بی جے پی کا ہندوستان کی تاریخ مسخ کرنے کا منصوبہ

دوسو سال پرانی بغاوت پر سیاست جاری۔۔۔ ”پائیک بغاوت 1817ء “ کو آزادی کی پہلی جنگ قراردیدیا

بدھ 16 اگست 2017

BJP Ka Hindustan Ki Tareekh Masakh Karnay Ka Mansooba
رابعہ عظمت:
نریندر مودی حکومت ہندوستان کی آہستہ آہستہ ہندو راشٹر یہ کی طرف لے کر جارہی ہے۔اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا شدھی کرن،ان کا جبراََ تبدیلی مذہب،جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کی کردار کشی ”بیٹی بچاؤ بہولاؤ“مہم کے تحت مسلمان لڑکیوں کی زبردستی ہندو لڑکوں سے شادی ، دلتوں پر حملے اور گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام دوسری جانب بی جے پی سمیت دیگر ہندو تو لیڈروں نے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔

کھلے عام انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر انہیں بھارت میں رہنا ہے تو ہندو بن کررہنا ہوگا ورنہ پاکستان چلے جاؤ۔تعلیمی نصاب میں آر ایس ایس کے نظریات کو شامل کیا جارہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں ”سوریہ نمسکار“ اور اب ”وندے ماترم“پڑھنا لازمی قراردیدیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

بنگال سے لے کر پنجاب تک ہندوستان پر بھگوا سرکار کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔

سیکولرازم دم توڑ رہا ہے اور سنگھ پریوار کے پرچارک مودی کو اگلے انتخابات میں بھی وزیراعظم بنانے کی کی تیاریاں کی جا چکی ہیں تاکہ بھارت کو ہندوراشٹریہ بننے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے ہندوستان کی سینکڑوں سال پرانی تاریخ کو سنگھی نظریات کے مطابق ازسر نو لکھا جارہا ہے جس کی واضح مثال چار سو سال پرانی ہلدی گھاٹی کی جنگ میں اکبر بادشاہ کے ہاتھوں رانا پرتاب کی شکست کو کامیابی میں بدلنا ے یعنی رانا پرتاب کو عظیم فاتح قرار دیا گیا اور اب 1857ء کی جنگ آزادی جو انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی پہلی لڑائی ہے اور جس میں مسلمانوں نے بھر پور حصہ لیا تھا اس کی بجائے 1817ء میں اڑیسہ میں ہوئی ”پائیک بغاوت“ کو انگریزی دور تسلط کے خلاف پہلی جنگ قرار دیا جارہا ہے۔

بغاوت کی 200 ویں سالگرہ کی تقریب کا انعقاد کرتے ہوئے بھارتی حکومت کی طرف سے سال بھر تقریبات منانے کا اعلان بھی کیا۔ بھارتی صدر نے کہا کہ پائیکا بیداری اپنی نوعیت کے لحاظ سے اڑیسہ کے عوام کی بغاوت تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اڑیسہ کی خودمختاری اور اڑیسہ کے عوام کے حقوق کی جائے۔ صرف پائیک ایک مسلح جدوجہد نہیں تھی بلکہ بنیادی سطح پر عام انسانوں کے ذریعے چھیڑی گئی ایک قومی جنگ تھی۔

بھارتی صدرنے تاریخ دانوں پر زور دیا کہ وہ تاریخ لکھتے وقت ہندوؤں کو لوک گیتوں اور کتھاؤں پر بھی توجہ دیں۔ تیرت تو یہ ہے کہ اس لڑائی کے بارے میں بھارت بالخصوص اڑیسہ کی نئی نسل کم جانتی ہے جبکہ بی جے پی دو سو سال پہلے اڑیسہ میں ہونے والی ”پائیک بغاوت“ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ریاستی حکمران جماعت لیجوں جنتا دل بھی اس معاملے میں بی جے پی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پائیک بغاوت پر بی جے ڈی اور بی جے پی کے درمیان جاری رسہ کشی 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر ہے۔ دونوں ہی پارٹیاں تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے ہندو اکثریتی طبقے کے ووٹ کے حصول کی تک ودود میں مصروف نظر آتی ہیں چنانچہ اس معاملے میں بی جے پی نے ابتدائی برتری حاصل کرلی ہے۔ اڑیسہ کی ریاستی حکومت کے مطابق چونکہ پائیک بغاوت 1857ء کی جنگ سے چالیس سال قبل ہوئی تھی اس لئے آزادی کی پہلی جنگ قراردیا جائے۔

لیکن مئورخ اس دلیل سے متفق نہیں ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس سے پہلے اڑیسہ بنگال اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں بغاوت ہوئی تھی۔ تاریخ کے بھارتی پروفیسر ڈاکٹر پرتیش آچاریہ کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کو اس پر بحث کرنے کے بجائے یہ فیصلہ مورخین پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بغاوت کی سالگرہ کی تقریب میں مرکزی وزیر نے پائیکو کی یادگار قائم کرنے کے لئے اڑیسہ کی حکومت سے زمین مہیا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

