بے گناہ مسلمانوں کے قتل کیخلاف ”NOT IN MY NAME “ مہم شروع

گائے کے تحفظ کے نام پر دہشت گردی

جمعہ 21 جولائی 2017

Be Gunah Musalmanon K Qatal K Khilaf NOT IN MY NAME Mohim Shuru
رابعہ عظمت:
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ مہاتما گاندھی کے شری مدراج چندرجی کے 150 ویں یوم پیدائش کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوسروں کے خلاف تشد د کرنا بابائے قوم کے اصولوں کے خلاف ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ گئو بھکتی کے نام پر لوگوں کا قتل قبول نہیں،اسے مہاتما گاندھی قبول نہیں کرتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ چلئے سب مل کر کام کریں۔مہاتما گاندھی کے خوابوں کا ہندوستان بناتے ہیں ۔تشدد سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا اور معاشرے کے طور پر ہمارے یہاں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔قبل ازیں نریندر مودی نے گئور کھشکوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ لوگ گئورکشا کے نام پر دکان کھول بیٹھے ہیں اس پر مجھے بہت غصہ آتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے ایسے لوگوں کے خلاف ریاستی حکومتوں سے کاروائی کرنے کو کہا تھا۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ کچھ لوگ غلط کام کرتے ہیں اور بعد میں گئور کشکوں کا چولا پہن لیتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے مذکورہ خطاب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں۔ایک طرف نریندر مودی یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کے وحشیانہ قتل کے مجرموں کیخلاف کاروائی کریں گے اور انہیں ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو دوسری جانب آر ایس ایس کے ہندو دہشتگردوں کو قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھنے کی کھلی چھٹی بھی دے رکھی ہے،یا پھر ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے بینر تلے نریندر مودی کی قیادت میں پرور وہ یہ جنونی اب اپنے ”آقا“ کی بات ماننے سے بھی انکار کر رہے ہیں۔

جن فرقہ پرستوں کی طاقت پر مودی گدی نشین ہوئے ہیں انہوں نے بھارت میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کر رکھا ہے جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے۔ گئور کھشکوں نے گائے کو گوشت لے جانے کے شبے میں ایک ویگن کے ڈرائیور کو قتل کردیا اور گاڑی کو آگ لگا دی۔ڈرائیور محمد اصغر کو شدید زخمی کیا گیا جس نے ہسپتال پہنچ کر دم توڑ دیا۔

مہاراشٹر کے ایک علاقے میں گئور کھشکوں نے چند گوشت کے مسلم بیوپاریوں کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا ،اس وقت پولیس بھی سامنے کھڑی تھی مگر وہ تماشا دیکھتی رہی جھاڑ کھنڈ میں مسلمان بزرگ عثمان انصاری کو اس لئے مارا گیا اور اس کے گھر کو نذر آتش کردیا گیا کہ اس کے گھر کے باہر مردہ گائے پڑی ہوئی تھی۔
عید سے دو روز قبل رات کے وقت مسلح افراد نے جنید کو اس لئے مار دیا کہ وہ گائے کا گوشت کھاتا ہے۔

وادری کے اخلاق احمد کو بھی جان سے مار دیا گیا تھا کہ اس کے گھر میں فریج سے گائے کا گوشت برآمد ہوا تھا۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں جو نام نہاد سیکولر کے علمبردار بھارت میں پیش آئی ہیں وگرنہ روز مذہب ،ذات اور اب گائے کے تحفظ کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،اور کھلم کھلا یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ ”جو بیف کھائے گا مارا جائے گا“ اور ایک مضمون میں لکھا جاتا ہے ”وید کا آدیش ہے کہ گئو بتیا کرنے والے پاتکی کے پران لے لو“ اس درندگی کا نظارہ دیکھنے کے لئے گائے کے تاجر پہلو خان کے قتل کا ویڈیو ہی کافی ہے کہ وہ سڑک پر بری طرح لاتیں،گھونسے کھانے کے بعد ہائی وے پر بے بسی کی تصویر بنا شکاری کتوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔

گئور کھشک اس کا خون پینے کو تیار کھڑے ہیں چنانچہ یہ اندازہ مشکل نہیں کہ پورے ہندوستان میں مذہبی جنوبی ہندو گئور کھشکوں کی دہشت گردی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ جہاں دیکھو وہاں بیل لے جانے والے مسلمانوں کو نیز گوشت کا روبار کرنے والے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر مارا جارہا ہے،ان کا خون بہایا جارہاہے۔پولیس اس وقت ایف آئی آر درج کرتی ہے جب اس واردات کے خلاف زیادہ احتجاج دیکھتی ہے تو چندغنڈوں کو پکڑ کر خانہ پوری کر لیتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ پولیس کو بھی اوپر سے کچھ اشارے ملے ہوئے ہیں۔جن کی بناپر پولیس محض تماش بین بن کررہ گئی ہے ۔تعجب تو یہ ہے کہ جب یہ گئورکھشک کسی مسلمان کو مارتے ہیں تو اس کی باقاعدہ ویڈیو شوٹ کی جاتی ہے اور اس کی ویڈیو عام لوگوں کے موبائل پر وائرل کی جاتی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ لوگ جان بوجھ کر خود ہی مارپیٹ کی ریکارڈنگ کرتے ہیں پھر وائرل کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں یہ ویڈیوز دیکھ کر ڈراور خوف پیدا ہو۔

