ایران،سعودی عرب تنازعہ

مشرقِ وسطیٰ کا امن نئے خطرے میں پڑگیا! مشرقِ وسطیٰ کے دو روایتی حریف ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ پھر شدید تناوٴ کا شکار ہو چکے ہیں جس سے خطے کا امن شدید خطرے میں پڑ گیا ہے۔

بدھ 20 جنوری 2016

Iran Saudi Arab Tanaza
Hamid Dabashi:
مشرقِ وسطیٰ کے دو روایتی حریف ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ پھر شدید تناوٴ کا شکار ہو چکے ہیں جس سے خطے کا امن شدید خطرے میں پڑ گیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے خبردار کیا ہے کہ اگر دونوں ممالک نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو مشرق وسطیٰ سخت تباہی سے دو چار ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بھی ختم ہو چکے ہیں۔

یہ تعلقات سعودی شیعہ رہنما نمل شیخ اور 47 دیگر افراد کے سر قلم کی وجہ سے ختم ہوئے۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایرانی سفیر کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ریاض میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو سعودی عرب کی سلامتی خطرے میں ڈالنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی ۔

(جاری ہے)

دونوں ممالک میں سعودی مذہبی اسکالر شیخ نمر کی سزائے موت اور تہران میں سعودی سفارت خانہ جلائے جانے پر کشیدگی بڑھ چکی ہے، اس سے پہلے ایران نے سعودی عرب کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا تھا، تہران میں احتجاج کے دوران مظاہرین نے سعودی سفارت خانے کو آگ لگا دی، جس کے بعد متعدد مظاہرین گرفتار کر لیے گے تھے۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبے سے تعلق رکھنے والے عالم دین نمل شیخ کی سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد سعودی عرب کو کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامناہے، نمل شیخ کو 2012 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب عرب سپرنگ کی تحریک کے دوران سعودی عرب میں بھی احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

ایرانی حکومت نے سعودی سفیر کو طلب کر کے اس واقعے کی مذمت کی۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین جابری نے کہا کہ نمل شیخ سے سیاسی و مذہبی مقاصد کے لیے تقریر کے سوا کوئی طریقہ استعمال نہیں کیا ان کی سزائے موت پر عمل درآمد غیر قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا۔ سعودی عرب نے بھی ایرانی سفری کو طلب کیا او رکہا کہ ایرانی بیان سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔

سزائے موت کے خلاف تہران میں سعودی سفارت خانے کے باہر ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا، کچھ مشتعل افراد نے سفارت خانے کے اندر پٹرول بم پھینکے جس سے سفارت خانے میں آگ بھڑک اٹھی، ایرانی صدرحسن روحانی نے سفارتی خانے پر حملے کی مذمت کی ہے اور حملہ آوروں کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔

عرب سپرنگ کے دوران کئی عرب ممالک میں احتجاجی تحریک نے جنم لیا تھا جس میں مصر، لیبیا اور تیونس سخت متاثر ہوئے تھے۔ سعودی عرب بھی اس احتجاجی تحریک سے بری طرح متاثر ہوا تھا مگر شاہی خاندان احتجاجی تحریک پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔مگر یہ دبی چنگاری آہستہ آہستہ بھڑکتی رہی۔ سعودی حکومت کی جانب سے تیل سے مالا مال دو شہروں میں احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کئے گئے تھے۔

نمل شیخ کا تعلق انہی سعودی شہروں سے ہے۔ وہ ایک معتدل شیعہ رہنما سمجھے جاتے تھے۔ سعودی حکومت پر کڑی تنقید پر انہیں کئی مرتبہ پابند سلاسل بنایا گیا۔ حکومت مخالف موقف پر پہلی مرتبہ انہیں 2001 میں گرفتار کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں کئی مرتبہ جیل کی سزا ہوئی۔ ایران سعودی عرب دنوں علاقائی سپرپاورز ایک دوسرے کو زچ کرنے کے لیے سنی اور شیعہ فیکٹر کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں۔

اب سعودی شیعہ رہنما نمل شیخ اور 47 افراد کے بغاوت کے الزام میں سر قلم کرنے پر ایران اور سعودی عرب میں اختلافات کی چنگاری پھر بھڑک اٹھی ہے جس سے خطے کا امن شدید خطرے میں پڑ گیا ہے۔امریکہ اور مغربی طاقتوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران اور سعودی عرب نے ہو ش کے ناخن نہ لئے تو مشرق وسطیٰ بارود کا ڈھیر بن سکتا ہے۔ شیعہ رہنما نمل شیخ کا سر قلم کرنے کے بعد ایران اور شیعہ کمیونٹی میں سخت اشتعال پایاجاتا ہے۔

اس واقعہ کو ایرانی حکومت اور عوام نے براہ راست ایران پر حملہ قرار دیا ہے۔ قبل ازیں یمن میں بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان پراکسی جنگ لڑی جار ہی ہے۔ سعودی اتحادی منصور ہادی کی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ ایرانی پرحوثی اور سابق صدر زین العابدین کی حمایت کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔اب نمل شیخ کا سر قلم کر نے کے بعد دونوں ممالک میں شدید اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب کی پیروی میں کویت، قطر ار کئی عرب ممالک نے بھی ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے ہیں۔ اس سے مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ کے دوران ابھرنے والی آگ ایک مرتبہ پھر بھڑک اٹھنے کا خدشہ ہے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان کئی دہائیوں پر مبنی دشمنی ایک مرتبہ پھر بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور اسے محض شیعہ اور سنی غلط لسانی تقسیم کا نتیجہ قرار دینا درست نہیں ہے۔پاکستان سمیت دیگر عرب ممالک کو ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کیلئے کردار ادا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔عرب لیگ کا کردار بھی اس ضمن میں اہمیت کا حامل ہے جس پر اپنی افادیت ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ورنہ یہ اپنا وجود کھو دے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Iran Saudi Arab Tanaza is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 January 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.