بھارت میں انتہا پسندی اور ابتدا ؟

اب دہلی کلکتہ اور دوسرے کئی شہروں میں مظاہروں کے دوران آزادی کشمیر کے مطالبے ہونے لگے ہیں اور وہاں پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگے ہیں۔ یہ کیسی انتہا پسندی ہے اور پھر ابتدا کیا ہے؟ ابتدا پسندی بھی کہیں ہے؟

ہفتہ 20 فروری 2016

Bharat Main Intiha Pasandi Aur Ibtada
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی:
اب دہلی کلکتہ اور دوسرے کئی شہروں میں مظاہروں کے دوران آزادی کشمیر کے مطالبے ہونے لگے ہیں اور وہاں پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگے ہیں۔ یہ کیسی انتہا پسندی ہے اور پھر ابتدا کیا ہے؟ ابتدا پسندی بھی کہیں ہے؟ نہرو یونیورسٹی میں ہندو انتہا پسندی کے خلاف بھرپور احتجاج ہوا۔ مظاہرہ ہوا۔

وہاں شہید کشمیری لیڈر افضل گورو کی برسی پر ہندووٴں نے بھی مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ افضل گورو کو بڑی بے دردی سے مارا گیا اور بڑی بے حسی سے جیل کے احاطے میں ہی دفن کر دیا گیا۔ پتہ نہیں کہ اس کی قبر کہاں ہے۔ کشمیری عزیزوں اور رشتہ داروں نے افضل گورو کی میت اپنے حوالے کرنے کیلئے کہا کہ وہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور خود ہی دفن کریں گے۔

(جاری ہے)

مگر بزدل بھارتیوں نے یہ نہ کیا کہ اس طرح آزادی کشمیر کی تحریک کو فروغ ملے گا اور وادی میں نئی آگ بھڑک اٹھے گی۔ کبھی تو ہو گا کہ یہ آگ ہر ظلم اور زیادتی کو جلا کر بھسم کر دے گی۔ یہ راکھ سارے بھارت میں طوفان بن کر بکھرے گی۔ مگر اب وہ آگ خود ہندووٴں کے درمیان چمکی ہے۔ اب ہندو بھی محسوس کر رہے ہیں کہ یہ ظلم حد سے گزر رہا ہے۔ کشمیر کے مقابلے میں افضل گورو کی برسی پر زیادہ بڑا مظاہرہ ہوا۔

نہرو یونیورسٹی دہلی میں طلبہ و طالبات نے بڑا مظاہرہ کیا۔ وہاں کشمیری مسلمانوں کی تعداد تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلمانوں نے مظاہرہ کیا جس میں ہندو طلبہ و طالبات نے بھی حصہ لیا۔ جب ہندو پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس سے ایک طالب علم زخمی ہو گیا تو یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر کنہیا کپور نے بھی احتجاج کیا۔ اسے بھی پولیس گرفتار کر کے لے گئی۔

اس طرح مظاہرہ سب طالب علموں کی مشترکہ معرکہ آرائی بن گئی۔ کئی دنوں سے وہاں مظاہرے چل رہے ہیں اور پہلی بار کشمیر کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی آزادی کشمیر کا مطالبہ زوروں سے ہونے لگا ہے۔ کشمیر میں بھارتی افواج کے سامنے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے رہتے ہیں۔ اب دہلی میں ہندو پولیس کے سامنے پاکستان زندہ باد کا نعرہ سنائی دینے لگا ہے۔

خیال ہے کہ یہ نعرے بھارتی انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی نے بھی سنے ہوں گے۔ پورے بھارت میں انتہا پسندی کی جو لہر چلی ہے‘ اب طوفان بلاخیز بن کے سب کچھ بہا کے لے جائے گی۔ نریندر مودی بہت مکار اور ظالم انسان ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرنے کے بعد بغیر ویزے کے پاکستان میں داخل ہوا۔ لاہور پہنچا۔ وہاں پاکستانی وزیراعظم نوازشریف سے اپنا غیر قانونی استقبال کرایا اور نوازشریف کے آبائی بھارتی قصبے جاتی عمرہ کے نام پر جاتی عمرہ رائے ونڈ میں نوازشریف کی سالگرہ کی تقریب میں جا پہنچا۔