1803ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مراٹھیوں کو شکست دیکر اڑیسہ پر قبضہ کیا نیزانگریزوں نے کھوردھا کے اس وقت کے راجا مکنددیو دوئم کے ہاتھوں پوری میں قائم ہندوؤں کے راجا جگناتھ مندر کا انتظام چھین لیا۔ مکنددیو دوئم اس وقت نابالغ تھے لہذا ریاست کی نگرانی ان کے اہم مشیر جے راج گرو کررہے تھے۔ راج گرو کویہ توہین برداشت نہیں تھی انہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی لیکن گرو کو کمپنی نے گرفتار کرلیا اور پھانسی دیدی۔

انگریزوں کا خیال تھاکہ گرو کی سزائے موت کے بعد اڑیسہ کے لوگ بغاوت سے باز آجائیں گے لیکن واقعہ اس کے برعکس ہوا۔ راج گرو کو پھانسی کے بعد انگریزوں پر حملے شروع ہوگئے اس وقت بخشی جنگ بندھو کی قیادت میں پائیکو نے دوسو سال قبل انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی پائیک اصل میں کھوردھا راجہ کے وہ کسان فوجی تھے جو جنگ کے وقت دشمنوں سے لڑتے تھے اور امن کے وقت ریاست میں ضبط ونظم برقرار رکھنے میں مدد دیتے تھے اس کے عوض انہیں ہندو راجہ نے جاگیر دی ہوئی تھی جسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ختم کردیا۔

اس کے ساتھ ایسٹ کمپنی نے کسان کالگان بھی کئی گنا بڑھا دیا۔ کوڑی کی جگہ سکے اور روپے رائج ہونے اور نمک بنانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ 1814ء میں مکنددیو دوئم کے سپہ سالار اور پائیکوں کے سردار بخشی جنگ بندھو ودیا دھر مہایاترا کی جاگیر چھین لی گئی اس کے بعد انگریزوں کے خلاف غصہ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ بخشی جنگ بندھو کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف شروع کی گئی لڑائی میں۔

کھوردما کے علاوہ پوری ، بنپور،پیلی،کٹک،کینکا،کو جنگ اور کیونجم کے باغی بھی شامل ہوگئے تھے۔ 1817ء میں انگریزوں کے ظلم سے عاجز کندھمال اور بانپور کے کندھ قبائلوں نے بخشی کی فوج کے ساتھ مل کر بغاوت کی۔ باغیوں نے سرکاری خزانہ لوٹا اور کھوردھا میں واقع کمپنی کے انتظامی دفتر پر بھی قبضہ کر لیا ۔ بعد ازاں انگریزوں نے انہیں شکست دیدی اور بہت سے باغیوں کو پھانسی دیدی گئی۔

بہت سوں کو قید کرلیا گیا اور 100 سے بھی زیادہ لوگوں کو جلا وطن کردیا گیا۔ 1817ء میں کے جانے والی بغاوت کے لیڈر جگ بندھو کو کٹک کے قلعہ میں قیدی بنادیا گیا جہاں 1821ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ 1817ء سے شروع ہونے والی بغاوت1827ء تک جاری رہی۔ بالآخر انگریزوں کی جیت ہوئی۔ ”پائیکا ودروہ “اڑیسہ میں ایک خاص طبقے سے وابستہ سمجھا جاتا ہے اور اسے زیادہ اہمیت حاصل نہیں مگراب بی جے پی اس کے ذریعے سیاسی روٹیاں سینکنے کے چکروں میں ہے۔

مئی 1817ء میں کھوردھا کے باغیوں کر سزا سنانے کیلئے ججوں کو تعینات کیا گیا۔ زیر حراست باغیوں کو پھانسی ، جلاوطنی اور عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 1818 سے 1826ء کے دوران کئے گئے انگریزی فوج کے آپریشن کے تحت جنگلوں میں سے ان باغیوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا جو بغاوت کے وقت جان بچا کر بھاگ گئے تھے۔ اس آپریشن کے دوران لاتعداد پائیکو کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

پوری پر قبضہ کے بعد راجا مکنددیو کو بھی جلاوطن کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں انگریزوں نے دوبارہ علاقے پر قبضہ کیا تو راجہ کوچوٹک میں قید رکھا گیا اور 1817ء میں راجا نے قید کے دوران ہی وفات پائی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بغاوت کی تفتیش کیلئے ایک کمیشن بھی قائم کیا تھا اقع کمشنرآف چونک رابرٹ گیر کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ ایسی بغاوت دوبارہ سر نہ اٹھائے ۔

