امریکہ عربوں کی پونجی پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے!

اسرائیل کی عالمی دجالی بالادستی سے قبل، پاکستان کو دیوالیہ کرانے کے لیے معاشی دہشت گرد استعمال ہوئے

جمعرات 1 جون 2017

Amrika Arbon Ki Poonji Par Hath Saf Karna Chahta Hai
محمد انیس الرحمن:
موجودہ صورتحال میں دنیا جن سنگین حالات سے دوچار ہونے جارہی ہے اس میں تین خطے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں ان میں سب سے پہلے مشرق وسطٰی یا جریرة العرب ہے اس کے بعد وسطی ایشیا کا جنوبی حصہ یعنی افغانستان اور جنوبی ایشیا جن میں پاکستان اور بھارت واقع ہیں۔اس بات کو اب سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں کہ آنے والے وقت میں دنیا بھر میں امن وسلامتی ،سیاسیات ،معاشی اور معاشرتی حالات کا دارومدار ان تین خطوں کے حالات پر منحصر ہے۔

دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرق اور مغرب کی عالمی پنجہ آزمائی ان تین اہم ترین خظوں میں ہورہی ہے۔
ان تین اہم ترین خطوں میں کشمکش کے نتائج مشرق وسطی میں ظاہر ہونا ہیں،اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہاں حالات کو موجودہ نہج پر پہنچانے کے لیے انتہائی منصوبہ بندی سے کام کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ستر کی دہائی سے حالات کا تسلسل دیکھیں تو معاملات ایک خاص لڑی میں پروئے ہوئے نظر آئیں گے صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا قیامت کے قریب دریائے فرات میں سے سونے کا پہاڑ نمودار ہوگا۔

جس پر لوگوں میں قتال ہوگا اور ہر سو میں سے ننانوے افراد اس کے حصول کی کوشش میں ہلاک ہوں گے ،پس جو اس وقت موجودہووہ اس میں سے کچھ مت لے۔قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں آنے والے واقعات کی نشاندہی علامتی ناموں یا انداز سے کی جاتی ہے۔دریائے فرات سے سونے کے پہاڑ کا ظہور در حقیقت ستر کی دہائی میں عرب میں تیل کا نکلنا ہے۔اس بات کا ذہن میں رکھیں کہ کاغذ کی کرنسی کے رائج ہونے کے بعد جو وجالی مانٹری سسٹم متعارف کرایا گیا تھا اس کے تحت سو نے کے اصل زرکو کاغذ کی کرنسی کی پشت پر ہونا ضروری تھا لیکن جس وقت عالمی صہیونی ساہوکاروں نے یورپ کی طرح امریکہ کے قومی خزانے سے بھی سونے پر ہاتھ صاف کر لیا تو 73ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے انتہائی کمال سے عربوں کے اس بات پر قائل کر لیا کہ تیل کی قیمت کو امریکی ڈالر سے منسلک کردیا جائے اس طرح پہلی مرتبہ سونے کی جگہ عربوں کا تیل اصل زر کی شکل میں امریکی ڈالرز کی پشت پر آن کھڑا ہوا اس نے سونے کے انداز میں کام شروع کردیا ۔

اسی بنیاد پر ”اوپیک“نامی تنظیم تشکیل دے کر تیل پیدا کرنے والے تمام عرب ملکوں اور ایران کو اس میں جکڑ لیا گیا۔اب یقینا دریائے فرات میں سونے کے پہاڑ کے ظہور کا مطلب سمجھ آجانا چاہیے جس کا پس منظر ہم اپنے ایک سابقہ مضمون میں تفصیلاََ بیان کرچکے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے تیل کو سونے کی جگہ ڈالر کی پشت پر کھڑا کرنے کے بعد اسی ستر کی دہائی میں جو دوسرا بڑا کام کیا گیا وہ سابق سودیت یونین کو افغانستان میں پھانسنے کاتھا۔