اس روز مریم نواز کی بیٹی کی شادی بھی ہو رہی تھی۔ اس میں شرکت کی۔ وہاں پاکستان بھارت کے منافقانہ روابط کی کیا بات ہوئی ہو گی۔ سالگرہ اور شادی کی تقریبات سے ہی فرصت نہ ملی ہو گی۔ نوازشریف کو شاید رائے ونڈ کا نام پسند نہیں ہے کہ اس سے تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماع کی طرف اشارہ جاتا ہے۔ جاتی عمرہ کی بات مشہور کی جاتی ہے کہ یہ بھارت میں شریف خاندان کا آبائی قصبہ تھا۔

معلوم نہیں کہ اس گاوٴں کا نام کیسے لکھا جائے جاتی عمرہ یا جاتی امرا؟ ا خیال ہے کہ جاتی امرا ٹھیک ہے کہ اب یہ امرا کا ٹھکانہ ہے۔ مگر مسلم لیگ ن کے لوگ اور بالخصوص نوازشریف کے متوالے کہتے ہیں کہ یہ جاتی عمرہ ہے۔ کیونکہ ہمیں عمرہ کرنے کیلئے اب بہت آسانی ہے۔ ہم وہاں جاتے ہیں۔ وہاں نوازشریف بھی ہوں تو ہمارا عمرہ ہو جاتا ہے۔ ہم اسے سیاسی عمرہ کہتے ہیں۔

بھارت میں حکمرانوں کی رہائشیں ملا کے بھی جاتی عمرہ کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ انتہا پسند ہندووٴں کے مقابلے میں شاید پاکستان میں کوئی گروپ وجود میں آ گیا ہے۔ مگر وہ انتہا پسندی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف کرتے ہیں۔ اسے مذہی انتہا پسندی کا نام دیا گیا ہے۔ بھارت کی ہندو انتہا پسندی کو مذہبی انتہا پسندی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ہندو ہوتا ہی انتہا پسند ہے۔

اب وہاں ایسے لوگ ہندووٴں میں پیدا ہو رہے ہیں جو ہندو انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ اپنے اپنے ایوارڈ جن لوگوں نے بھارت میں اس انتہا پسندی کے خلاف ردعمل کے طور پر بھارت کی ہندو حکومت کو واپس کر دیئے ہیں ان لوگوں میں شاید ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ سارے کے سارے ہندو ہیں۔ اب ہندووٴں میں یہ ”ابتدا پسندی“ پیدا ہو رہی ہے۔ اس کا بڑا مظاہرہ نہرو یونیورسٹی دہلی میں ہوا ہے۔

وہاں جو نعرے لگے ہیں۔ وہ سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر افضل مانگے آزادی (افضل گورو) ہر گیلانی مانگے آزادی۔ (علی گیلانی)۔ ہم چھین کے لیں گے آزادی۔ بی جے پی مردہ باد۔ آر ایس ایس مردہ باد۔ مودی سرکار مردہ باد۔ مظاہرین یونیورسٹی سے ڈی سی آفس تک گئے۔ مودی کی کابینہ میٹنگ میں صرف یہی مظاہرہ زیربحث رہا۔ اس دوران میں مدارس ہائیکورٹ کے جج جسٹس کارنن کا بیان لرزہ خیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں بھارت میں پیدا ہونے پر شرمندہ ہوں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میں دلت ہوں مجھے اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ہم ہندو ہیں مگر ہمارے ساتھ مسلمان اقلیتوں سے بھی برا سلوک کیا جاتا ہے۔ مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ بھی یہ سلوک بے انصافی اور ظلم ہے کہ وہ بھارتی شہری ہیں اور ہر شہری کے حقوق برابر ہیں۔اس بات پر غور کریں کہ وہ ایک دلت ہو کے بھی اتنا زبردست آدمی ہے کہ وہ ہائیکورٹ کا جج بنا ہے۔ اس کا یہ حال ہے تو وہ دلت جنہیں جینے کا حق نہیں دیا جاتا۔ ان بے سہارہ اور مظلوم لوگوں کا کیا حال ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bharat Main Intiha Pasandi Aur Ibtada is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 February 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.