ڈیٹا ویب سائٹ انڈیا میپڈ دیکھ کی حالیہ جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2010ء سے 2017ء کے دوران گئور کھشا کے نام پر 57 فیصد مسلمان تشدد کا شکار ہوئے اور گائے سے منسلک تشدد کے 97 فیصد واقعات مرکز میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد ہوئے ہیں۔نریندر مودی نے مئی2014ء میں مرکز میں اقتدار سنبھالا ۔گائے سے وابستہ تشدد کے آدھے سے زیادہ واقعات جھوٹی افواہوں کی وجہ سے رونما ہوئے تھے۔

63 مقدمات میں سے 32 کا تعلق بی جے پی کے علاقوں سے ہے اور اس دوران گئور کھشکوں کی جانب سے حملہ کرنے،قتل،قتل کی کوششیں،ہراساں،خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے واقعات سر فہرست ہیں جبکہ کئی واقعات میں متاثرین کو زنجیروں سے باندھ اور برہنہ کرکے گھمایا اورمارا پیٹا گیا۔درج مقدمات میں مسلمانوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔گئور کھشا سے متعلق اتر پردیش میں درج ہوئے مقدمات کے ہریانہ،گجرات،کرناٹک،مدھیہ پردیش،دہلی،اور راجستھان،بنگال،اڑیسہ میں درج ہوئے۔

30 اپریل 2017ء کو آسام میں دو مسلم نوجوانوں کا جان سے مار دیا گیا تھا اور صرف پانچ فیصد ملزموں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔صرف بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ میں گائے کے نام پر 16معصوم قتل کردیئے گئے ہیں۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے لکھا:
AT LEST 16 MUSLIM KILLED BY HINDU TERRORIST GROUPS IN INDIAN STATE OF JHAR KHAND
 مگر جھاڑ کھنڈ کی بی جے پی ریاستی حکومت مسلمانوں کے قتل پر بہری،گونگی،اور اندھی بنی ہوئی ہے۔

یہاں بے گناہ مسلمانوں کا قتل جاری ہے اور سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
غور طلب بات تو یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں گائے ذبیحہ غیر قانونی عمل ہے تو انسانوں کو قتل کیا جانا قانونی عمل کیسے بن گیا؟پھر اس عمل کے خلاف سخت کاروائی کو ترجیحات میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا؟یہ عجیب بات ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے ان ریاستوں میں ہی گائے کے نام پر مسلمانوں کو اذیت دینے اور ان کا خون بہانے کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔

آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ دوسری جانب فلمساز صبادیوان کی قیادت میں NOT IN MY NAME نامی مہم کا آغاز کیا گیا جس کے تحت دہلی میں جنتر منتر کے میدان میں مظاہرے ہوئے جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے تھے۔اس مہم کا مقصد ذات،مذہب اور گائے کے نام پر کئے جارہے قتل کی مخالفت کرنا تھا۔ شمالی ہند اور مغربی ہند میں گئو کشی پر پابندی بہت پہلے سے ہے لیکن گجرات،مہاراشٹر ،مدھیہ پردیش سمیت دیگر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں اس قانون کو زیادہ سے زیادہ سخت بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں صرف یہی نہیں بلکہ انہی ریاستوں میں نام نہاد گئو کھشک تنظیمیں بن گئی ہیں ،یہ جتھے جس پر چاہتے ٹوٹ پڑتے ہیں۔

بہر حال گئور کھشک کے حوالے سے 2017ء اب تک بدترین رہا ہے۔رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 20 حملے کئے گئے جو 2016 کی نسبت 76 فیصد زیادہ ہیں۔اور ہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ گئور کھشکوں کی دہشت گردی کااصلی نشانہ صرف مسلمان ہی ہیں ان کی نوعیت فرقہ وارانہ ہے۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگرس کی اقتدار والی ریاستوں کی حکومتیں بھی نہ صرف گئو رکھشگ تشدد نمٹنے میں ناکام رہیں بلکہ انہوں نے بھی اس دہشت گردی کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا اور نہ ہی موجودہ قوانین کے تحت ان مجرموں کے خلاف کاروائی کی گئی۔

