امریکی حکمت عملی کا شاخسانہ!

پاک افغان،چین بھارت اور قطر سعودی تنازعات

پیر 17 جولائی 2017

Amriki Hikmat e Amli Ka Shakhsana
امتیاز الحق:
پاکستان میں دہشت گردی،افغانستان میں بڑھتی ہوئی طالبان مزاحمت،امریکی افواج کے افغانستان میں تعداد میں اضافہ کے علاوہ نیٹو افواج کی جانب سے افغانستان میں مزید فوج بھیجتے،مشرق وسطی میں برادرانہ ممالک کے درمیان کشیدگی کے ساتھ چین،بھارت سرحدی تناؤ،خطہ کے ممالک میں دہشت گردانہ کاروائیاں ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔

پاکستان کے علاقے پاراچنار میں حالیہ دہشت گردی کا واقعہ اور اس سے ملحقہ افغانستان میں تورا بورا کا علاقہ عراق سے فرار ہونے والے داعش کے ان دہشت گردوں کے حوالے کیا گیا ہے جن کا تعلق پارہ چنار سے رہا ہے۔2010ء کی دھائی میں پارہ چنار سے باقاعدہ بھرتی کی گئی اور ایک بڑی تعداد کو علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں جنہیں عراق میں منصوبہ بندی سے بھیجا گیا۔

(جاری ہے)

جنگ کی بھٹی میں سفاکیت کی ذہنیت کے ساتھ یہ لوگ واپس نہیں آئے بلکہ لائے گئے ہیں۔اس بارمنصوبہ ہے کہ غیر اعلانیہ جنگ کے بادل پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کے اوپر رکھیں اور برسائے جائیں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ جنگ کے حالات پیدا کئے جائیں اس بار سہہ رخی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے اول یہ کہ ایک جانب افغانستان میں شکست کو چھپانے اور طالبان مزاحمت کا ہوّا کھڑا کرکے امریکی واتحادی افواج اور پرائیوٹ کرایہ کی آرمی اور خفیہ پرائیوٹ ایجنسیوں کو افغان امن کیلئے کوشش کرنے والے ممالک میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرنا دوئم علاقہ کے ممالک میں اختلافات کر بڑھاتے ہوئے کشیدگی پیدا کرکے جنگی صورتحال پیدا کرنا جو ہتھیاروں کی فروخت کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

سوئم فرقہ ورانہ تفریق کو مخاصمانہ صورت میں بدل کر ملکی ٹکراؤ کے ذریعے ان ممالک میں اتنا دباؤ بڑھانا کہ یہ ممالک گھٹنے ٹیک کر اپنی سلامتی و خود مختاری کی حفاظت کے قابل نہ رہیں یا پھر ایسے انتہا پسندعناصر کو اقتدار میں لایا جائے جوان قوتوں کی غلامی میں رہیں۔اگر ایسانہ ہو تو اسے ایسی صورت حال سے دوچار کر دیا جائے جیسی شام میں پیدا کی گئی اور اس تجربہ کو افریقہ اور اب ایشیاء میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں پاکستان کی صوبائی حکومتوں نے ایسی ہی سازش اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہونے والے حملوں اور آنے والے واقعات کی روک تھام کیلئے”وطن کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے دہشت گردی اور اشتعال انگیزی اب اور نہیں“کے حوالے سے اخباری اشتہاری مہم کا کمزور سا اعلان کیا ہے جس میں کہا گیا ہے۔ کہ دیکھو․․․توبولو! مشکوک افراد کی سرگرمیوں میں فرقہ واریت ونفرت پر مبنی وال چاکنگ و تقاریر کی اطلاع 1 5 یا ٹال فری نمبر  0800-11-111 پر یا اسکی تصویر0323-1418945 پر واٹس ایپ پر بھیجنے کی ہدایت دی گئی ہے اشتہاری اعلان سے کیا یہ ممکن ہے کہ جوجنگ مشرق وسطیٰ ایشیا اور ہمارے دروازے تک آگئی ہے اور جو کسی نہ کسی شکل میں لڑی جارہی ہے ان قوتوں کو زیادہ اعتماد دیتی ہیں کہ ان کی جانب سے کی گئی کاروائیوں کی روک تھام کی حکومت پاکستان اور ریاست کی کیا تیاری ہے۔

