گیس کے بحران پر رُوس کی تنہائی

1995 سے اب تک روس نے چار مرتبہ گیس کی سپلائی منقطع کر کے بات منوانے کی کوشش کی۔۔۔۔روس کو مغرب اور بالخصوص یورپ سے بہت کچھ درکار ہے۔ قرضوں کے علاوہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور غذائی اجناس بھی وہ یورپ سے حاصل کرتا ہے

منگل 25 نومبر 2014

Gas K Bohran Per Russia Ki Tanhai
اوون میتھیو :
یوکرین کے علاقے ڈارن باس کے مکئی کے کھیتوں میں یوکرین کے فوجیوں اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں کے درمیاں لڑائی فی الحال تھمی ہوئی ہے مگر جیسے جیسے موسم سرما نزدیک آرہا ہے‘ماسکو کے لئے ایک محاذ کھلتا جا رہا ہے جو خونیں بھلے ہی نہ ہوا مگر سیاسی طورپر ویسا ہی ڈرامائی ہو گا جیسا یوکرین کا محاذ ہے۔موسم سرما کے آنے س روس سمیت یورپ کے انتہائی سرد علاقوں کے لئے توانائی کا بحران سر اٹھا رہا ہے ۔

یہ بحران کئی سا ل سے جاری ہے اور اب ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں اسے کسی فیصلے تک پہنچناہے۔
روس کو مغرب اور بالخصوص یورپ سے بہت کچھ درکار ہے۔ قرضوں کے علاوہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور غذائی اجناس بھی وہ یورپ سے حاصل کرتا ہے۔یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کے باعث روس کوکئی بڑی یورپی قوتوں کی طرف سے مختلف پابندیوں اور دیگر اقدامات کا بھی سامنا ہے۔

(جاری ہے)

یہ صورت حال روس کے خلاف جا ری ہے۔ یورپ کو گیس کی فراہمی کا انحصار ایک تنہائی کی حد تک روس کے سرکاری ملکیت والے ادارے گیزر روم پر ہے۔ یورپ کے لئے روسی گیس کی سپلائی لائن یوکرین سے گزرتی ہے۔ یوکرین کی صورت حال یورپ کے ساتھ ساتھ خود روس کے لئے بھی انتہائی پریشان کن ہے۔ اگر معاملات جلد درست نہ ہوئے تو روس سے یورپ کے لئے گیس کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے ۔

اگر کریملن نے یورپ کیلئے گیس کی سپلائی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تو سمجھ لیجئے کہ توانائی کے محاز پر ایک بہت بڑی جنگ بس ہوا ہی چاہتی ہے۔کریملن کے ایک پول روپرٹر نے اعلیٰ سرکاری افسران کی نجی گفتگو کے حوالے سے بتا ہے کہ روس کے اعلیٰ حلقوں میں یہ خیال پوری شدومد سے پایا جاتا ہے کہ یورپ کی طرف سے عائد جی جانے والی پابندیوں کا موٴثر طور پر سامنا کرنے کے لئے روس کے پاس اس کے سوا کوئی بہتر راستہ نہیں کہ گیس کی سپلائی روک کی یورپی طاقتوں کو زیر دام لانے یا رام کرنے کی کوشش کی جائے۔


بہت سے روسی افسران یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ ذرا موسم کی پہلی برف باری ہوجائے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ ہم پرعائد پابندیاں کا فیصلہ کیسے نہیں کرتا۔
یورپ کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں نے روسی معیشت کو بلا کر رکھ دیا ہے۔ روبل کی پوزیشن بہت کمزور ہو گئی ہے ‘افراط زرا کی شرح ایک بار پھر انتہائی بلند ہوگئی ہے بیروزگاری بہت بڑھی ہے لوگ بہتر زندگی گزرانے کے حق سے محروم ہوتے جار ہے ہیں۔

مجموعی طور پر پورا ملک غیر متوازن ہو کر رہ گیا ہے مگر اس کے باوجود روسی صدر ولادی میر پوٹن کی مقبولیت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا بلکہ چند ایک معاملات میں ان کی حیثیت مستحکم تر ہوئی ہے۔امریکا اور یورپ سے غذائی اشیاء کی درآمد رک جانے سے بھی روسیوں کی زندگی پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا ۔ ان کی حب الوطنی پہلی کی سی ہے۔
یورپ کے خلاف گیس کا ہتھیار استعمال کرنے سے روس کوبھی اتنا ہی نقصان پہنچ سکتا ہے جتنا یورپ کو پہنچ سکتا ہے۔

مگر اب تک یہ واضح نہیں کہ روس کے اعلےٰ حلقے اس ہتھیار کو استعمال کرنے کے معاملے میں کسی حدتک سنجیدہ یا غیر سنجیدہ ہیں۔ یورپ میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر شدید سردی کے زمانے میں گیس کی فراہمی رک گئی تو عوام کے لئے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ کام کاج ٹھپ ہو کر رہ جائے گا اور لوگ رات کوگھروں میں سو بھی نہیں پائیں گے۔ یہ بات سیاسی ماحول پر بھی اثر انداز ہوگئی۔

