وفاقی بجٹ 2017-18 توقعات اور خدشات

موجودہ حکومت نے اپنا پانچواں اور آخری بجٹ پیش کردیا ہے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2017-18ء کا 47کھرب 57ارب کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعہ کے روز پیش کیا جس میں موبائل فونز،گاڑیاں سستی جبکہ سیمنٹ،سریا،سگریٹ اور مشروبات مہنگے کئے گئے کم از کم تنخواہ 15ہزار تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافہ کیا گیا

جمعرات 8 جون 2017

Budget Tawaquat O Khadshaat
موجودہ حکومت نے اپنا پانچواں اور آخری بجٹ پیش کردیا ہے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2017-18ء کا 47کھرب 57ارب کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعہ کے روز پیش کیا جس میں موبائل فونز،گاڑیاں سستی جبکہ سیمنٹ،سریا،سگریٹ اور مشروبات مہنگے کئے گئے کم از کم تنخواہ 15ہزار تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافہ کیا گیا۔وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریرمیں بتا یا کہ ترقی کی شرح 6،بجٹ خسارہ 4.10فیصد اور صوبائی حکومتوں کا حصہ 12384 ارب مقرر کیا گیا ہے ٹیکسٹائل کی ترقی کیلئے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے 31نئے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔

بجٹ میں سود قرضوں کی ادائیگی کیلئے 16کھرب ہائر ایجوکیشن 35 سی پیک 180اور لیپ ٹاپ سکیم کے لیے 20ارب مختص کئے گئے ہیں اسی طرح بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 121بھاشا ڈیم کیلئے 21، نیلم جہلم کیلئے 19،واسوڈیم 54،ایل ان جی 77، نیشنل ہائی وے 320جبکہ ریلوے کیلئے 43ارب روپے مختص کئے گئے ہیں یاد رہے کہ حکومت نے 120ارب کے نئے ٹیکسز کا بھی اعلان کیا تحریک انصاف، پیپلز پارٹی نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔

(جاری ہے)

2017-18ء کے وفاقی بجٹ کے اصل فریق 20کروڑ عوام ہیں ان پر نئے مالی سال کا بجٹ کیا ستم ڈھائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر حکومت سب اچھا کا راگ الاپ رہی ہے۔ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں اب خود ہی اندازہ کیجئے کہ جب خرچ اور آمدن میں واضح فرق ہوگا تو اس سے عوام کی کیا درگت بنے گی اس کا اندازہ کوئی مشکل نہیں اگر چہ حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں کھاد سستی اور کسانوں کیلئے کم شرح سود پر قرضے دینے کا اعلان کیا ہے۔

مگر معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ اپنا رنگ آنے والے دنوں میں عوام کو دکھائے گا بجٹ میں طویل عرصے سے مسائل کا شکار عوام کو کوئی فوری یا وقتی ریلیف بھی فراہم نہیں کیا گیا جس کی عوام حکومت سے توقع کررہے تھے اگرچہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے حکومت نے کم از کم تنخواہ 15ہزار مقرر کی ہے ۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ 5افراد کے کنبے کا 15ہزار میں گزارہ ایک ناممکن سی بات ہے اگرچہ حکومت نے ٹیکسوں کا ہدف 4013ارب روپے مقر کیا ہے لیکن آج تک حکومتیں اپنے مقررکردہ اہداف کے حصول میں ہی ناکام رہی ہیں۔

اسی لئے تو تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ حکومت 2030ء تک جی ٹوئنٹی ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کا دعویٰ کررہی ہے یہ اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب عام آدمی کی زندگی بہتر ہو مگر ہمارے ہاں تو بجٹ میں ہمیشہ اشرافیہ اپنے مفادات کا خیال رکھتی ہے۔ اسی لئے بجٹ کی ایکسرسائز کو عوام سیاسی بجٹ قرار دیتے ہیں تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ کٹھن سیاسی حالات میں حکومت اپنے دور اقتدار کا اختتامی بجٹ اس سے بہتر پیش نہیں کر سکتی تھی۔

