افغان تارکین وطن کا بحران

بیروزگاری نوجوان نسل کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔۔۔۔ انٹرنیشنل میڈیا افغان نوجوانوں کو بھاری تعداد کی یورپ نقل مکانی کو سیکورٹی مسائل کی وجہ قراردے رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے

بدھ 21 اکتوبر 2015

Afghan Tarkeen Watan Ka Bohran
رواں سال کو ایشیا اور افریقہ سے بڑے پیمانے پریورپ نقل مکانی کرنے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ایک محتاط اندازے کے تحت اب تک 424,000 تارکین وطن یورپی ساحلوں تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ پچھلے سال یورپ تک رسائی حاصل کرنے والے امیگرنٹس کی تعداد 219,000 نفوس پر مشتمل تھی۔قریباََ 2,748 تارکین وطن رواں سال بحرابیض کو عبور کرنے کی کوشش میں موت کے منہ میں چلے گے۔

اصلی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں۔ نقل مکانی کرنیوالے 424,000 تارکین وطن میں 38 فیصد سب سے زیادہ تناسب شام کے افراد کا ہے جبکہ افغان تارکین وطن 36 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
یورپ جانے والے افغان تارکین وطن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے انٹرنیشنل میڈیا افغان نوجوانوں کو بھاری تعداد کی یورپ نقل مکانی کو سیکورٹی مسائل کی وجہ قرارد ے رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے افغان عوام کو پچھلے 35 سال سے سیکورٹی مسائل کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

ان کی یورپ نقل مکانی کی اصل وجہ معاشی بحران ہے۔
2001 میں طالبان کو اقتدار سے بیدخل کر کے سابق افغان صدر حامد کرزئی کی جمہوری حکومت کو نیٹو کی مدد سے قائم کیا گیا اس دورمیں افغانستان برق رفتار سماجی اور معاشی ترقی کے ایک دور میں داخل ہو ا تھا۔ یہ گروتھ تعمیراتی شعبے میں بھاری امریکی سرمائے سے ممکن ہوئی۔لاکھوں افغان نوجوان کو نہ صرف ملک بھر کے سکولوں اور یونیورسٹیز میں داخلہ ملا بلکہ امریکہ، برطانیہ اور بھارت کی جانب سے بھی انہیں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں تعلیمی سکالر شپ پر داخلہ دیا گیا۔


افغان معیشت اس وقت لڑکھڑانا شروع ہوئی جب نیٹو فوج نے افغانستان سے انخلا کا اعلان ہوا اور بھاری سرمایہ کاری فوری روک گئی۔ غیر ملکی امداد، تعمیرات اور لاجسٹک معاہدوں میں کمی کی وجہ سے افغان معیشت کو سخت افراط زر کا سامنا کرنا پڑا ۔ بیروزگاری نے تعلیم یافتہ افغان نسل میں نااُمیدی پھیلنا شروع کرید ی۔ ان میں یہ احساس تیزی سے بڑھا کہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری ان کی مخفی صلاحیتوں کو ضائع کر رہی ہے۔


انسانی سمگلروں نے افغان نوجوانوں کو سہانے خواب دکھا کر انہیں یورپ جانے کی ترغیب دی ۔وہ انہیں ایسے خواب دکھاتے کہ افغان نوجوان اپنا گھر بار اور قیمتی اشیاء بیچ کر ان کے لیے رقم کا بندوبست کرتے۔ انہیں یہ ادائیگی مختلف اقساط میں کی جاتی ہے۔ انسانی سمگلرز انہیں نمروز کی سرحد سے ایران داخل کرتے۔ یہاں سے کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ ترکی پہنچتے۔

استنبول میں انسانی سمگلرز ان تارکین وطن کو اس وقت تک زیر زمین خفیہ گھروں میں قیام کراتے جب تک وہ ان کے لیے یورپ کے زمینی یا سمندری سفرکا انتظام نہیں کر دیتے۔ چند پناہ گزین مغربی ترکی کے ساحل سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے یونانی جزیروں تک رسائی حاصل کرتے۔ دیگر زمینی سفر کے ذریعے یونانی یا بلغاریہ جاتے۔ ان کی آخری منزل ہنگری یا یورپی یونین کے زون سچنجن ہوتی۔

ایک اوسط افغان تارکین وطن کو اس سفر کے دوران 6 ہزار ڈالر اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں۔
افغان تارکین وطن کے مسئلے کا طویل المدت حل یہی ہے کہ نئی پڑھی لکھی افغان نسل کو ملازمتیں فراہم کی جائیں۔ مختصر منصوبے کے تحت یورپی حکومت کو سرمایہ، دستاویزی فلمیں اور اشتہاری مہم کے ذریعے افغان لوگوں کو یورپ کے غیر قانونی اور خطر ناک سفر سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اگر تارکین وطن یورپ نقل مکانی کے خطرے سے آگاہ ہوں تو وہ کبھی بھی اپنی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Afghan Tarkeen Watan Ka Bohran is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 October 2015 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.