یقینا ردالفساد اس وقت سکیورٹی ادارے دن رات آپریشن کے ذریعے اندرونی دہشت گردوں کا قلع قمع ک رہے ہیں لیکن پارہ چنار کا واقعہ کئی پوشیدہ بھید عیاں کردیتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ ایسا علاقہ ہے کہ جہاں بیرونی قوتوں کو ساز گار فضا ملی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو آسانی کے ساتھ کشیدگی میں تبدیل کر کے افغان جنگ،عراق و شام کے علاوہ پاکستان کے اندر شمالی و جنوبی وزیرستان میں بھی مضبوط قلعہ بند علاقے بنانے میں مدد دی گئی۔

ندائے ملت کے گزشتہ شماروں میں راقم نے جن باتوں کی نشاندہی کی تھی وہ آج اس طرح وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔اگرچہ ہماری ریاستی قیادت کی دور رس نگاہوں نے اندازہ لگا لیا تھا۔جس کی وجہ سے افغانستان کی صورتحال سے نبٹنے کیلئے چار ملکی اتحاد امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا جواب تھا جسے پاکستان ،چین،افغانستان اور تاجکستان پر مشتمل سابق آرمی چیف راحیل شریف کے دور میں تشکیل دیا گیا۔

یہ چار ملکی مشاورتی مکنیزم اس بات پر متفق تھا کہ چاروں ممالک علاقائی خود مختاری اور سلامتی کو یقینی بنائیں گے۔چار ملکی کو آپریشن اینڈ کوآرڈینیشن میکنیزم کے قیام کا مقصد دہشت گردی کے مشترکہ دشمن کو مل کر شکست دینا تھا۔یہ واضح کی گیا تھا کہ یہ میکنیزم اقوام متحدہ کے منشور کے تحت کام کریگا اس حوالے سے اس میکنیزم کی تشکیل کسی دوسرے ملک اور ادارے کے خلاف نہیں ہے۔

چین کے شہر ارمچی میں پاکستان ،چین،افغانستان اور تاجکستان کے ڈپٹی ڈیفنس منسٹر میجر جنرل کبدازادہ شریک ہوئے تھے جبکہ پاکستان کی نمائندگی اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کی۔چار ملکی میکنیزم ان قوتوں کیلئے خطرہ کی گھنٹی تھی کیونکہ پاکستان نے ضرب عضب آپریشن شروع کر دیا یہ آپریشن انہی قوتوں کی جانب سے پاکستان اور علاقے کے دیگر ممالک سے بھرتی کئے گئے۔

ہزاروں عسکریت پسندوں کیخلاف تھا جنہیں ان قوتوں نے مستقبل میں استعمال کرناتھا،جو آج کی شکل میں استعمال ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔یہ عناصر بلوچستان ،خیبر پختونخواہ ،سندھ،پنجاب میں آزمائے جا رہے ہیں۔جوں جوں ان ممالک کے علاوہ خطہ کے دیگر ملک روس،ایران،ازبکستان،قزاقستان، شامل ہوتے گئے امریکی اشرافیہ پینٹا گون سی آئی اے مزید متحرک ہوگئے۔

12 ممالک نے اپریل 2017ء کو ماسکو میں ایک قرار داد منظور کی کہ افغان طالبان ہتھیار پھینگ کر افغان حکومت سے مزاکرات کریں۔ علاوہ ازیں 12 ممالک کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے کیلئے امریکی وار انڈسٹریل نے بھارت کو اتحاد سے علاقہ کرکے چین کے خلاف کھڑا کردیا۔ اگرچہ چنگھائی کانفرنس میں پاک بھارت، چین، روس اور وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں لیکن امریکی قیادت نے کمال چالاکی سے بھارت کو چند مراعات دیگر چین کی سرحد پر اپنی افواج کے ذریعے اسی حکمت عملی پر کام شروع کرادیا جس کا گزشتہ ندائے ملت کے شمارہ میں اشارہ کیا گیا تاکہ افغان جنگ آئندہ پاکستان ،چین،روس،اور ایران میں لڑی جائیگی یعنی وہ ممالک جو افغانستان میں امریکی افواج کی پیدا کردہ صورتحال کے باعث اپنی سلامتی کو خطرہ میں محسوس کرتے ہیں اور جس کے لئے وہ باہمی اختلافات ختم کرکے ایک وسیع اتحاد کی جانب اتفاق رائے پیدا کرسکے تاہم یہ اتفاق رائے میں داعش کے عراقی و مقامی افغانی دہشت گردوں سے کاروائی کرائی گئی۔

اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مخاصمت میں تبدیل کردیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Amriki Hikmat e Amli Ka Shakhsana is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.