مالی خسارہ نصف رہ گیا‘ جی ڈی پی میں اضافہ

ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک ہی منتخب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی زیر قیادت قومی اسمبلی میں پانچویں مالی سال کیلئے بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ برائے 2017-18 پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سال ہمارے جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 5.3 فیصد ہے جو کہ گزشتہ سالوں کی نسبت بلند ترین شرح ہے

جمعرات 1 جون 2017

Mali Khasara Nisf Reh Giya
احسن صدیق:
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک ہی منتخب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی زیر قیادت قومی اسمبلی میں پانچویں مالی سال کیلئے بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ برائے 2017-18 پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سال ہمارے جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 5.3 فیصد ہے جو کہ گزشتہ سالوں کی نسبت بلند ترین شرح ہے آئندہ مالی سال جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح کا ہدف 6فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

حکومت نے معیشت کے استحکام کے لئے جس ڈسپلن پر سختی سے عمل کیااس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ سال 2012-13ء کے 8.3 فیصد کے مقابلے میں کم ہو کر رواں سال میں 4.2 فیصد رہ گیا ہے۔ انتظامی امور میں بہتری اور کئی دھائیوں سے جاری رعایتی ایس آر او کا خاتمہ اس کی بنیادی وجہ ہے۔ مالی سال 2017-18کا حجم47 کھرب اور 52 ارب روپے ہے جس کے تحت ایڈہاک الاونس کو ضم کرکے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافے، محنت کش کی کم سے کم اجرت ایک ہزار روپے اضافے کے ساتھ 14ہزار سے بڑھا کر 15ہزار روپے کر دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

بجٹ کے تحت لگائے گئے نئے ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافے کے نتیجے میں سیمنٹ، سریا، درآمدی کپڑے ، جوتے، گھڑیاں، سگریٹ ، پان ، چھالیہ، کاسمیٹکس، الیکٹرانکس، دوائیں مہنگی ہوگئیں جبکہ چھوٹی گاڑیاں، سمارٹ فون، موبائل کال، مرغی، بے بی ڈائپرز، ہائبریڈ کار، موٹر آئل سستا ہوگیا۔ 85 ہزار روپے سے زائد ماہانہ تنخواہ لینے والوں کو ایڈوانس ٹیکس دینا ہوگا۔


آج معتبر عالمی ادارے جب پاکستان کو 2030ء تک دنیاکی 20 بڑی اقتصادی ممالک میں شامل کرنے کی توقع ظاہر کر رہے ہیں تو اس کی وجہ حکومت کی معاشی پالیسی ہے۔ ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر مناسب سطح پر ہیں جو کہ چار ماہ کی درآمدات کے لئے کافی ہیں۔ گزشتہ 4 سال کے دوران ٹیکس وصولیوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا ہے جو اوسطاً 20 فیصد اضافہ ہے۔ پچھلے چار سالوں میں فی کس آمدن 1.334 ڈالر سے بڑھ کر 1.629 ڈالر ہوئی ہے یعنی 22 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی کمی کی گئی۔ حکومت 300 یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے کم آمدن صارفین کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سبسڈی کی صورت میں جاری رکھے گی۔ بلوچستان کے کسانوں کے لئے زرعی ٹیوب ویلوں کے بجلی کے استعمال پر وفاقی حکومت سبسڈی جاری رکھے گی۔ جبکہ پورے ملک میں زرعی ٹیوب ویل کے لئے 5.35 روپے فی یونٹ آف پیک ریٹ آئندہ مالی سال میں بھی جاری رہے گا۔

جس کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 118ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے بجٹ میں اعلان کیا کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کے تقسیم کنندگان کے منافع کی شرح کم ہے لہٰذا دفعہ 113 کے تحت ان پر ٹیکسوں کی کم ترین شرح 0.2 مقرر کی گئی ہے۔ ان تقسیم گنندگان کو مال کی فراہمی پر عمومی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس لیا جاتا ہے۔ یہ شرح کمی کے باوجود تقسیم کنندگان کے لئے زیادہ تصور کی جاتی رہی ہے چنانچہ تجویز ہے اس سال اس شرح کو 3.5 سے مزید کم کرکے 2.5 کیا گیا ہے۔

۔ تاہم گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے اس کی شرح میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔علاوہ ازیں گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں پرویڑنل اسسمنٹ آرڈر کے بجائے اب قابل اپیل آرڈر جاری کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2016-17 میں ان کمپنیوں کو قابل ادائیگی ٹیکس پر دو سال تک 20 فیصد کی چھوٹ دی جاتی تھی۔ ایس ای سی پی نے اس اقدام کی تعریف کی اور سفارش کی کہ اسے کامیاب بنانے کے لئے مزید تین سال تک لاگو کیا جائے۔