کیونکہ واشنگٹن سے یروشلم کی جانب ”عالمی انتقال اقتدار“ کے لئے ضروری تھا کہ پہلے دنیا سے دوسری سپر پاور سودیت یونین کو دنیا کے نقشے سے محو کیا جائے،اس کام کی ابتدا1979ء میں ہوئی اور 1990 ء میں جاکر سودیت یونین کی تحلیل کی شکل میں نتائج حاصل کئے گئے۔ان بیس برسوں کے دوران افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی و ہ بھی اسی ”فرات کے سونے“کی بنیاد پرتھی جو عربوں کے پیٹرو ڈالر کی شکل میں خرچ کی جارہی تھی جس کی وجہ سے افغانستان کے میدان جنگ میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے اور سودیت یونین سکڑ کر رشین فیڈریشن کی شکل اختیار کر گیا۔

یوں ایک طرف دنیا کی دوسری سپر پاور تحلیل ہوئی تو مشرق وسطیٰ سے روسی اثرورسوخ کا بوریا بستر بھی لپیٹ دیا گیا۔وہ ماسکو جو جنوبی یمن اور شام کے بعد شمالی افریقہ سے ہوتا ہو امریکہ کے پہلو کیوباتک پوری دنیاطاقت سے رسائی رکھتا تھا اب کریملین کی دیواروں کے اندر سے دنیا کے بدلتے حالات دیکھنے پر مجبور تھا۔1979 میں شروع ہونے والے اس کھیل کا پہلا حصہ 1990 ء میں ختم ہوا تو اس کے ساتھ ہی عالمی دجالی وصہیونیت نے اسی کھیل کے دوسرے حصے کا آغاز کردیا۔

یہ کھیل ان جہادی تحریکوں اور ان سے وابستہ نامور شخصیت کو ہدف بنانے کے لئے تھا،جنہوں نے سابق سودیت یونین کے خلاف افغانستان کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھادوسری خانہ جنگی کروا کر کابل میں پائیدار حکومت کے قیام کے امکانات معدوم کردئیے گئے کیونکہ افغانستان کی جیوپولیٹیکل صورتحال اس قسم کی ہے کہ وہاں ہونے والی خانہ جنگی کے اثرات صرف افغانستان کے سرحدوں کے اندر تک محدود نہیں رہ سکتے بلکہ آس پاس کا تمام خطہ اس سے متا ثر ہوتا ہے۔

اوربعد کے حالات نے یہ ثابت بھی کردیا۔کھیل کے اس دوسرے حصے میں دوسرا بڑا فیز مشرق وسطی میں پیدا کیا گیا جب عراق کی صدام حکومت اور کویت کے درمیان تیل کی پیداوار پر تنازعہ پیدا کردیا گیا جس پرامریکی خاموشی کی شکل میں شہہ پا کر صدام حسین نے تاریخ کی بھیانک ترین غلطی کر کے امریکہ کو خطے میں باقاعدہ نیچے گاڑھنے کے موقع فراہم کردئیے۔صدام کا جرم صرف یہی نہیں تھا بلکہ اس نے اعلان کیا تھا کہ عراقی تیل کی فروخت ڈالرز کی بجائے یورو میں کی جائے گی یہ اس سے بھی بڑا جرم تھا جو کویت پر قبضے کی شکل میں کیا گیا تھا کیونکہ”فرات کا سونا“ امریکی ڈالر سے وابستہ کیا گیا تھا یورپین یورو سے نہیں اس لئے اس کی سزا بھی کڑی تھی یہ اس فیز کا سب سے خظرناک مرحلہ تھا۔

جس میں امریکہ نے پہلی پیش قدمی کرکے کویت کی آزادی کے نام پر مشرق وسطیٰ میں اپنا پہلا پراؤ ڈالنا تھا۔یہ ساری جنگ بھی فرات کے سونے کی بنیاد پر لڑی گئی یعنی صدام کے خطرے سے نمٹنے کے نام پر عربوں کے کئی ٹریلین ڈالر عالمی دجالی صہیونیت کی جیب میں چلے گئے اور نوئے کی دہائی میں امریکہ اور یورپ کی ڈوبتی ہوئی معیشت اچانک منافع بخش سطح پر آگئی۔


