چنیوٹ کے ذخائر سے اربوں روپے سالانہ آمدن کاامکان

چنیوٹ میں پائے جانے والے خام لوہے کے ذخائر سے پاکستان اربوں روپے سالانہ کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ یہ خوش کن بات ہے کہ حکومت نے خام لوہے کے ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا ہے جو اس خزانہ کو تلاش کرنے کی ماہر ہے۔ میاں محمد نوازشریف وزیراعظم پاکستان نے دورہ چنیوٹ کے دوران قوم کو جو مبارکباد دی تھی

پیر 10 اپریل 2017

Chiniot Ke Zakhair
احمد کمال نظامی:
چنیوٹ میں پائے جانے والے خام لوہے کے ذخائر سے پاکستان اربوں روپے سالانہ کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ یہ خوش کن بات ہے کہ حکومت نے خام لوہے کے ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا ہے جو اس خزانہ کو تلاش کرنے کی ماہر ہے۔ میاں محمد نوازشریف وزیراعظم پاکستان نے دورہ چنیوٹ کے دوران قوم کو جو مبارکباد دی تھی وہ حقیقت کے روپ میں جلد ہی سامنے آنے والی ہے۔

وزیراعلیٰ شہبازشریف نے گزشتہ دنوں اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے ملکی تاریخ کے واقعات کو قوم کے سامنے رکھ کر اس سے سبق حاصل کرنے کیلئے دعوت دی ہے۔ تینوں مارشل لاء ادوار کو ملک کیلئے تباہی و بربادی کا باعث قرار دیتے ہوئے انہوں نے واضح کیا ہے کہ قوم ابھی تک اس کے اثرات سے نہیں نکل سکی۔

(جاری ہے)

میاں محمد شہبازشریف نے درست کہا ہے کہ چوہدری پرویزالٰہی جنہوں نے پرویزمشرف کو وردی میں الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا اور اپنا امیدوار قرار دیا تھا انہی پرویزالٰہی کی حکومت نے ایک جعلی کمپنی کو بغیر ٹینڈرنگ کئے ٹھیکہ دے دیا تھا۔

ملکی معیشت کے ساتھ اسی مذاق پر اکتفا نہ کیا گیا 2007ء میں جب الیکشن قریب تھا تو سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے دیامیربھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا حالانکہ اس ڈیم کی تعمیر کے لئے زمین بھی نہیں خریدی گئی تھی۔ گویا ڈیم کا سنگ بنیاد ہوا میں رکھ کر قوم کو دھوکا دیا گیا۔ ایک وقت وہ تھا جب سیاست دانوں نے یہ نعرہ بھی بلند کیا کہ وردی میں سو بار منتخب کریں گے پھر نیا پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والے ایمپائر کی انگلی کی طرف دیکھتے رہے۔

میاں محمد شہبازشریف نے جہاں تین بار مارشل لاء سے ہونے والی تباہی کا ذکر کیا وہاں انہوں نے گزشتہ 70برسوں سے قوم کے مصائب کی ذمہ داری اشرافیہ پر ڈالتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اشرافیہ نے ملک کے ساتھ جو گھناوٴنا کھیل کھیلا وہ سب کے سامنے ہے۔ مارشل لاوٴں کی تباہی ایک طرف لیکن سیاست دانوں سے بھی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان کی سزا قوم بھگت رہی ہے۔

کرپشن، نااہلی اور غیرپیشہ وارانہ رویوں کے باعث ملک کو بے پناہ نقصان ہوا ہے اور ترقی و استحکام کا پہیہ اپنی پوری رفتار سے گردش نہ کر سکا۔ اب ماضی کی غلطیوں پر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ منزل مراد کو پانے کے لئے محنت، امانت اور دیانت جیسے سنہری اصولوں کو اپنانا ہو گا۔ ان اصولوں کو اپنائے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بالادست طبقہ کون سا ہے۔ ایک تلخ حقیقت کو بیان کئے بغیر بات آگے نہیں بڑھائی جا سکتی اور قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ بالادست طبقہ کون ہے، ہمیں آمروں اور سیاست دانوں کا نام لئے بغیر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں پہلے مارشل لا کے خاتمہ کے بعد دوسرے مارشل لا نے کیسے جنم لیا بلکہ یہ کہوں گا کہ جنرل ایوب خان کا مارشل لاء اور جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کا دوسرا روپ تھا۔