دراصل آر ایس ایس کی سیاسی طاقت مسلمانوں کے لہو سے ہی بڑھتی ہے یہ آر ایس ایس کا آزمودہ نسخہ ہے کہ گائے اور بیف کے نام پر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا جائے اور موجودہ مودی حکومت کا ریموٹ کنٹرول سنگھ پریوار کے ہاتھ میں ہے اور حکومت میں شامل افراد محض کٹھ پتلی ہیں۔نریندر مودی نے آج تک زعفرانی بریگیڈ کے خلاف بیان دینے کی جرات نہیں کی۔

گجرات میں ایک تقریب کے دوران اپنے خطاب میں ان حملوں پر افسوس کم گاؤر کھشا کے حق میں پرچار زیادہ کیا۔انہیں اس تقریب میں گاؤر کھشا کی اہمیت اور ملک میںآ ئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کا ایجنڈا مودی نے گاؤر کھشا کے تذکرہ کے ذریعے طے کردیا ہے۔مودی نے گجرات میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ تمام طبقوں کو گاؤر کھشا اور گاؤ بھگتی کا اختیار کرنا ہی پڑے گا،اسی میں ان کی بھلائی ہے۔

مودی کے تیور حال ہی میں مرکز اس قانون کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں ذبیحہ کیلئے جانوروں کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیف پر پابندی کا مقصد صرف مسلم تاجروں کو نشانہ بنانا ہے اور انہیں معاشی طور پر تباہ کرنا ہے۔ تا ہم ”ناٹ ان مائی نیم“ نامی مہم نے گویا ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے اس کے ذریعے بڑھتے ہوئے اسلام فوبیا کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے ۔

دارلحکومت دہلی کے میدان جنتر منتر میں ہر مذہب کے ماننے والے نے شرکت کی اور مسلم نوجوان جنید سمیت بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے خلاف دھرنا دیا۔احتجاجی مارچ میں ڈاکٹر امبیڈ کرکے پوتے نے کہا کہ یہ دلتوں،مسلمانوں اور ہندوستان کے امن پسندوں کے خلاف سیاسی ایجنڈا ہے۔سیاسی رہنماء آنند پٹوردھن کے مطابق آر ایس ایس،مودی ،بیف اور گائے کے نام ہر ہم سب احتجاج کرتے رہیں گے جبکہ ان مظاہروں میں مودی مردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے۔

یہاں یہ بھی جاننا دلچسپ ہوگا کہ آر ایس ایس نے اپنے قیام 1929ء سے لے کر برصغیر کی تقسیم تک برطانوی دور حکومت میں بھی کبھی گائے ذبیحہ کرنے کیلئے کسی قسم کی تحریک نہیں چلائی تھی۔البتہ اس کے ذریعے اس قسم کے پروپیگنڈے نے گوشت کھانے یا اس کا کاروبار کرنے والے مسلمانوں اور دلتوں کو دہشت زدہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آر ایس ایس کے ذریعے ہندو نظریاتی مفکر کے طور پر مستند قرار دئیے گئے سوامی وویکا نند نے کیلفورنیا کے شیکسپیئر کلب میں 2 فروری 1900ء کو بدھست انڈیا کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ”آپ حیران رہ جائیں گے اگر قدیم تفاصیل کی بنیاد پر کہوں کہ وہ اچھا ہندو نہیں ہے جو گائے کا گوشت نہیں کھاتاہے۔

اہم مواقع پر اسے لازماََ بیل کی قربانی دینا اور اسے کھانا چاہیے،اس بیان کو ویدک دور کی تاریخ وثقافت کے ماہر سی کیفنن راجا کی بات سے تقویت ملتی ہے۔اہم بات ہے کہ راجا نے یہ تحقیقی کام وویکانند کے قائم کردہ ادارے رام کرشن مشن کے تحت کیا ہے اس میں انہوں نے کہا ہے۔”ویدک آرین جن میں برہمن بھی تھے۔مچھلی گوشت یہاں تک کہ گائے کا گوشت بھی کھاتے تھے۔ایک معزز مہمان کی مہمان نوازی میں بیف پیش کیا جاتا تھا۔ اگرچہ ویدک آرین بیف کھاتے تھے لیکن اس کیلئے دودھ دینے والی گائے کو ذبح نہیں کیا جاتا تھا۔ایسی گایوں کیلئے (جنہیں مارنا نہیں ہے)کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا لیکن مہمان کیلئے بیل ،بانجھ گائے اور بچھڑوں کو ذبح کیا جاتا تھا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Be Gunah Musalmanon K Qatal K Khilaf NOT IN MY NAME Mohim Shuru is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.