ہمارے معاشی مسائل اور بجٹ

جمہوری معاشرے میں سالانہ قومی بجٹ اور پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس موقعے پر قوم کو ملک کی معاشی حالت، اسکے مالی وسائل اور انکے استعمال کی صورتِ حال، حکومت کی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں اور ترجیحات کی کیفیت سمجھنے میں مدد ملتی ہے

بدھ 6 جولائی 2016

hamare Muashi Masail
پروفیسر خورشید احمد:
جمہوری معاشرے میں سالانہ قومی بجٹ اور پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس موقعے پر قوم کو ملک کی معاشی حالت، اسکے مالی وسائل اور انکے استعمال کی صورتِ حال، حکومت کی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں اور ترجیحات کی کیفیت سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ حال اور مستقبل کے سیاسی، دفاعی اور ہرقسم کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اسکے استعمال کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ اس پر بحث و گفتگو کرنے اور قوم اور ملک کے معاشی اور اجتماعی مقاصد اور اہداف کی صورت گری کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) اور اسکے اتحادیوں کی حکومت نے اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کرلیے ہیں اور یہ چوتھا بجٹ اس حکومت کی تین سال کی کارکردگی کے جائزے کا بہت ہی مناسب موقع ہے۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ (ن) جب حزبِ اختلاف میں تھی تو پیپلزپارٹی کی روش پر سیخ پا تھی اور اس رویے کو ننگی آمریت کہتی تھی، اب اقتدار میں ہے تو اس سے بھی بدتر رویہ اختیار کرنے میں وہ کوئی باک محسوس نہیں کرتی۔

اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری جماعت کے 60 سے زیادہ ارکان نے احتجاجاً واک آوٹ کیا اور ان کو مناکر واپس لانے کی رسم بھی ادا کرنا پڑی۔ بجٹ بنانے میں بھی سارا بوجھ وزارتِ خزانہ پر ہے حالانکہ اس میں پلاننگ کمیشن اور تجارت، معاشی امور، بجلی، گیس اور پٹرولیم، زراعت، تعلیم، صحت، لیبر وغیرہم کا بھی ایک نمایاں کردار ہونا چاہیے۔ اس سال خصوصیت سے جو صورت حال سامنے آئی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ بجٹ سازی اور اس کے دفاع میں ان کا کوئی دخل نہیں۔

خصوصیت سے زراعت جس کا قومی پیداوار میں حصہ 21فی صد اور ملک کی لیبر فورس میں 45فی صد ہے۔ برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کے اہداف بھی پورے نہیں ہوسکے۔ معیشت میں مجموعی نمو کی شرح میں گو سالِ گذشتہ کی شرح سے زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن ہدف سے معیشت بہت پیچھے رہی ہے، یعنی 5.5فی صد متوقع اضافے کے مقابلے میں اضافہ 7.4فی صد ہے۔ سروسز سیکٹر کی کامیابی کی ایک وجہ سرکاری اخراجات، تنخواہوں اور پنشن کے اضافے وغیرہم بھی ہیں جو مالی اور حسابیاتی حد ( terms Accounting) تک تو معیشت کی ترقی اور پیداوار میں اضافے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن عملاً ملک کے پیداواری عمل اور پیدا آوری صلاحیت کو بڑھانے میں ان کا حصہ محلِ نظر ہے۔


وزیرخزانہ نے ضمانت دی تھی کہ SRO's کا سلسلہ ختم کیا جائیگا اور ٹیکس سے چھوٹ کے نظام کو ختم کر دیا جائیگا لیکن تین سال مکمل ہوجانے کے باوجود اور بظاہر SRO's پر کچھ تحدیدات لگانے کے باوصف ٹیکس چھوٹ کا سلسلہ جاری رہا ہے اور سال گذشتہ میں بھی 5.394 ارب روپے ٹیکس میں چھوٹ کی نذر ہوگئے ہیں۔ زراعت کو تو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دم توڑنے پر مجبور کیا جاتا رہا لیکن آٹوموبائل کے سیکٹر کو سالِ گذشتہ میں بھی 5.22ارب روپے کی چھوٹ ( aiver) دی گئی۔

نئے سرکلر قرضوں کے پہاڑ بلند ترہورہے ہیں اور ان کا ان کی مکمل شکل میں بوجھ اب بھی پردہ خفا میں ہے لیکن مختلف اعلانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ 250سے 300ارب کے پیٹے میں ہیں۔ اور یہ سب اس 500ارب کی ادایگی کے بعد ہے جو نوازحکومت نے اقتدار میں آتے ہی لوڈشیڈنگ سے نجات کے نسخہ کیمیا کے نام پر قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بڑی عجلت میں ادا کر دیے تھے۔

یہ الگ بات ہے کہ بجلی کی پیداوار اور لوڈشیڈنگ میں کمی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔
حالیہ بجٹ کے مطابق ایوانِ صدر کے سالانہ اخراجات 86کروڑ 30 لاکھ ہیں اور ایوانِ وزیراعظم کے 88کروڑ 10لاکھ جو 2016-17 کیلئے 8.7فی صد اور 7.4اضافے کے ساتھ بجٹ کا حصہ ہیں۔ عالمی جائزوں میں انسانی ترقی کے باب میں پاکستان کا مقام بڑا ہی شرم ناک ہے۔ دنیا کے 188ممالک میں پاکستان کا نمبر 147 ہے اورHuman Development Index میں ہمارا اسکور 538.0 آتا ہے۔


UNDP کی رپورٹ کے مطابق ہمارا شمار کم ترقی یافتہ ممالک کے بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو اس دوڑ میں اپنے کنبے میں بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ نیپال (548.0)، بنگلہ دیش (570.0)، بھارت (609.0)، سری لنکا (757.0) ہم سے آگے ہیں۔ زراعت اور برآمدات معیشت کے بڑے اہم ستون ہیں۔ یہ دونوں بری طرح متزلزل ہیں اور یہ کیفیت صرف سال رواں میں نہیں ہوئی ہے بلکہ ان تین برسوں میں حالات بتدریج بگاڑ کی طرف بڑھے ہیں اور اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں اور متعلقہ حلقوں کی چیخ پکار کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

پاکستان کی برآمدات کی کارکردگی شدید تشویش کا باعث ہے۔ گذشتہ 18مہینے سے ہرمہینے ان میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ جولائی 2015سے مارچ 2016تک برآمدات صرف 6.15بلین ڈالر تھیں جو گذشتہ سال کے اس زمانے کے دوران 9.17بلین ڈالر تھیں۔ گویا صرف ان مہینوں میں برآمدات میں عملاً 9.12فی صد کمی واقع ہوئی۔زراعت کے مسائل ہوں یا برآمدات کے ۔ ان جزوی اصلاحات سے ان کا حل ممکن نہیں جن کا بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ان دونوں شعبوں میں پورے نظامِ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پالیسی کے اہداف سے لے کر پورے نظامِ کار بشمول Extension Service اور Delivery Systemکے ازسرِنو جائزے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

hamare Muashi Masail is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 July 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.