یورپی یونین کا مستقبل

برطانیہ کو ”لاڈلا“ بنانے سے خطرے میں پڑچکا ہے۔۔۔۔ برطانیہ بالآخر یورپی یونین میں رہنے پر رضا مند ہو چکا ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والا یہ معاہدہ اگرچہ عارضی یا عبوری نوعیت کا ہے تاہم اس کے نتیجے میں یورپی یونین ایک مرتبہ پھر بظاہر بکھرنے سے محفوظ ہو چکی ہے

ہفتہ 12 مارچ 2016

Europian Union Ka Mustaqbil
برطانیہ بالآخر یورپی یونین میں رہنے پر رضا مند ہو چکا ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والا یہ معاہدہ اگرچہ عارضی یا عبوری نوعیت کا ہے تاہم اس کے نتیجے میں یورپی یونین ایک مرتبہ پھر بظاہر بکھرنے سے محفوظ ہو چکی ہے تاہم اس معاہدے کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے یورپی یونین نے برطانیہ کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے جس کے بعد عین ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی اور یورپی ملک یونین کو چھوڑنے کی دھمکی دیکر اپنے مطالبات تسلیم کروانے کی کوشش کرے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو یورپی یونین نے برطانیہ کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کی خاطر ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو مستقبل میں اس کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی یہ ”مبینہ فتح“ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا ثبوت ہونے کی بجائے یورپی رہنماوں کی نااہلی کی واضح نشاندہی ہے جو پہلے ہی جرمنی جیسے معاشی حیثیت کے حامل ملک کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔

(جاری ہے)

یورپی رہنماوں کے پاس براعظم یورپ کو متحد رکھنے کے حوالے سے ایسا کوئی سیاسی منصوبہ موجود نہیں ہے جس کو تمام ممالک کی غیر مشروط حمایت حاصل ہو ۔ برطانیہ اب یورپی یونین میں ایک برتررکن کی حیثیت حاصل کر چکا ہے او ر اس کے نتیجے میں اگر دیگر رکن ممالک میں بھی قومیت پسندی نے انگڑائی لینا شروع کر دی تو یہ صورت حال یورپی یونین کے وجود کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوگئی ۔

کسی زمانے میں یورپ کے اتحاد کا مرکزی انکتہ اس براعظم کا مشترکہ کلچر ہوا کرتا تھا لیکن اب تبدریج اس کی جگہ سیاسی مفادات لے چکے ہیں جو ہرگزرتے دن کے ساتھ اجتماعیت کے دائرے سے نکل کر انفرادیت کے دائرے میں داخل ہو رہے ہیں۔ باالفاظ دیگر برطانیہ کی شرائط تسلیم کر کے اسے یورپی یونین میں شامل رکھنے کا فیصلہ یورپی سوشل ماڈل کی ناکامی کے طور پر دیکھا جا ئے گا۔


آج ہمیں جو یورپی یونین دکھائی دیتی ہے اس کا آغاز 1950 میں ہوا تھا اور اس وقت جو مبہم سا اتحاد قائم ہوا تھا اس میں بلجیئم، جرمنی، فرانس، اٹلی، الکسمبرگ اور نیدرلینڈز شامل تھے۔ یہی اتحاد 1958 میں یورپیئن اکنامک کمیونٹی کی شکل اختیار کر گیا۔ آج یورپی یونین کے رکن ممالک کی تعداد 28 اور اس کی مجموعی آبادی 500ملین افراد پر مشتمل ہے ۔ شاید کسی زمانے میں یورپی یونین کے قیام کا مقصد ریاست ہائے متحدہ یورپ کا قیام تھا لیکن قومیت کے ریاستوں کی شناخت بننے کے عمل نے یورپی یونین کے حقیقی مقاصد کو گہنا دیا ہے کیونکہ ہر ملک کے انفرادی مفادات جب اجتماعی مفادات سے متصادم ہوتے ہیں تو پھر وہ ملک یا ریاست لامحالہ وہی انداز اپنائے گا جو آج برطانیہ نے اختیار کیا ہے۔


کہا جاتا ہے کہ یورپی یونین کے اتحاد کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ پورے براعظم کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی یورپی اقوام 1945 اور 1989 کے بعد ہی جمہوریت سے آشنا ہوئی تھیں اور آج بھی براعظم یورپ کے جنوبی اور مشرقی ممالک میں جمہوریت کسی خاص نظریے کا نام نہیں سمجھا جاتا۔
یورپی یونین نے ایک رکن ملک کو دیگر اراکین سے ممتاز درجہ دے کر یورنین میں پہلے ہی سے موجود عدم استحکام اور منقسم سوچ کو تقویت دی ہے ۔

ملکی پارلیمان کو اکثریت کو یہ حق دے دیا گیا ہے کہ وہ یورپی پارلیمان میں ہونیوالی قانون سازی کا راستہ روک سکے۔ یہ تمام اقدامات اور آج کی یورپی یونین میں برطانیہ کی خصوصی حیثیت ہی دراصل یورپی یونین کے خاتمے کے سفر کا آغاز ثابت ہوگی ۔ برطانیہ نے یورپی یونین کے حوالے سے جو روایت ڈال دی ہے اس کے اثرات بہت جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے اور مستقبل میں براعظم یورپ کا سیاسی وتہذیبی منظر نامے موجود منظر نامے سے بہت مختلف ثابت ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Europian Union Ka Mustaqbil is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.