مشرق وسطیٰ میں قدم جمانے کے بعد اب اگلا مرحلہ عالمی صہیونی وجالیت کا امریکہ اور نیٹو کی شکل میں پراؤ تھا جسے افغانستان میں انجام پذید ہونا تھا اس مقصد کے لئے جس طرح نوئے کی دہائی میں کویت پر صدام کے حملے کو استعمال کیا گیا اسی طرح نئی صدی کے آغاز میں نائن الیون ک ڈرامہ رچایا گیا ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور اس میں پانچ ہزار سے زائد امریکیوں کی ہلاکت درحقیقت افغانستان میں امریکی داخلے کا لائسنس تھا۔

اس ڈرامے میں عالمی دجالیت نے پہلی مرتبہ”ہالوگرام ٹیکنالوجی“ کا استعمال کیا۔ یہ ٹیکنالوجی لیزر بیم کی شکل میں استعمال کی جاتی ہے جس کے ذریعے زمین پر یا فضا میں کسی بھی جاندار یابے جان چیز کو حقیقت کی شکل میں متحرک دکھا یا جا سکتا ہے۔درحقیقت امریکہ میں ہونے والی آزادانہ رائے ذرائع کی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ نائن الیون کے واقعے میں قطعاََ حقیقی طیارے ٹریڈ سینٹر کی عمارت سے نہیں ٹکرائے تھے بلکہ اصل دھماکے عمارتوں کے اندر پہلے سے نصب شدہ دھماکہ خیز مواد کی مدد سے کئے گئے تھے جبکہ طیاروں کو فضا میں عمارات سے ٹکرانے کا منظر محض نظر کا دھوکہ تھا۔

یہ کارنامہ”ہولو گرام ٹیکنالوجی“ کے ذریعے انجام دیا گیا تھا۔ جسے دور بیٹھ کر کنٹرول کیا جاتا ہے اس زمانے میں عام دنیا اس ٹیکنالوجی سے بے خبر تھی۔اس سارے کھیل میں صحیح ٹائمنگ سب سے اہم ہوتی ہے۔جیسے ہی طیاروں کا عکس حقیقی طیارے کی شکل میں عمارت سے ٹکراتا ہے فوراََ پہلے سے نصب شدہ دھماکہ خیز موادکو بٹن سے اڑادیا جاتا ہے جس سے دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ دھماکہ طیارے کے ٹکرانے سے ہوئے ہیں۔

امریکہ کی بش انتظامیہ نے دجالیت کے اس سرکس میں یہ پہلا کمال کا کھیل پیش کیاتھا۔جس میں پانچ ہزار سے زائد امریکیوں نے اپنی جانیں دے کرامریکہ کو افغانستان میں اپنا دوسرا پراؤ ڈالنے کا ایندھن مہیا کردیا تھا۔
2001ء میں امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنا دوسرا پراؤ ڈالا اور 2005 تک پورے افغانستان میں دندنانے لگے امریکیوں کا مقصد افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کاکام تمام کرنا تھا،مشرف انتظامیہ”فرات کے سونے“ کے سامنے ڈھیر ہو چکی تھی قوم کو پتھر کے زمانے میں پہنچ جانے کا خوف دلاکر ناس مہلک سونے میں خوب ہاتھ رنگے جس کا خمیازہ قوم نے خونی دہشت گردی کی شکل میں بھگتا۔

2005ء کے بعد وہ افغان طالبان بظاہر جن کی کمر امریکہ اپنے صہیونی صلیبی اتحاد کی مدد سے توڑ چکا تھا پہاڑوں سے اتر کر میدان کا رزار میں آگئے اب امریکہ اور اس کے اتحاد کی باری تھی۔۔۔2005ء سے لیکر 2017ء تک جو کچھ ہوا اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا نقاد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس وقت اپنا پہلا دورہ ہی سعودی عرب کا کرتا ہے تو سوال اٹھ جاتا ہے کہ اس میں ٹرمپ کی اپنی رضا شامل ہے یا اس کے ساتھ ساری امریکی اسٹیبلشمنٹ شامل ہے جو بظاہر آپس میں دست وگریباں نظر آتی ہے تو اس کا جواب 1988ء میں دئیے گئے ٹرمپ کے اس انٹرویو سے آسانی کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ:
Kuwait, they live like kings. The poorest person in kuwait, they live like kings, And yet they're not paying.We make it possible for them to sell their oil. Why aren't they paying us 25 percent of what they're making ? it's a joke."
”کویت میں ایک غریب آدمی بھی بادشاہوں کی طرح رہتا ہے اور اس کی کوئی قیمت بھی ادا نہیں کرتے ،ہم ہی نے انہیں اس قابل بنایا ہے کہ وہ اپنا تیل فروخت کر سکیں،پھر وہ کیوں نہیں اپنی دولت کا پچیس فیصد ہمیں ادا کرتے؟کیا یہ مذاق ہے۔


