معیشت کی شرح نمومیں اضافے کی کوشش

گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح افزائش 5.5 فیصد کی بجائے 4.71 فیصد رہی۔ وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب نے اس کی وجہ زرعی شعبہ اور ایکسپورٹ کو قرار دیا ہے۔ وزیر خزانہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اجناس کے بڑھتے ہوئے ذخائر اجناس کی کم ہوتی ہوئی قیمت اور غیر موزوں موسمی حالات کی وجہ سے زرعی شعبہ بحران کا شکار ہو اہے

منگل 21 جون 2016

Mueshaat Ki Sharah e Namu Main Izafe Ki Koshish
ملک محمد رمضان:
گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح افزائش 5.5 فیصد کی بجائے 4.71 فیصد رہی۔ وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب نے اس کی وجہ زرعی شعبہ اور ایکسپورٹ کو قرار دیا ہے۔ وزیر خزانہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اجناس کے بڑھتے ہوئے ذخائر اجناس کی کم ہوتی ہوئی قیمت اور غیر موزوں موسمی حالات کی وجہ سے زرعی شعبہ بحران کا شکار ہو اہے۔

لہٰذا نئے مالی سال کے بجٹ میں یوریا کی قیمت 1400 روپے فی بوری DAP کی قیمت 2500 روپے فی بوری اور زرعی استعمال میں بجلی فی یونت 5.35 روپے کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قرضوں کا حجم سابقہ سالوں کی نسبت بڑھا کر 700 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ مگر کیا یہ پیکیج زراعت کی شرح نمو میں اضافہ کر سکے گا اور کسان خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکے گا۔

(جاری ہے)

حکومت یوریا کے اعلان کردہ ریٹ کے لیے 36 ارب روپے جبکہ ڈی اے پی کے لیے10ارب روپے کی سبسڈی دینی پڑے گی۔

یہ سبسڈی مرکزی اور صوبائی حکومتیں برابر برابر ادا کریں گی۔ بجٹ میں کھادوں پر 46 ارب روپے اور بجلی پر 27 ارب روپے جوکل 73 ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے۔ اگر اس پر اصول وضوابط کے مطابق عمل ہو اجئے تو زراعت منافع بخش اور ملکی جی ڈی پی کی افزائش میں اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہے۔مگر اس کے لیے زمین کی تیاری سے لے کر کھادوں اور نامیاتی اجزاء کے استعمال تک درست اقدامات کئے بغیر صحیح نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔

ہمارے ہاں خاص بیج اورپری بیسک بیج کے نا م پر زرعی ماہرین کاشتکار سے لوٹ مار کر رہے ہیں۔ کپاس کے لیے کاشتکار بیج کی بجائے بنولہ ہی کاشت کر رہے ہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے ریسرچ سنٹرز کو Skill فراہم کی جائے اور دنیا کے رحجانات اور بدلتے موسموں کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی معیار کے بیج پیدا کئے جائیں۔ اس کے علاوہ کاشت کی لاگت نکال کر اس پر جائز منافع کے ساتھ فصلات کے ریٹس اگر حکومت مقرر کر دے تو کاشت سے پہلے کاشتکار کو اعتماد حاصل ہوگا۔

اسی طرح ایکسپورٹ کی پالیسی وضع کر کے مستحکم قیمتوں کے لیے فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ورنہ اب تو گنے کے کاشتکار بھی اس مخمصے میں مبتلا ہوتے ہیں کہ آیا فیصل تیار ہونے پر اس کی قیمت بھی مل سکے گی یا نہیں۔
بجٹ میں قرضوں کا حجم 600 ارب سے بڑ ھ کر700 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ مرگ قرضوں کا طریقہ کار اور قرضہ دینے والوں کے رویوں کو کون ٹھیک کرے گا۔

کہنے کو تو ون ونڈو آپریشن کے ذریعے قرضے دئیے جاتے ہیں مگر قرضوں پر سود انڈسٹری کے شرح سے وصول کیا جاتا ہے۔آسودہ حال لوگوں نے کبھی نہ سوچا ہوگا کہ یہ خاص چیزیں کھلانے والا کاشتکار خود کونسا گھی اور خوراک استعمال کرتاہے۔ اگر کسان خود خالص اشیاء کو اپنے گھر میں استعمال کرنے لگے تو پھر اس کا چولہا چل سکتا ہے نہ بچوں کی فیس کے علاوہ علاج معالجہ کے بنیادی اخراجات پورے ہو سکتے ہیں۔


گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کی افزائش میں جہاں زراعت نے منفی 0.19 فیصد کردار ادا کیا ہے وہاں اکیلی کاٹن کو دیکھا جائے تو س کے اثرات منفی 0.5 فیصد رہے۔ کاشتکار بدد ہو کر شوگر کین اور مکئی کی طرف منتقل ہوتا نظر آرہاہے۔ غیر موزوں حالات سے کاٹن کی قیمت فصل پر کسان اس کی تباہی برداشت نہیں کرسکتا۔ ایسے میں انشورنس اور ہنگامی تعاون کے بغیر کسان بے بس ہے۔ اس وقت ملکی ضرورت ڈیڑھ کروڑ بیلز سے زیادہ ہے جبکہ پیداوار ایک کروڑ بیلز تک آگئی ہے۔ تقریباََ پچاس لاکھ گانٹھ کا شکار فال بیرون ممالک سے پورا کیا جا رہاہے جو زرعی ملک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ لہٰذا آج ملک کو معاشی لحاظ سے 1992 کی پوزیشن پر لے جانے کے لیے بھی حکومت کو ازسرنو جاندار پولیسی اختیار کرنا ہو گئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mueshaat Ki Sharah e Namu Main Izafe Ki Koshish is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 June 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.