جنگ زدہ مشرق وسطیٰ کا نیا منظر نامہ

ہمیں خدشہ تھا کہ جب کبھی سعودی و خلیجی حکمرانوں کو اپنے عوام کے مفاد میں امریکہ و مغرب میں رکھی گئی دولت واپس لینے کی شدید ضرورت ہو گی امریکہ و مغربی ساہوکار لیت و لعل کریں گے اور اگر مگر کریں گے

بدھ 10 فروری 2016

Jang Zaada Mashriq Vusta Ka Naya Manzir Nama
محی الدین بن احمد الدین:
شام میں روسی عسکری کردار نے روس کے لیے عربوں کے دلوں میں مزید جگہ پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ جنرل عبدالفتاح الیسی (صدر مصر) پہلے ہی ماسکو نواز ہو چکے تھے اور ماسکو سے اسلحہ کی خریداری کا معاہدہ کر چکے تھے جس کی قیمت سعودی عرب نے شاہ عبداللہ کے عہد میں ادا کر دی تھی۔ شاہ عبداللہ کے عہد کے آخری دنوں میں روس سعودی کشیدگی عروج پر چلی گئی تھی مگر شاہ سلمان آل سعود کے عہد نے روس سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کر لی ہے۔

اب سعودی عرب اور روس بہت قریب ہو رہے ہیں اور یہ قرابت اسٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ یہ بات ماسکو میں سعودی عرب کے سفیر عبدالرحمن ابراہیم الراسی نے حال ہی میں کہہ بھی دی ہے۔ روس کی طرف سعودی عرب کی واپسی امریکہ کے عرب دشمن کردار کی بنا پر ظہور پذیر ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

چند روز پہلے سعودی عرب اور اب خلجی ریاستوں نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ شام میں اور ساتھ ہی عراق میں داعش کے خلاف اپنی فوج بھیجنے کو تیار ہیں جبکہ ایرانی قائدین کی طرف سے پاسدارانی انقلاب کے کمانڈر انچیف محمد علی جعفری نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے پاس نہ تو ہمت ہے اور نہ صلاحیت کہ وہ اپنی روایتی قسم کی فوج کو شام میں بھیج سکے۔

گویا ایرانی بتا رہے ہیں کہ سعودی فوج تو بہت کمزور اور غیر تربیت یافتہ ہے۔ پاکستان میں ایران کے نئے سفیر مہدی ہنر دوست نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے برادرم جاوید صدیق کو بتایا ہے کہ ایٹمی پروگرام کے خاتمہ کے باوجود ایرانی اسلامی انقلاب کے اصولوں پر کاربند رہے گا ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران کی سعودی عرب سے دشمنی نہیں ہے۔ اسلام آباد میں نئے ایرانی سفیر کی بات چیت کچھ حوصلہ افزاء ہے، شام کے حوالے سے یہ باتیں ہر طرف زیر بحث ہیں کہ روس حملوں سے داعش کو تباہ نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپوزیشن عناصر جو سعودی و خلیجی حمایت یافتہ ہیں مگر داعش و القاعدہ کے بھی مخالف ہیں ان کے زیر قبضہ علاقوں پر روس نے مسلسل فضائی حملے کیے اور صدر بشار الاسد کے حامیوں کو یہ علاقے واپس دلوائے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ترکی کا موقف درست ثابت ہو رہا ہے کہ روسی فضائی حملے عملاً داعش کی بجائے بشار مخالف ان عسکری عناصر کو نشانہ بناتے ہیں جو داعش کے بھی مخالف ہیں۔ یوں شام میں روس کی عسکری مداخلت ثابت کر رہی ہے کہ روس، امریکہ، فرانس اور اسرائیل بھی خفیہ طور پر متحد ہو چکے ہیں کہ سعودی و خلیجی حمایت یافتہ شامی اپوزیشن کو نظر انداز کیا جاتا رہے اور بشار الاسد کو اقتدار میں بدستور رہنے دیا جائے۔

