سکولوں کی پرائیویٹائزیشن

پنجاب حکومت کا ایک اہم فیصلہ جسے بد قسمتی سے ہمارے میڈیا اور عوام نے اب تک زیادہ اہمیت نہیں دی، تمام سرکاری اسکولوں کو مرحلہ وار پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کے بارے میں ہے۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں سرگودھا اور اسکے بعد سیالکوٹ اور راولپنڈی کے پرائمری سکول ” پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن “ کے حوالے کر دیے گئے ہیں

ہفتہ 6 اگست 2016

Schools Ki Privatisation
ڈاکٹر احمد سلیم:
پنجاب حکومت کا ایک اہم فیصلہ جسے بد قسمتی سے ہمارے میڈیا اور عوام نے اب تک زیادہ اہمیت نہیں دی، تمام سرکاری اسکولوں کو مرحلہ وار پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کے بارے میں ہے۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں سرگودھا اور اسکے بعد سیالکوٹ اور راولپنڈی کے پرائمری سکول ” پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن “ کے حوالے کر دیے گئے ہیں جو انہیں پرائیوٹ سیکٹر اور NGOs کے حوالے کر رہی ہے۔

پرائمری کے بعد مڈل اور سیکنڈری سکولوں کی باری آئے گی۔ منصوبے کے مطابق 2018 تک پنجاب کے تمام 52695 پبلک سکول پرائیوٹ سیکٹر اور NGOs کے حوالے کر دیے جائیں گے۔حکومت کا کہنا ہے وہ سکول پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کیے جا رہے ہیں جن میں بچوں کی تعداد بہت کم ہے یا جن کے رزلٹ اچھے نہیں آ رہے اور اس لیے یہ سکول حکومت کے بجٹ پر ایک بوجھ ہیں۔

(جاری ہے)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان سکولوں کا رزلٹ اچھا نہیں ہے تو کیا اسکا بہترین اور واحد حل یہ ہے کہ یہ سکول پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کر دئیے جائیں؟ کیا بہتر نہیں کہ اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسروں سے پوچھ گچھ کی جائے، انہیں اور متعلقہ عملے کو سزا دی جائے اور ان سکولوں کے نتائج بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔

سکول کسی NGO کے حوالے کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے خاص طور پر جب ان میں سے کئی سکول کئی کئی کنال پر مشتمل رقبے پر بڑی بڑی بلڈنگز میں قائم ہیں اور اپنے اپنے شہر کی مہنگی ترین کمرشل جگہوں پر واقع ہیں۔ انکی زمین اور بلڈنگز کی قیمت کروڑوں اربوں روپے ہے۔ مثال کے طور پر راولپنڈی کا ”مسلم ہائی سکول“ 92 کنال پر مشتمل ہے اور شہر کی مہنگی ترین کمرشل جگہ پر موجود ہے۔

ویسے بھی منصوبہ یہ ہے کہ 2018ء تک پنجاب کے تمام سرکاری سکول پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کر دئیے جائیں، چاہے ان کا رزلٹ اچھا ہو یا برا۔ رہا یہ جواز کہ یہ سکول حکومت پر معاشی بوجھ ہیں تو ایک تو تعلیم اور سکول ”کمرشل ادارے ‘ ‘ نہیں ہوتے جن سے منافع کمانا مقصود ہو۔ دوسرا اس سب میں زیادہ قصور بجٹ میں ہماری ترجیحات کا ہے جسکی وجہ سے تعلیم کیلئے ویسے ہی بہت کم پیسے رکھے جاتے ہیں اور جو رکھے جاتے ہیں وہ درست طریقے سے اور مناسب جگہ پر خرچ نہیں کیے جاتے۔

دنیا میں تعلیم پر خرچ کے حوالے سے پاکستان ایک سو چونتیسویں نمبر پر ہے۔ 2014-15 میں اس مقصد کیلئے رکھے گئے بجٹ میں سے تقریباََ 20 فیصد خرچ ہی نہیں کیا گیا۔ اور جو خرچ کیا گیا اس میں سے 909 ملین روپے ” پنجاب ایگزیمیشن کمیشن“ نے پرائمری اور مڈل امتحانات کے انعقاد پر خرچ کر دئیے حالانکہ اس سے قبل یہی امتحانات متعلقہ سکول اپنے طور پر بغیر کسی خرچ کے لے لیا کرتے تھے۔


جن سکولو ں کو NGOs کے حوالے کیا جائیگا حکومت انکی فنڈنگ جاری رکھے گی۔ ان سکولوں کے طالب علموں کو مفت کتب کے علاوہ حکومت متعلقہ NGO یا پرائیوٹ منتظم کو 500تا 700روپے فی بچہ ہر ماہ ادا کریگی۔ اب ظاہر ہے کہ متعلقہ پرائیوٹ منتظمین یا تو اسی فنڈ میں سے اپنا منافع کمانے کی کوشش کرینگے یا پھر مختلف بہانوں سے بچوں سے جائز یا ناجائز طور پر پیسے ہتھیائے جائینگے کیونکہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر صرف ” اپنی جیب“ کیلئے کام کرتا ہے۔

پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کیے جانیوالے سکولوں کے اساتذہ کرام کے مستقبل پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ انتظامیہ جن اساتذہ سے خوش نہیں ہوگی انہیں حکومت دوسری جگہوں پر ٹرانسفر کر دیگی لیکن جب 2018ء تک تمام گورنمٹ سکول پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کر دیے جائینگے تو پھر ان اساتذہ کی ٹرانسفر کہاں ہوگی؟َ اگر ہم یہ بات مان بھی لیں کہ ان اساتذہ کی کارکردگی اچھی نہیں اور یہ نا اہل ہیں تو بھی حکومت سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئیے کہ ان اساتذہ کا انتخاب کس نے کیا تھا؟ کیا اس سب میں اصل قصور وار محکمہ تعلیم کے وہ افسران اور بیوروکریسی نہیں ہے جس نے میرٹ پر قابل اور اہل بندے منتخب نہیں کیے؟ کیا ان ” مبینہ نا اہل“ اساتذہ کو منتخب کرنیوالے افسران ” اہل “ ہیں اور سزا کے حقدار صرف اساتذہ ہیں؟ ویسے بھی جن اساتذہ سے ہم بہترین نتائج مانگ رہے ہیں انکو نہ تو ہم عزت دیتے ہیں اور نہ پیسے اور نہ ہی سکولوں اور کلا س رومز میں سہولیات۔

سال کے 12میں سے دس مہینے ان اساتذہ سے دیگر اور غیر تعلیمی کام لیے جاتے ہیں۔ چاہے مردم شماری ہو، یا الیکشن، چاہے ڈینگی کیخلاف مہم چلانی ہو یا پولیو کے قطرے پلانے ہوں یہ تمام ذمہ داریاں ان اساتذہ کے سر پڑتی ہیں۔ کیا یہ سب ” استاد“ کی عزت ہے اور یہ ” استاد“ کے کرنیوالے کام ہیں ؟ اور کیا تمام سال ان کاموں میں مصروف رکھے جانے والے اساتذہ سے ” رزلٹ“ مانگنا انصاف ہے؟
معاہدے کے مطابق جو سکول پرائیوٹ سیکٹر یا NGO کو دئیے جائیں کے انکو فنڈنگ کے علاوہ سیکیورٹی کی ذمہ دار تو حکومت ہو گی لیکن متعلقہ NGO ٹیچنگ، ٹیچرز کی ٹریننگ، اور ” نصاب“ کو بہتر بنانے کی ذمہ دار ہوگی۔

”نصاب کی بہتری “ مجھے سب سے زیادہ ” خطرناک “ بھی لگ رہی ہے اور خوفزدہ بھی کر رہی ہے۔ ابھی تک صرف چند مشہور اور مہنگے سکولوں میں عجیب و غریب ” نصاب “ درآمد ہوتا تھا اور مختلف NGOs نصاب کے نام پر پہلے ہی جو گل کھلا رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ انکی اکثریت کسی نہ کسی طور باہر کے ممالک سے فنڈنگ لیتی ہے اور فنڈ لینے والا ہمیشہ فنڈ دینے والے کے ایجنڈے پر کام کرتا ہے۔

کیا حکومت نے اس بات کی کوئی ضمانت لی ہے کہ کچھ مہنگے پرائیوٹ سکولوں کی طرح نصاب کی بہتری کے نام پر ان پبلک سکولوں میں بھی ” اسلامیات “ کی جگہ ” مذہبی تعلیم “ کا مضمون تو نہیں لے لے گا جس میں بہانے بہانے سے دیگر مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے اور پاکستان کی تاریخ پڑھاتے ہوئے ” چندر گپت موریا“ کی کہانیاں نہیں پڑھائی جائیں گی؟ مذاہب کا تقابلی مطالعہ اور دوسرے ممالک کی ہسٹری پڑھنا بڑی کلاسوں کیلئے تو ٹھیک ہے لیکن پرائمری اور سیکنڈری سکول کے بچوں کیلئے یہ سب انکے معصوم ذہنوں کو زہر آلود کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔


کیا اس بات سے کسی کو انکار ہے کہ ہمارے بچے مستقبل کے معمار اور پاکستان کا مستقبل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان کے مستقبل کو NGOs اور پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کیوں کیا جا رہا ہے خاص طور پر ایسی صورت میں جب پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت 5 تا 16 سال کے تمام بچوں کو ممکنہ بہترین تعلیم مفت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری اور فرض ہے۔اسکے علاوہ آئین کا آرٹیکل 37(a,b,c) بھی حکومت کو پابند کرتا ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقے سمیت تمام پاکستانیوں کو کم از کم سیکنڈری تک کی تعلیم مفت فراہم کرے۔

کیا آنیوالے وقت میں حکومت اپنی باقی آئینی ذمہ داریوں کو بھی NGOsاور پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کر کے گھر بیٹھ جائے گی؟ کیا ہم اپنے پرائمری کے بچوں کو تعلیم اور نصاب تک خود نہیں دے سکتے؟ اگر نہیں تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمیں پاکستان بنانے کا کوئی حق نہیں تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Schools Ki Privatisation is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 August 2016 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.