جبکہ انگریزوں نے مقامی سطح پر باغیوں کی کاروائیوں سے بچنے کیلئے اڑیسہ ریاست کا ایک بڑا حصہ بنگال اور مدارس میں تقسیم کردیا جبکہ اس کے علاوہ بھی اڑیسہ میں انگریزوں کے خلاف باغیوں کی مقامی سطح پر کاروائیاں جاری رہیں جن میں 1827 اور 1835 اہم ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی نافذ کردہ ریونیو پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کے بے حد مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور افسوس وہ پالیسیاں آج بھی نافذ العمل ہیں اور غریب آدمی کی تکالیف میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی 1600ء میں قائم ہوئی تھی۔ کمپنی نے معمولی تجارت کے ساتھ ہندوستان میں کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ 1611ء میں ہندوستان کے مشرقی ساحل پر واقع شر مچھلی پٹنم میں کمپنی نے اپنا پہلا کارخانہ قائم کیا تھا۔ 1612ء میں مغل بادشاہ جہانگیر سے ہونے والے ایک تجارتی معاہدے کے تحت کمپنی کو ہندوستان کے کئی شہروں میں فیکٹریاں اور گودام قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔

1647ء تک کمپنی سورت،مدارس اور بمبئی سمیت کئی شہروں میں فیکٹریاں اور تجارتی کوٹھیاں بنا چکی تھی۔ کمپنی کا زیادہ تر کاروبار کپاس،ریشم ، تیل،نمک،مصالحہ جات، تیار شدہ سوتی کپڑا ، ریشمی کپڑا اور چائے کی تجارت پرمبنی تھا۔ کمپنی کے ساتھ مقامی ہندو راجاؤں کے ساتھ تناؤ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پہلی مرتبہ 1664ء میں مرہٹہ سردار شیواجی نے سورت میں کمپنی کے دفتر پر حملہ کیا تھا۔

مغل حکومت اور کمپنی کے مابین 1686ء سے 1690 تک جاری رہنے والی جنگیں بھی اہم ہیں۔ ان لڑائیوں میں کمپنی کو شکشت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔مغل فوج کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد کمپنی کے اعلیٰ افسران کو گڑ گڑاتے ہوئے مغل شہنشاہ اورنگزیب سے معافی مانگنی پڑی تھی اور بھاری تاوان کی ادائیگی اور مستقبل میں اچھے رویے کی یقین دہانی پر ہی اورنگزیب نے کمپنی کو ہندوستان میں اپنا کاروبار جاری رکھنے بلکہ اسے بنگال کی طرف وسعت دینے کی بھی اجازت دیدی۔

1690ء میں کلکتہ کے نزدیک دریائے ہو گلی کے کنارے کمپنی نے مغل حکومت کی اجازت سے ہندوستان میں اپنی پہلی کالونی قائم کی تھی۔ سترھیوں صدی کے اختتام تک کمپنی کی ہندوستان میں موجودگی تین بڑے شہروں مدارس،بنگال اور بمبئی میں پھیل چکی تھی۔ 1707ء میں انگلستان اور سکاٹ لینڈ میں الحاق کے بعد کمپنی کا نام تبدیل کر کے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی رکھا گیا۔

اٹھارویں صدی کی پہلی پانچ دہائیوں میں کمپنی کی تجارت اور منافعوں میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اس عرصے میں اس نے ہندوستان میں اپنا حلقہ اثر قائم کرنے کی لڑائی میں یکے بعد دیگرے اپنے تمام یورپی حریفوں کو شکست دیتے ہوئے ہندوستان میں تجارتی اجارہ داری قائم کرلی۔ اٹھارویں صدی کے وسط تک ہندوستان کمپنی کے بڑھتے ہوئے مالی مفادات اور کاروبار کے پھیلاؤ نے کھلی سامراجی جارحیت کاروپ دھارلیا تھا۔

کمپنی کو اپنے سامراجی اثر کی تکمیل کیلئے برطانوی حکومت کی پوری پشت پناہی حاصل تھی۔ انیسوی صدی کے وسط تک کمپنی نے ہندوستان پر براہ راست اپنا فوجی و سیاسی تسلط قائم کرلیا۔ 1757ء کی جنگ پلاسی میں بنگال کے نواب سراج الدولہ کی لڑائی میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا۔ اس کے بعد آنے والے سو سالوں میں کمپنی نے مقامی حکمرانوں کے ساتھ درجنوں جنگیں لڑیں جن میں جنگ بکسر (1764 )چار اینگلو میسیور جنگیں (1776-1799 ) تین اینگلو مرہٹہ جنگیں (1774-1794 ) کوئتیوت جنگیں 1794-1806)ء) اینگلو سندھ جنگ (1843ء) اور دو اینگلو سکھ جنگیں(1845-1849ء) شامل ہیں ان سب جنگوں میں مقامی حکمرانوں کی شکست کے بعد سے (1857ء)تک بنگال ،آسام،بہار،ناگ پور،دہلی،اڑیسہ،اودھ،روہبل، کھنڈ،پنجاب،سندھ،گجرات اور دکن سے نیچے جنوبی ہند کے کئی علاقوں سمیت ہندوستان کے بے شمار علاقوں پر کمپنی کا براہ راست تسلط قائم ہوچکا تھا۔

سامراجی توسیع کے ان کے ایک سو سالوں میں کمپنی کی فوجی قوت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

BJP Ka Hindustan Ki Tareekh Masakh Karnay Ka Mansooba is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.