جنرل یحییٰ خان کے عہد حکومت میں ہی ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے ایک اہم ستون کا درجہ اختیار کر چکے تھے، ان کے جرنیلوں کے ساتھ گہرے تعلقات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد انہی جرنیلوں نے اقتدار بھٹو کے حوالے کیا تھا کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
70 کی دہائی کا زمانہ نظریاتی طور پر جتھہ بندی کا زمانہ تھا۔

ایک طرف بنیاد پرست مذہبی اصولوں کی شکل میں اور دوسری طرف آزاد خیال بائیں بازو کے اصولوں کی صورت میں اضافہ اور تبدیلی کے خواہش مند تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی انتہاپسند قوم ، تقریروں اور نوکرشاہی کے ان افسروں کے ساتھ تیزی کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات استوار کئے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے اور ان کی حکومت سے وفادار رہنے کا عندیہ دیا تھا۔

اس میں جنرل ضیاء الحق بھی سرفہرست تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی اسی اصول کو اپنایا اور اس نے سیاست دانوں میں بھی اپنے وفادار کی ایک جماعت پیدا کی۔ بعدازاں جب جمہوری دور کا آغاز ہوا تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نوازشریف بھی اسی منزل کے راہی ثابت ہوئے۔ آج پنجاب میں میاں محمد نوازشریف کی طاقت کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت نظر نہیں آتی کیونکہ ریاست کی طاقت پر کنٹرول میاں محمد نوازشریف کے ہاتھ میں ہے۔

پرویزمشرف کے دور میں جو غلطیاں ہوئیں ان پر قابو پا لیا گیا۔ لہٰذا مارشل لاء کے نفاذ کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی پنجاب میں میاں محمد نوازشریف کی سیاسی قوت اور بالادستی کو چیلنج کرنے والوں کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہ معیشت پر مرکوز کر دیں یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے میاں محمد شہبازشریف نے حالات کی درست تصویر پیش کی ہے اور آئینہ دکھایا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اذہان اور ہر شعبہ کے ماہرین موجود ہیں۔

1979ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی چین سے بھی زیادہ تھی اور معاشی حالات سے پاکستان چین سے آگے تھا اور آج ہمارا دوست چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت ہے اور پاکستان سے بہت آگے ہے۔ ایسے ہی دیگر ممالک سمیت بنگلہ دیش بھی آج ہم سے بہت آگے ہے۔
چاروں صوبوں میں زمینی ذخائر کی دولت پائی جاتی ہے اور پاکستان اس دولت سے مالامال ہے۔ ملک کو صرف پر عزم قیادت کی ضرورت ہے جس کا نام میاں محمد نوازشریف ہے۔

جبکہ پاکستان کو دنیا کے ممالک میں معاشی طور پر مضبوط بنانے اور اپنے پاوٴں پر کھڑا ہونے کے لئے ہمیں ایسے اکنامک منصوبوں کی ضرورت ہے جس سے ترقی کا پہیہ پوری رفتار اور طاقت سے گردش کرے۔ میاں محمد نوازشریف کی حکومت اس ضمن میں جو منصوبہ بندی کر چکی ہے اس منصوبہ بندی سے توانائی کے حالیہ بحران پر قابو پانے میں کامیابی ملے گی اور واقعی آئندہ سال پاکستان کا روشن سال ہو گا جس میں لوڈشیڈنگ ماضی کا قصہ بن کر رہ جائے گی۔

پاکستان میں اس وقت ایک طرف ایسا سمندر بہہ رہا ہے جہاں صاف پانی چلتا ہے اور دوسری ایسا سمندر بہہ رہا ہے جہاں گندا پانی بہتا ہے اور اس سمندر کو وسعت ہماری اشرافیہ دے رہی ہے جو سیاست دانوں کے روپ میں قوم کے سر پر سوار ہیں۔ اگر قوم پاکستان کی ترقی اور استحکام چاہتی ہے تو ایسی اشرافیہ سے نجات حاصل کرنا ہو گا۔ یہ اشرافیہ نہیں بلکہ ایک بیماری ہے جو کرپشن کی پیداوار ہے اب قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس بیماری کا علاج اینٹی باٹک سے کرنا ہے یا پھر سرجری سے۔ ہمیں اس سمت میں سوچ سمجھ کر پیش رفت کرنا ہو گی اور ہمارا فیصلہ ہی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ لہٰذا میاں محمد شہبازشریف نے اپنے خطاب میں جو دعوت فکر دی ہے اس پر ٹھنڈے ذہن سے سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Chiniot Ke Zakhair is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 April 2017 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.