پنجاب میں پنجابی زبان پر حملے

ساہیوال کے ایک نجی سکول نے پنجابی زبان کو غیر مہذب زبان کہہ کر خوداپنی گھٹیا سوچ کی عکاسی کی ہے اور ساتھ ہی پنجابیوں کو اپنی زبان کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا سنہری موقع فراہم کردیاہے۔ سکول انتظامیہ کو ایسا کرنے کی ہمت اس لیے ہوئی کہ ہم اپنے بچوں کو نام نہاد روشن خیالی کے چکر میں اپنے کلچر سے دور کرتے جارہے ہیں۔ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ پنجابی اس وقت بھی دنیا میں بولی جانے والی دسویں بڑی زبان ہے

منگل 18 اکتوبر 2016

Punjab Main Punjabi Zuban Per Hamle
عتیق انور راجا:
ساہیوال کے ایک نجی سکول نے پنجابی زبان کو غیر مہذب زبان کہہ کر خوداپنی گھٹیا سوچ کی عکاسی کی ہے اور ساتھ ہی پنجابیوں کو اپنی زبان کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا سنہری موقع فراہم کردیاہے۔ سکول انتظامیہ کو ایسا کرنے کی ہمت اس لیے ہوئی کہ ہم اپنے بچوں کو نام نہاد روشن خیالی کے چکر میں اپنے کلچر سے دور کرتے جارہے ہیں۔

ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ پنجابی اس وقت بھی دنیا میں بولی جانے والی دسویں بڑی زبان ہے۔ جس وقت انگریز سامراج نے برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔اس وقت سے پنجاب اور پنجابی زبان ا ن کی نظروں میں کھٹکتے رہے ہیں۔تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہر دور میں پنجا ب کے جوانوں نے وقت کے حاکم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے انہیں للکارا ہے۔

(جاری ہے)

پنجابیوں نے ہر دور میں اپنی شناخت کو برقرار رکھا ہے۔

آج بھی دنیا بھر میں پنجابیوں سے زندہ دل اور دلیر قوم شائد ہی کوئی اور ہو۔پنجابی کلچر ،ثقافت اور ورثے میں ایسی طاقت ہے۔جو یہاں کے باشندوں کا خون گرم رکھتی ہے۔ہم پنجابیوں کے لیے یہ بات بھی قابل فخر ہے۔کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے بہا دری کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر بھی اکثریت میں پنجاب کے شیر جوان بیٹوں کے حصے میں آتا رہا ہے۔

انگریز دور سے آج تک پنجابی زبان سکولوں میں پڑھائی نہیں جارہی ہے۔جنگ آزادی سے پہلے ہی پنجابی زبان کو پڑھانا بند کردیا گیا تھا۔تقسیم کے بعد ہم انگریز سے آزاد تو ہو گئے۔مگر ہمارے الیٹ طبقے نے جو پالیسی ساذی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ پنجابی زبان سے ہمیشہ بغض کا مظاہرہ کیا ہے۔اور قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک کے بڑے صوبے کے عوام کو ان کی ماں بولی سے دور کرنے کی سر توڑ کوششیں ہوتی رہی ہیں۔

پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے بھی کہا تھا کہ بچوں کو تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے۔مگر اس حکم پر عملدرآمد نہ جانے کیوں نہیں ہو رہا ہے۔پنجاب حکومت کی جانب سے پنجابی زبان کو سکولوں میں پڑھائے جانے سے پہلو تہی کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں کو یہ موقع مل گیا ہے۔اب وہ بچوں کو پنجابی بولنے سے بھی منع کر رہے ہیں۔اور ساتھ ہی پنجابی زبان کو بے ہودہ کہنے کی جسارت بھی کر رہے ہیں۔

آج کل ملک میں یہ سٹیٹس بنتا جارہا ہے جو کوئی اغیار کی زبان میں اپنا فلسفہ جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے لوگ اسے کچھ زیادہ پڑھا لکھا اور دانشور خیال کرتے ہیں۔انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے کہ انگریزی زبان میں بات کر لینے سے کسی طور بھی علمی قابلیت ظاہر نہیں ہوتی ہے۔پاکستان میں پنجابی کلچر اور زبان کو بہت زیادہ نقصان ہماری گنڈاسہ فلم انڈسٹری نے بھی پہنچایا ہے۔