ترکی، سعودی و خلیجی حکمت عملی کے لیے یہ منظر تشویش ناک ہو سکتا ہے تبھی سعودی و خلیجی افواج کو شام و عراق سے بھیجنے کی حکمت عملی پر غور ہوا ہے۔ ایران میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور یہ 290 رکنی مجلس (پا رلیمنٹ ) کے لیے ہیں۔ ایران میں اصل طاقت ولایت فقیہہ کے اس اقتدار تصور کے پاس ہے جو تصور خمینی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ولایت فقیہہ کا منصب غیر منتخب اور ملکی و روحانی فیصلہ ساز قوت ہے اس کے ہمراہ 88رکنی مجلس خبرگان ابھری ہے جس کے انتخابات میں حکومت اور شوری نگہبان، میں تصادم ہو چکا ہے۔

شوریٰ نگہبان فقہا مجتہدین کی باڈی ہے۔ شوریٰ نگہبانی ہی انتخابی امیدواروں کا جائزہ لیکر فیصلہ کرتی ہے کہ کون انتخابی عمل میں شرکت کا اہل اور کون نااہل ہے۔ دلچسپ بات ہے تین ہزار امیدواروں سے صرف 30کو انتخابی عمل میں شرکت کا اہل بتایا گیا ہے۔
ایران میں معاشی دروازہ تو کھول دیا گیا ہے مگر سیاسی آزادی کا حقیقی جمہوری آئندہ بھی بند ہی رہے گا۔

بہت دلچسپ معاملہ عراقی شیعہ علماء کے قائد 85سالہ آیت اللہ سیستانی عراق میں ایرانی انقلابی گارڈز ملیشیا کی موجودگی کے بھی سخت مخالف ہیں کیونکہ ایرانی ملیشیا کی موجودگی نے عراقی عرب شیعہ علماء کی اہمیت کو بہت زیادہ کم کیا ہوا ہے گویا عرب عراقی علماء منظر سے ہٹائے گئے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کا مجتہدانہ موقف اصل میں ایرانی عسکری مداخلت کے خلاف اظہار مخالفت ہے اور عرب شیعہ مجتہدین کو ہمرکاب رکھنے کی تدبیر ہے جن میں عرب ازم جاگنا شروع ہو رہا ہے۔

تیل کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کی اہمیت بہت کم ہوتی نظر آ رہی ہے جو 144ڈالر بیرل کا تیل ہوتا تھا وہ اب 28ڈالر تک آ گیا ہے۔ جبکہ ایران کا تیل بھی مارکیٹ میں آنے والا ہے۔ امریکی تیل کی نئی ٹیکنالوجی نے بھی مشرق وسطیٰ کے عرب تیل کی اہمیت کو بہت کم کر دیا ہے۔ سعودی عرب میں تیل پر ملنے والی سبسڈیز کو واپس لے لیا گیا ہے اور تیل عوام کو اب کچھ مہنگا مل رہا ہے۔

اس سے خلیجی و سعودی معیشت کو جنگ سے لاحق اخراجات کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم نے دو اڑھائی عشرے پہلے لکھنا شروع کیا تھا کہ اگر سعودی و خلیجی مالدار عرب دوراندیش ہوتے تو تیل سے حاصل شدہ اپنی ساری دولت امریکی و مغربی بنکوں اور سرمایہ داری کے نام وقف نہ کرتے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ جب کبھی سعودی و خلیجی حکمرانوں کو اپنے عوام کے مفاد میں امریکہ و مغرب میں رکھی گئی دولت واپس لینے کی شدید ضرورت ہو گی امریکہ و مغربی ساہوکار لیت و لعل کریں گے اور اگر مگر کریں گے یوں بوقت ضرورت دولت کے مالکان عربوں کو اپنی ہی دولت واپس نہیں ملے گی۔

ہمیں اب یہ اندیشہ ہے کہ اگر عربوں نے زیادہ آزادانہ رویہ اپنایا تو وال اسٹریٹ والے کاروباری ساہوکار اور امریکی و مغربی حکمران سعودی و خلیجی ضرورت کو حقارت اور غصے سے مسترد کرتے رہیں گے۔ کاش ہمارے عرب بھائیوں نے اپنی دولت کا زیادہ حصہ پاکستان میں صرف کیا ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jang Zaada Mashriq Vusta Ka Naya Manzir Nama is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 February 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.