لہٰذا تجویز ہے کہ جو کمپنیاں اسٹاک ایکسچینج میں شامل ہو جائیں انہیں پہلے دو سال 20 فیصد جبکہ آخری تین سال میں 10 فیصد کی چھوٹ دی جائے گی۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے 120 ارب روپے کے نئے ٹیکس تجویز کئے ہیں جو کہ سیلز ٹیکس ‘ کسٹم ڈیوٹی ‘ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور انکم ٹیکس کی مد میں لگائے گئے ہیں گوشوارے نہ داخل کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس کے موجودہ ریٹس میں 50 فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

565 درآمدی تعیش اشیاء پر پانچ سے پندرہ فیصد تک ریگولٹری ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جس سے مقامی مارکیٹ میں ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا ان میں پرفیوم، ٹائلٹس، جوتے، تمام قسم کے ٹن فوڈ آئٹمز، بیوریجز ، ٹیلی ویژن، فریج، ائیر کنڈیشن ،گھڑیاں، وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ چھالیہ اور سگریٹ بھی مہنگے کر دئیے گئے ہیں۔بجٹ میں ایف بی آر ریونیو کا سالانہ ہدف 4013 ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 979 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔

اس مد میں پرائیوسٹائزیشن سے 50 ارب روپے حاصل کئے جائیں گے۔ آئندہ بجٹ کی دیگر تفصیلات کے مطابق ڈیری سیکٹر کو ریلیف دیا گیا ہے اورگرینڈ سٹاک چکن و انڈوں کی برآمد پر ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد اور پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ پولٹری میں سات مختلف اقسام کی مشینوں کی درآمد پر سیلز ٹیکس کم کرکے 7 فیصد کر دیا گیا ہے۔ کمبائنڈ ہاروسیٹ پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔

زرعی ڈیزل انجن پر سیلز ٹیکس واپس لے لیا گیا۔ جس سے زرعی شعبے کو فائدہ پہنچے گا۔اگرچہ آئل سیڈ پر پانچ فیصد سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیاہے مگر یوریا کھاد پر پانچ فیصد سیلز ٹیکس برقرار رہے گا۔اس کے علاوہ تعلیمی مقاصد کیلئے خریدے جانیوالے ملٹی میڈیا پروجیکٹرز پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ میں سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے جو 1 روپے فی کلو گرام سے بڑھا کر 1.25 روپے فی کلو گرام کر دی گئی ہے۔

سٹیل سیکٹر پر ٹیکس میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس وقت فی بجلی یونٹ پر 9 روپے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو بڑھا کر 10.50 روپے کر دیا گیا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس سے استثنی کے حامل پانچ برآمدی سیکٹر پر اس وقت مقامی سپلائی پر 5 فیصد کے حساب سے سیلز ٹیکس لاگو ہے جسے بڑھا کر 6 فیصد کر دیا گیا ہے۔ فائبرک کی کمرشل درآمد پر 6 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

کمپنیوں کے لیے انکم ٹیکس کی مد میں جو اقدامات کئے گئے ہیں اس کے تحت کارپوریٹ کا ٹیکس 31 سے کم کرکے 30 فیصد کر دیا گیا ہے۔ کاروباری برادری نے وفاقی بجٹ 2017-18ء کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں بہت سے مثبت اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن کچھ معاملات ابھی تک توجہ طلب ہیں۔ وفاقی بجٹ میں بجلی کی پیداوار ،پانی کے منصوبوں اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے لیے فنڈز بڑھانا، زراعت، پولٹری، ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے نئے امدادی اقدامات خوش آئند ہیں اور ان سے غیرملکی سرمایہ کاروں کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول ہوگی۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عبدالباسط ، اور دیگر عہدیداروں نے کہا کہ دفاعی شعبے کے لیے فنڈز بڑھانے سے دفاع مزید مضبوط ہوگااور سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ چودہ اگست تک سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کا اعلان کرنا بہت اچھا قدم ہے لیکن اس پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی طرف توجہ دینا اچھا قدم ہے انفراسٹرکچر بینک کے قیام سے زرعی شعبے کو بھی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے نان فائلرز کے لیے مختلف مدات میں ٹیکس بڑھانے کو درست اقدام قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ٹیکس دہندگان کو اسی قدر سہولیات بھی دی جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mali Khasara Nisf Reh Giya is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 June 2017 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.