ملک کی ترقی کا تمام تر دارومدار متوازن بجٹ کا مرہوں منت ہے۔ ہر ملک میں اس کے سالانہ بجٹ کے لیے اس کی ترجیحات دوسرے ممالک سے مختلف ہو سکتی ہیں اس لیے بجٹ سازی میں ملکی وسائل اور ان سے ممکنہ استفادہ کو مد نظر رکھنا ضروری ہے

منگل 14 جون 2016

Budget Sazi Main Siasi Juraat Ka Taqqza
محمد شفیع خان:
بجٹ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔کسی ملک کی ترقی کا تمام تر دارومدار متوازن بجٹ کا مرہوں منت ہے۔ ہر ملک میں اس کے سالانہ بجٹ کے لیے اس کی ترجیحات دوسرے ممالک سے مختلف ہو سکتی ہیں اس لیے بجٹ سازی میں ملکی وسائل اور ان سے ممکنہ استفادہ کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ مثلاََ بعض ممالک میں تیل کی فراوانی ہے اوربعض میں زرعی پیداواری صلاحیت قابل رشک ہے۔


ہم اگر پاکستان کے ابتدائی دور کا جائزہ لیں تو قیام پاکستان کے بعد سے لے کر 80 کی دھائی تک انکم ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے لے کر 70 فیصد تک تھی اور لوگ خوش دلی سے ٹیکس ادا کرتے تھے۔ ان دنوں ملک بھر میں کمشنر انکم ٹیکس عہدے کے گریڈ میں 300 سے زائد افسران تعینات ہیں ۔ ریجنل کمشنرز/ چیف کمشنرز گریڈ 22 کی تعداد 10 ہے جبکہ ممبران ایف بی آر کی تعداد 12 سے زائد ہے ۔

(جاری ہے)

سینکڑوں ملازمین اور افسروں کو گولڈ پر فارمنس کے نام پر گزشتہ کئی برسوں سے ایک افافی تنخواہ دی جا رہی ہے۔ جبکہ انکم ٹیکس کے ادارے اور ایف بی آر کی پرفارمنس کا یہ حال ہے کہ مالی سال 2010-11 میں این ٹی این ہولڈرز یعنی انکم ٹیکس ہندگان کی تعداد 33 1/2 لاکھ تھی جو اب صرف 10لاکھ رہ گئی ہے۔ اگر بجٹ سازی کرتے وقت تمام حقائق کو مد نظر رکھ کر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے ابتدائی 35 برس کو معاشی لحاظ سے سنہری دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔

کسی بھی سیاسی شخصیت پر کوئی ایک بھی کرپشن کا الزام نہ تھا۔ مگر آج کرپشن ہمارے سیاسی قائدین ،بیورو کریسی اور کاروباری طبقہ سمیت سب پر عیاں ہے۔ آج کل پانامہ لیگ کاچر چاہے اسلئے بجٹ سازی میں ایسی ترجیحات کو شامل کرنا ضروری ہے جس سے عوامی سطح پر ی تاثر زائل ہو سکے کہ ہماری سیاسی قیادت بیوروکریٹ اورتاجر برداری کرپٹ ہے۔ جس کے لیے مندرجہ ذیل امور پر توجہ مرکوز کر کے اس لعنت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔


1 ۔ رشوت ، کمشن، سفارش اور اقرباپوری
2۔ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری
3۔ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ، بلیک مارکییٹنگ
4۔ جعلی مصنوعات ، ادویات سازی ، منشیات فروشی
5۔ اراضی اور جائیداد کے قبضے اور انسانی و دوسری ہر قسم کی سمگلنگ ۔ ان سب معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے بجٹ سازی میں اقدامات تجویز کرنا ہوں گے۔ اس بارے میں عوام اور خواص کو ایک موقع دینا ضروری ہے تاکہ وہ اگر چاہیں تو ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھالیں۔

بصورت دیگر ان سماج دشمن عناصر کے ساتھ سختی ہے نمٹنا چاہیے۔ ٹیکس ایمنسٹی کے بارے میں عرض ہے کہ جو سکیم اس سے پہلے رائج کی گئی وہ نہایت محدود تھی صرف ایک خاص طبقہ کے لیے جو تاجر ٹریڈرز کہلاتے ہیں اور ی سکیم 2 روپے فی ہزار ادا کر کے 5 کروڑ روپے جائز بنانے کی پیشکش تھی یعنی صرف ایک لاکھ روپے ٹیکس ادائیگی جیسی کم شرح کے باجود یہ سکیم ناکام ہوئی۔

ٹیکس ایمنسٹی کا اجراء سب سے پہلے 1971 میں ہوا اور آخری بار 2002 میں اجراء ہوا۔ ہر بار اس کے خاطرہ خواہ نتائج برآمد ہوئے اور لوگوں نے ناصرف پوری شرح کے ساتھ ٹیکس ادا کر کے اپنے اثاثے قانونی بنائے بلکہ ذہنی سکون سے ٹیکس دہندگان کے ریگارڈ میں داخل ہو کر اپنے گوشوارے بھی جمع کروائے۔ جبکہ موجودہ حالات میں کئی ایک طبقے خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں ٹیکس ایمنسٹی حکیم سے استفادہ کا حق دیا جائے۔

جیسے کہ بہت ساری تاجر تنظیموں نے بھی اس کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن یہ ایمنسٹی مناسب ٹیکس شرح کے مطابق ہونی چاہیے اگر بجٹ برائے 2016-17 میں ارکان پارلیمنٹ ٹیکس ایمنسٹی کے اجراء کا مطالبہ کر دیں تو ہو سکتا ہے کہ اس سے ایسے افراد بھی اپنے اثاثہ جات مقررہ ٹیکس دے کر کلیئر کرواسکیں جو بیرون ممالک میں پانامہ لیگ کے حوالے سے آج کل زیر بحث ہیں یا قرضے معاف کروانے کے حوالے سے مور دالزام ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہرپاکستانی کے لیے ہر قسم کے اثاثے کو وائٹ کرنے کاحق دیا جائے ۔ اس کے لیے سیاسی جرات پر مبنی فیصلے کی ضرورت ہے ۔جس کے تحت بلیک منی یا ناجائز اثاثے پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے کم نہ رکھی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Budget Sazi Main Siasi Juraat Ka Taqqza is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 June 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.