یورپ کے سیاست دان جانتے ہیں کہ ان کی دکھتی رگ کہاں ہے اور روس کو تو خیر معلوم ہے ہی ۔اگر توانائی کابل زیادہ آنے لگے تو لوگ چیخ اٹھیں گے اور حکومتیں کمزور پڑنے لگیں گی۔ یہی سبب ہے کہ یورپ کے بہت سے ممالک نے روس کے بینکوں اور گیس کے دیگر اداروں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی ہیں ا ور انہیں عالمی مارکیٹ سے کوئی بھی قرضہ یا مالیاتی سہولت حاصل کرنے سے روک دیا ہے مگر اب تک گیز پر دم کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر گیزپردم کو چھیڑا گیاتو معاملات ایسے بگڑیں گے کہ پھر قابو میں نہ آئیں گے۔معاملہ تکنیکی ہے ۔ روس بھی جانتا ہے کہ وہ گیس کی پیدا وار زیادہ دن روک نہیں سکتا۔تیل کے برعکس گیس کے لئے کھدائی اور پیداواردونوں زیادہ پریشان کن ہیں۔ گیس کے جو ذخائر زمین کی تہوں میں چٹانوں کے اندر بند ہیں ان پر صرف ضرب لگانے کی دیر ہوتی ہے۔

ایک بار یہ ذخیرہ ریلیز ہو جائے تواس پر قابو پانا انتہائی دشوار ہوتا ہے ۔ گیس کو بڑے پیمانے پر ذخیرہ کر کے بھی نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ روس اپنی گیس کی پیداوار کو زیادہ دیر تک نہیں روک سکتا ۔ ایسی صورت میں حادثات کا امکان زیادہ توانا ہوتا ہے۔ یورپ کے سوچنے والے ذہن بھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ روس کی طرف سے گیس کا ہتھیار استعمال کئے جانے کے خدشے یا خطرے کے باوجود وہ اب تک اس معاملے میں زیادہ پریشان نہیں۔

انہیں اندازہ ہے کہ روس چاہے بھی تو یہ ہتھیار زیادہ دیر استعمال نہیں کر سکتا۔
گیزر پردم کا اصل مسئلہ مالیاتی ہے۔ اس پر پابندی عائد نہیں مگر یورپ چاہتا ہے کہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ مزید پابندی عائد کرنے کی تیاری کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو گیز پرد م کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

اس وقت بھی گیزپردم کے لئے عالمی منڈی سے سرمائے کا حصول آسان نہیں۔ تیل اور گیس کی پیداوار کے شعبے سے وابستہ دیگر روسی اداروں کے لئے عالمی مارکیٹ کے دروازے بند ہوجانے سے گیز پردم پربھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ماہرین اس کے لئے روشن تر امکانات کی پیش گوئی کرنے سے قاصر ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گیزپردم پر دباوٴ بڑھتا جائے گا اور ایسی حالت میں وہ اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے قابل نہیں ہو پائے گا۔

گیز پردم کے سالانہ اوور ہیڈ 25 ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ اسے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل رہنے کے لئے لازم ہے کہ سرمایہ کار ہر وقت اس کی مدد کے لئے تیار ہوں۔ موجودہ 50 ارب ڈالر کے قرضوں میں سود کی ادائیگی نئی گیس فیلڈز کی تلاش کھدائی نئی پائپ لائنیں اور دیگر معاملات کے لئے بھی گیزپردم کو پڑے پیمانے پر سرمایہ درکار ہے سرمایہ کار غیر معمول حد تک محتاط ہیں۔

وہ گیز پر دم پر کچھ زیادہ لگانے کے حق میں نہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ یورپ کی طرف سے مزید پابندیاں عائد کئے جانے کی صورت میں روس کی مشکلات بڑھیں گی۔ جب ایسا ہوگا تو گیزپردم پر بھی دباوٴ بڑھے گا اور وہ بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ بین الا قوامی بینکوں کی طرف سے محتاط رویہ اپنائے جانے کے باعث روسی اداروں کی شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔

گیزپردم کی مشکلات بھی بڑھ رہی ہے اس کی آمدنی کا 60 فیصد (جو کم وبیش 65 ارب ڈالر ہے ) یورپ سے آتا ہے مگر یومیہ بنیاد پر معاملات میں مشکلات پیش آرہی ہے۔اگر روس نے گیس کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش کی تو یورپ کی مشکلات ضرور بڑھیں گی مگر خود روس کیلئے بھی کوئی آسانی پیدا نہیں ہوگی۔ گیس بحران کے حوالے سے خود یوکرین بھی اہم کارڈ کی حیثیت سے استعمال ہو سکتا ہے ۔

روس اور یورپ دونوں ہی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی بھی مشکل پیدا نہیں ہوئی سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے۔ روس ہر معاملے میں احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو مالیاتی محاذ پر اس کی مشکلات میں اضافہ ہو تا جائے گا۔
1995 سے اب تک روس نے چار مرتبہ گیس کی سپلائی منقطع کرکے بات منوانے کی کوشش کی۔ کبھی نرخون کے مسئلے پر تنازع کھڑا ہوا کبھی راہداری کی فیس کے حوالے سے یوکرین راہداری کی فیس میں اضافے کا مطالبہ کرتا رہا ہے ۔اب بھی وہ روس سے اس معاملے پر تنازع میں الجھا ہوا ہے۔ روس نے یوکرین کو کوئی مطالبہ تسلیم کیا ہے۔ ایسے میں یہ توقع کیونکر کی جاسکتی ہے کہ سب کچھ خود بخود درست ہوتا جائے گا ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Gas K Bohran Per Russia Ki Tanhai is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 November 2014 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.