پنجا بی فلموں میں ایسے ایسے ڈائیلاگ شامل کیے جاتے تھے جن کا پنجاب کے کسی بھی علاقے سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔فلموں میں جو ملبوسات استعمال کیے جاتے تھے وہ کسی پنجابی نے شائد ہی کبھی پہنے ہوں۔ اس کے بعد سٹیج ڈراموں کے زریعے پنجابی کلچر اور زبان کو تباہ و برباد کیے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیاتھا۔ ہماری قوم نے کبھی بھی سٹیج ڈراموں میں بولے جانے والے بے ہودہ فقروں ذو معنی لفظوں اور اوباش لفنگوں کے کام کا بائیکاٹ نہیں کیا۔

آج کل ٹی وی پر کچھ کامیڈی ٹاک شوز پنجابی زبان کا بیڑا غرق کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ان شوز میں نام نہاد دانشور اپنی تعریفوں کے پل بندھوانے کے لیے طرح طرح کی گھٹیا حرکات کرواتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ٹاک شوز میں کامیڈین کی انٹری کو بھر پور بنانے کے لیے فنکاروں سے پنجابی زبان میں گھٹیا جگت بازی کروا ئی جاتی ہے۔ایسے کریکٹروں کو ان پڑھ جاہل اور غنڈہ ٹائپ دکھایا جاتا ہے۔

جبکہ انہیں پروگراموں میں اگر کوئی علمی بحث کروانی ہو تو خالص اردو یا پھر انگریزی زبان کا سہارا لیا جاتا ہے۔ آج ہمارے سکولوں میں اگر کوئی بچہ بھول کر پنجابی میں بات کر لے تو اس کی سرزنش ایک عام روٹین ہے۔یہ واقعہ جو بیکن ہاوس میں ہوا ہے یہ ایک نوٹس سامنے آنے کی بات ہے۔ورنہ عملی طور پر سبھی پرائیویٹ سکولوں کالجوں میں پنجابی زبان کا داخلہ بند ہے۔


پنجابی صوفیا کرام اور گرووں کی زبان ہے۔پنجابی زبان کو فضول کہنے والوں پنجابی ادب کو پڑھ کے دیکھیں۔ پنجابی زبان ہر لحاظ سے ایک مہذہب زبان ہے بلکہ پنجابی زبان میں اتنی چاشنی محبت اور طاقت ہے کہ دو صدیوں سے سکولوں میں نہ پڑھائے جانے کے بعد بھی آج یہ ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اگر ہم نے ملک سے گروہ بندی،فرقہ پرستی اور نفرت کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں بچوں کو وارث شاہ ،بھلے شاہ،شاہ حسین،سلطان باہو،بابا فرید،امریتا پریتم اور میاں محمد بخش کو پڑھانا ہی پڑھے گا۔

کیونکہ انہوں نے اپنے کلام سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کو مل جل کے رہنے کا آفاقی سبق دیا ہے۔انہوں نے ہمیشہ لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ بیکن ہاوس میں پنجابی زبان کو بے ہودہ زبان کہنے پر پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔مگر اب بھی پنجابی اپنی ماں بولی کے لیے کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نظر نہیں آرہے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں سندھ میں سندھی کو قومی ز با ن کا درجہ دے کر سندھ کے سبھی تعلیمی اداروں میں لازمی پڑھانے کا حکم نامہ جاری ہوگیا ہے۔ سندھی نہ پڑ ھانے والوں کی رجسٹریشن کینسل کرنے کے احکامات بھی ساتھ ہی جاری کر دئیے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پنجا ب بھی پنجابی زبان سبھی سکول و کالجز میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کا حکم نامہ جاری کر دے۔معروف پنجابی شاعر بابا نجمی فرماتے ہیں۔
جیہڑے آکھن وچ پنجابی وسعت نہیں،تہذیب نہیں
پڑھ کے ویکھن وارث بلھاباہولال پنجابی دا
دھوڑاں نال کدے نئیں مرناشیشے دے لشکارے نے
جنی مرضی تکھی بولے اردو بال پنجابی دا

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Punjab Main Punjabi Zuban Per Hamle is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 October 2016 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.