ایک جگہ اور کہتے ہیں
”I really am tired of seeing what's happening with this country,how we're really making other people live like kings, and we're not."
”میں یہ دیکھ کر واقعی تنگ آچکا ہوں کہ اس ملک (امریکہ) کے ساتھ ہو کیا رہا ہے ہم کس طرح دوسرے لوگوں کو بادشاہوں کا ساطرز زندگی اختیار کرنے کے قابل بنا دیتے ہیں اور ہم خود اپنے لئے ایسا نہیں کرتے“۔
یہ آج سے تیس برس پہلے کا ٹرمپ ہے جب باقی دنیا میں شاید کو ئی اس کا نام بھی نہ جانتا ہو۔

توکیا ئی محض اتفاق ہے کہ اسے وائٹ ہاؤس میں لایا گیا؟پچیس فیصد کی بجائے اسلحے کی فروخت کے نام پر عربوں کی باقی ماندہ تمام پونجی سمیٹنے کے لئے۔۔۔؟امریکی اسٹیبلشمنٹ اور وائٹ ہاؤس میں جو جنگ نظر آرہی ہے کیا وہ محض نائن الیون کی طرح نظر کا دھوکہ ہے؟
حالات اور واقعات کی تاریخ کا سیاق وسباق دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ امریکہ اور اس کی اتحادی دجالی قوتیں مشرق وسطی میں اسرائیل کے مکمل غلبے سے پہلے دفاع اور اسلحے کی فروخت کے نام پرعربوں کی رہی سہی جیبیں بھی جھاڑنا چاہتی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا ریاض میں کھڑے ہو کر تہران کو خطرہ قرار دینا در حقیقت دجالی ڈرامے کا حصہ ہے امریکہ کبھی موجودہ صورتحال میں ایران سے نہیں بگاڑے گا پہلے کویت کو آزادی اور اب داعش کے مقابلے کے نام پر وہ اس وقت تک مشرق وسطیٰ سے نہیں نکلے گا جب تک عربوں کو معاشی اور معاشرتی طور پر در بدر نہ کردے اس کے بعد وہ اور اسرائیل ایران سے نمٹیں گے۔

مشرق وسطیٰ میں کیا جانے والا ایک سو دس ارب ڈالر کا دفاعی سودا اسی کی ایک تمہید ہے جبکہ تین سو ارب ڈالر کے سودے اگلے تین برسوں میں ہوں گے۔دوسری جانب افغانستان میں جنگ کے شعلے مزید بھڑکنے والے ہیں۔
اس سارے منظر نامے میں بھارت کو پاکستان سے نمٹنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جس نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وبربریت کی نئی تاریخ رقم کردی ہے تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر نواز حکومت نے وزیر خارجہ تعیناتن نہ کرکے قوم پر ایک طرف ظلم ڈھایا ہے تو دوسری جانب اسحاق ڈار نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال کر سالانہ 1366 ارب روپے کا سود چڑھا دیا ہے۔

عالمی صہیونیت نے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے جب پاکستان کے دفاعی اداروں کی مستعدی دیکھی تو اس کانٹے کو معاشی تباہ کاری سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ عسکری دہشت گردوں سے کہیں زیادہ معاشی دہشت گردوں نے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔لیکن عالمی اور علاقائی حالات کس طرح پلٹا کھا جائیں گے اس کی تفصیل خاصی طویل ہے جسے اگلی مرتبہ بیان کیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Amrika Arbon Ki Poonji Par Hath Saf Karna Chahta Hai is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 June 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.