انکم ٹیکس ترمیمی ایکٹ

کیا حکومت اپنے اہداف حاصل کرپائے گی ترمیمی ایکٹ کو ایمنسٹی اسکیم نہ کہنے سے حقیقت نہیں بدلے گی

منگل 27 ستمبر 2016

Income Tax Tarmeemi Act
خورشید انجم :
دنیا بھر میں عوام سے وصول کیاجانے والا ٹیکس ایمانداری دیانتداری اور قانون کے مطابق ملکی مفادات اور عوام کی فلاح بہبود پر خرچ کیاجاتا ہے لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ حکومت کی جانب سے سیلز ٹیکس اور پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں وصول کئے جانے والے فیصد ٹیکس کا 100 فیصد بوجھ غریب عوام پرپڑتا ہے ۔ تقریباََ 20 کروڑ آبادی میں سے انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کئی تعداد کا صرف 0.7 فیصد ہونا ہمارے نظام کے بانجھ پن اور مضبوط اشرافیہ کی عکاسی کرتا ہے۔

پھر سونے پہ سہاگہ کہ اشرافیہ کمزور قوانین اور سسٹم کے تھٹ فائدہ اٹھا کر کھربوں روپے کاکالا دھن سفید کرکے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
کرپشن لاقانونیت ‘ اقرباپروری اور ناقص طرز حکمرانی ہمیشہ ملکوں کی تباہی کاسبب بنے ہیں لیکن ہم قوانین پر عملدار کو اپنا شعار بنانے کے بجائے لاقانونیت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

خود قریبی کے اس سفر میں موجودہ حکمرانوں کے سابقہ حکمرانوں جیسے معاشی ترقی کے بلند بانگ دعوے اعلانات اور وعدے ایک باپھر ریت کی دیوار ثابت ہورہے ہیں۔ تجارت وصنعت دوست ہونے کی دعویدار موجودہ حکومت نے وفاقی بجٹ 2016-17 ء میں ٹیکس وصولی کے حوالے سے اصلاحات کرنے کااعلان کیا تھا کہ پراپرٹی کی ویلیوایشن کاتعین اسٹیٹ بینک کرے گا۔ بجٹ میں یہ قانون پاس ہوجانے کے باوجود پراپرٹی شعبے کے تمام پلیئرز نے اس قانون کو مسترد کردیا۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے ریونیو‘ ہارون اختر خان اور ایف بی آر حکام نے باہمی مشاورت سے بجٹ میں پاس کرائے گئے قانون پرعملدرآمد کی بجائے پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کیلئے نئی حکمت عملی مرتب کی جس کے تحت صدر مملکت نے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2016ء منظور کرلیا۔
انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2016ء کے تحت شہداء کے پلاٹس کی پہلی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔

ججزسول اینڈ آرمڈ فورسز‘ سرکاری زملازمین سے سرکاری پلاٹ کی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس 50 فیصد وصول کیاجائے گا ۔ 2016-17 ء میں پراپرٹی سیکٹر سے 60 سے 70 ارب روپے کا ٹیکس موصول ہوگا ۔ غیر منقولہ جائیداد کی فروخت سے متعلق ترمیمی ایکٹ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001ء کی سیکشن 68 میں فنانس ایکٹ 2016ء کے ذریعے ایک انتہائی اہم ترمیم کی گئی جس کے تحت صوبائی حکومتوں کا مقرر کردہ پراپرٹی کااویلیو ایشن ریٹ کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور جو بھی شخص پراپرٹی (غیر منقولہ جائیداد ) میں سرمایہ لگائے گا اس کو اپنی پراپرٹی کی اویلیوایشن اسٹیٹ بنک کے مقررکردہ نئے میکانزم سے گزرنا پڑے گا ۔

اس ترمیم سے موجودہ انفارمل اکانومی (بلیک اکانومی ) کاکافی حدتک قلع قمع ہوگا اور کالا دھن بھی ٹیکس نیٹ میں آجائے گا۔ ٹیکس چوروں کو قابل ادائیگی ٹیکس کے 100 فیصد برابر جرمانہ بھی دنیا پڑے گا۔ ماہرین ٹیکس کے مطابق اس نئے ٹیکس میکانزم سے پراپرٹی شعبے میں کھربوں روپے کی ٹیکس چوری کاخاتمہ ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں کالا دھن تقریباََ تین ہزار ارب روپے سالانہ غیر منقولہ جائیداد کی فروخت میں صرف ہورہا ہے جس کی روک تھام ہوسکے گی او رپراپرٹی ٹیکس نیٹ میں بہتری آئے گی۔


انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2016ء کی منظوری سے قبل حکومتی معاشی ماہرین نے لاہور اور اسلام آباد کے تاجروں صنعتکاروں اور بلڈرز سے مشاورت کی جبکہ معاشی حب کراچی خیبر پختونخوا وربلوچستان کے بلڈرز اور صوبائی حکومتوں کو یکسر نظرانداز کیاگیا ۔ خیبر پختونخواحکومت نے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2016ء پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ کراچی اور بلوچستان کے بلڈرز بھی اس حکومتی اقدام پر نالاں میں ترمیمی آرڈیننس کو ایک اور ایمنسٹی اسکیم قرار دے رہے ہیں ۔

اس سے قبل وقتاََ وقتاََ 9ایمنسٹی اسکیم ہوگی۔ جس کے ذریعے کا لادھن سفید کرنے کاایک اور موقع فراہم کیاگیا ہے جبکہ موجودہ حکومت کی یہ تیسری ایمنسٹی اسکیم ہوگی اس سے قبل موجودہ حکومت دوایمنسٹی اسکیمیں متعارف کراچکی ہے جس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے پہلی دو ایمنسٹی اسکیموں کی ناکامی کے بعد موجودہ حکومت کے کرتا دھرتا معاشی ماہرین سینیٹر اسحاق ڈار ہارون اختر خان ایف بی آر حکام حکومت کے منظور نظر بلڈرز اور تجارتی وصنعتی حلقوں کے چند نمائندوں کے درمیان یہ طے پایا ہے کہ اس بارنئے ترمیمی آرڈیننس 2016 ء کو حکومت ایمنسٹی اسکیم یاکالا دھن سفید کرنے جیسا نام دیے بغیر ہی جائیداد کی خرید پرانکم ٹیکس آڈیننس کے سیکشن ٹرپل ون سے تحفظ فراہم کرے گی۔

5فیصد ٹیکس دے کر ایسی جائیداد کوقانونی قراردیاجائے گا اور اس کی خریدکیلئے سرمایہ کاذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے جائیداد کی خریدوفروخت کی اسٹیٹ بینک سے اویلیوایشن کرانے کے حکم نامے سے دستبرداری کے نتیجے میں تقریباََ 20ہزار ارب روپے کی پراپرٹی انڈسٹری کے پاورفل پلیئرز اپنے کالے دھن کو باآسانی سفید کراتے رہیں گے۔

پشاور سے کراچی تک پراپرٹی کی خریداری کا تعین ٹیکس بچانے کیلئے ڈی سی ریٹ پر ہوتا ہے جو کہ اصل قیمت کا عموماََ دسواں حصہ ہوتا ہے اور اسی کو آفیشل قرار دیا جاتا ہے مثلاََ کنٹونمٹس ایریاز میں ایک فلیٹ کاڈی سی ریٹ 50لاکھ ہے لیکن مارکیٹ ریٹ 5 کروڑ روپے ہے یوں خریدار اسٹیٹ ایجنٹ اور فروخت کنندہ تینوں پلیئرز کم قیمت دکھا کر 16 لاکھ کا ٹیکس چوری کرلیتے ہیں اور قومی خزانے کو صرف 4لاکھ روپے وصول ہوتے ہیں۔

ٹیکس ماہرین کے مطابق رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جیسے سمجھوتوں کے ذریعے اثاثوں کو قانونی شکل دینے کا مقصد قومی خزانے کوکھربوں روپے کے محاصل سے محروم کرنا ہے۔ ٹیکس کے شعبے میں شفافیت اور ٹیکس قوانین پر عملدرآمد ہی ٹیکس کلچر کے فروغ کا واحد حل ہے۔ ٹیکس نظام کو ایک طرف بنیادی ریفارمز ٹیکس چوری روکنے اور انصاف پر مبنی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف موثر قانون سازی کرکے ٹیکس چوری کی ریکوری بھی ضروری ہے۔ ایمنسٹی اسکیمیں مسائل کاحل نہیں ٹیکس چوروں کو تحفظ فراہم کرنے اور ٹیکس قوانین سے روگرادانی کے نتیجے میں ٹیکس نیٹ میں توسیع ممکن نہیں ۔ قوانین پر عمل درآمد اور یکساں نظام کے نفاد میں ہی ملکی معاشی ترقی کاراز مضمر ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Income Tax Tarmeemi Act is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 September 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.