حکومت نے صحت اور تعلیم کی مد میں 49 ارب اور 35 ارب کی جو رقم مختص کی ہے وہ حکومتوں کی انہی پالیسیوں کا تسلسل ہے جن کے تحت7 دہائیاں گزر نے کے باوجو د بھی صحت اور تعلیم حکومتی ترجیحا ت کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکیں۔ دفا عی بجٹ میں 70 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے لیکن پاکستان کو درپیش حالا ت یہ عند یہ دینے کے لئے کا فی ہیں کہ حکومت کو ملکی سلا متی کو یقینی بنا نے کیلئے اس میں مزید اضافہ کرنا پڑ ے گا۔

ماضی کی حکومتوں کی طرح موجو د ہ حکومت کی جانب سے بھی یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس نے غریب عوام سب سے زیاد ہ خیال رکھا ہے لیکن غریب کے اصل مسائل تو بیروزگاری ، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، غربت، جہالت، کرپشن، ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس، میرٹ کی عدم دستیابی اور انصا ف کی فوری فراہمی ہیں۔ اگر ہم ایک لمحے کیلئے بجٹ کے خد وخال کا جائز ہ لیں تو یہ اندازہ لگا نا کوئی مشکل نہیں ہو گا کہ حکومت نے ان عوامی ایشو ز کو ایڈریس کر نے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی اسی لیے تو 3 لاکھ بیرو ز گاروں کی ہر سال نئی کھیپ مارکیٹ میں داخل ہو رہی ہے۔

اگر چہ حکومت نے50 ہزار قرضہ اسکیم کا اعلان کیا ہے لیکن خدشہ ہے کہ کہیں یہ اسکیمیں بھی ماضی کی طرح اقر باء پروری کی نذر نہ ہو جائیں۔ عوام کو بجٹ کی آمد سے قبل بہت سی توقعا ت اور خد شا ت تھے، کس حد تک حکومت ان پر پورا اترپائی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن کڑوا سچ تو یہ ہے کہ حکومتیں عوام کے مسائل حل کر نے میں ناکام رہی ہیں اسی لئے تو ہر بجٹ غریب کو مزید غریب کر دیتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بجٹ میں غیر ضروری اخراجات کی بھر ما ر ہے۔ سراج الحق نے بجٹ کو نٹی بوتل میں پرانی شراب کے مصد اق قرار دیا ہے۔ پرویز الٰہی نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ (ن) لیگ کی حکومت ریلیف کے بجائے غریبوں، کسانوں، تاجروں سمیت تمام طبقا ت کو مسلسل تکلیف دے رہی ہے۔سرکاری ملا زمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ روز بروز بڑھتی مہنگائی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

تاہم حکومت نے وفاقی بجٹ میں پاور سیکٹر کے لئے بھاری رقم مختص کی ہے جس کے باعث توقع ہو چلی ہے کہ آبی ذخائر کی تعمیر کی طر ف اب سنجیدگی سے توجہ دی جائے گی اور ملک کو اندھیروں سے نکال کر ترقی کے سفر پر گا مزن کیا جائے گا۔ 2017-18 کے میزانیے کے بعد عوام حکومت سے یہ توقع رکھنے میں حق بجا نب ہیں کہ اب حکومت انہیں منی بجٹس کے الیکٹرک شاکس نہیں لگا ئے گی اور ڈائئریکٹ ان ڈائریکٹ ٹیکس عوام پر مسلط کر دیئے جانے کی حکمت عملی کو خیر باد کہا جائے گا۔ اسی طرح عوام پر مزید قرضو ں کا بوجھ منتقل کر نے کے بجائے حکومت سادگی اختیار کر ے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Budget Tawaquat O Khadshaat is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 June 2017 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.