دہشت گردی کی نئی لہر

ترکی اپنے حقِ دفاع کا بھر پور استعمال کر ے گا۔۔۔ ترکی میں ہونے والے بم دھماکوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ۔ ان دھماکوں میں 35 فوجی اہلکار شہید جبکہ درجنوں شدید زخمی ہوئے۔

منگل 1 مارچ 2016

DehshaatGardi Ki nayi Leher
ترکی میں ہونے والے بم دھماکوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ۔ ان دھماکوں میں 35 فوجی اہلکار شہید جبکہ درجنوں شدید زخمی ہوئے۔پہلا دھماکہ دارالحکومت نقرہ میں ملٹری ہیڈ کواٹرز، پارلیمنٹ اور سرکاری عمارتوں کے قریب فوجی قافلے پر کیا گیا۔ اس حملہ میں 28 افراد شہید اور 61 زخمی وہے ۔ قافلے میں شامل فوجیوں کی بسوں کو جس کار سے نشانہ بنایا گیا اس میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیاتھا ۔

اس حملے کی ابتدائی معلومات کے مطابق انقرہ دھماکے میں کردملیشیا ملوث ہے اور بمبار شامی شہری تھا جس کی شناخت صالح نقار کے نام سے کی گئی ہے ۔ ترکی کے وزیراعظم احمد داود اوغلوکا کہنا تھا کہ انقرہ میں ہونے والے دھماکے میں مبینہ طور پر ملوث 9 افراد کو گرفتارکر لیا گیا ہے۔ انہوں نے شام میں موجود کروملیشیا پر الزام عائد کیا کہ ان بم دھماکوں کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔

(جاری ہے)

دریں اثناء جنوب مشرقی ترکی کے شہر دیر بکر میں ایک اور فوجی قافلے کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جس میں 7فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ ان حملوں کے باعث ملک میں ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی ۔ ترک صدر جب طیب اردگان نے بحرانی کیفیت کے باعث اپنا دورہ آذربائیجان منسوخ کیا تو وزیراعظم احمد داوٴد اوغلو نے برسلز کا دورہ ملتوی کردیا۔ گزشتہ بر دسمبر میں ترکی کی سکیورٹی فرسز نے داعش سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو گرفتار کیا تھا جو نئے سال کے آغاز پر مختلف مقامات پر بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

ان افرادکو ترکی کے نواحی علاقے مامک سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترکی کے امن کے دشمن اسے برباد کرنے کے لیے مناسب موقت تلاش کر رہے تھے جنہیں سیکورٹی فورسز سے بروقت کارروائی کر کے گرفتار کر لیا۔ شاید وقتی طور پر یہ خطرہ ٹل گیا تھا لیکن جو نہی امن دشمنوں کو موقع ملا تو انہوں نے منظم کارروائی کر کے معصوم اور بے گناہ افراد کو قیمتی جانوں سے محروم کر دیا۔

اس سے قبل 10اکتوبر 2015 دارالحکومت انقرہ میں کردنواز کارکنوں کی ریلی پر دو خودکش حملے ہوچکے ہیں۔اس حملے میں 103 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ یہ جدید ترکی کی تاریخ میں ملک کا سب سے بڑا اور تباہ کن واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ملک اور دارالحکومت انقرہ کی سکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اگر انقرہ کی سکیورٹی سخت کی گئی تھی تو پھر شدت پسندوں کو بڑی کارروائی کرنے کا موقع کیسے ملا ؟ یقینا اس میں سکیورٹی اداروں کی مبینہ غفلت اور لاپرواہی بھی کار فرما ہی ہو گی۔

داعش اور کردش ملیشیا نے کافی عرصے سے ترکی کو ہدف بنا رکھا ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف بنائے گے نیٹو فورسز اتحاد میں نہ صرف شامل ہے بلکہ اس نے عراق اور شام میں داعش کے ساتھ ساتھ شمالی شام میں کردش ملیشیا کے جنگجووں پر بمباری بھی کی تھی۔اس کے علاوہ یہ اپنے جنوب مشرق میں کردستان اور کرز پارٹی کے خلاف بھی لڑائی میں مصروف ہے۔

کردستان ورکرز پارٹی اور ترکی فورسز میں 2برس قبل طے پانے والا سیز فائز معاہدہ گزشتہ برس جولائی میں ختم ہو گیا تھا۔ پی کے کے گرشتہ تین دہائیوں سے کردوں کی خودمختاری کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس نے ماضی میں بھی فوجی املاک اور قافلوں پر حملے کئے تھے لیکن اس نے زیادہ ترکاررائیاں جنوب مشرق میں واقع کرد اکثریتی علاقے میں کی تھیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور وزیراعظم احمد داوٴد اوغلو نے دہشت گردی کی نئی لہر اور کارروائیوں کے خلاف نے عزم وارادے کا اظہار کیا ہے۔

صدر طیب اردگان کا اس سلسلہ میں یہ کہا تھا کہ ملک میں اور سرحد پار اس قسم کے حملوں کی وجہ سے ہمارا عزم و استقلال مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ ترکی کسی بھی جگہ ،کسی بھی موقع اور کسی بھی وقت پر اپنے حق دفاع کا ستعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین ، وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے برادر اسلامی ملک ترکی کے دارالحکومت انقرہ اور دیار بکر میں ہونے والے بم دھماکوں میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائیوں کی بھر پور مذمت کی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

DehshaatGardi Ki nayi Leher is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.