مالدیپ کاسیاسی انتشار

عالمی برادری کی خاموشی خطرناک ثابت ہوگی

بدھ 9 مارچ 2016

Maldeep Ka Siyasi Intishar
مالدیپ میں 2013ء میں عبداللہ یامین نے عہدہ صدارت سنبھالا تھا۔ عبداللہ یامین کے عہد صدارت میں مالدیپ نے عوام کو یہ شکایت ہے کہ انہوں نے عوام کے سیاسی، جمہوری اور بنیادی حقوق غصب کیے ہیں۔ ان سے قبل عہدہ صدارت محمد نشید کے پاس تھا جنہوں نے اپنے دور میں انہوں نے ملک میں پارلیمانی اور مقامی انتخابی عمل میں اصلاھات کانفاذ کیا لیکن اس عمل میں انہیں سابق صدرمامون عبدالقیوم کے حامیوں کی جانب سے سخت ترین مزاحمت اور دبایو کا سامنا کرنا پڑا جوملک کے ہرادارے میں باافراط موجود تھے۔

پارلیمان میں بھی صدر محمد نشید کومامون عبدالقیوم کے حامیوں کی جانب سے سخت مخالفت کاسامنا رہا۔ مسودہ قانون کی منطوری کی راہ میں بے جارکاوٹوں کانتیجہ یہ نکل کہ ملک کی عدلیہ پہلے ہی سیاست زدہ ہوچکی تھی اب انصاف کی فراہمی میں یکسرناکام اور بے بس دکھائی دنیا شروع ہوگئی۔

(جاری ہے)

فروری 2012ء میں اس وقت کے صدر، محمد نشید، نے اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج ، عبداللہ محمد، کی گرفتاری کافیصلہ کیا تو ملک کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان کے خلاف اتحاد قائم کرتے ہوئے ایک احتجاجی تحریک شروع کردی جس کے نتیجے میں محمد نشید کو قبل ازوقت اور توہین آمیز انداز مین اقتدار سے الگ ہونا بڑا ہاتھ تھا۔

محمد نشیدصدارت سے تومحروم ہوئے ہی تھے، ان کے خلاف غیرقانونی حراست اور گرفتاری کاحکم دینے کے الزام میں ایک مقدمہ بھی قائم کردیا گیا۔ پورے 3برس تک محمد نشید اس مقدمے میں اپنا دفاع کرتے رہے اور بالآخر 2015ء میں یہ مقدمہ درج کردیا گیا لیکن اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد انہیں 1990ء میں پاس ہونے والے انسدادو ہشت گردی کے ایک قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔

ان کے خلاف قائم کئے جانے والے مقدمے میں انصاف کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں بکھیردی گئیں انہیں اپنی مرضی کا وکیل کرنے یا گواہان پر جرح کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ مقدمے کی سماعت عجلت میں کی گئی اور ملزم کو اپیل کاحق نہیں دیاگیا تھا۔ مقدمے کی سماعت3ہفتے تک جاری رہی اور اس کے بعد فیصلہ سنادیا گیا جس کی رو سے سابق صدر محمد نشید کو 13برس کی قید کی سزادی گئی۔

اس فیصلے کے بعد سے محمد نشید کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی، احتجاج کررہی ہے۔ موجودہ صدر عبداللہ یامین کی حکومت نے ملک میں انسدادوہشت گردی کے حوالے سے سخت قوانین متعارف کروائے جن پر انسانی حقوق کی مقامی اور عالمی تنظیموں نے خدشات کااظہار کیا ہے۔ ان قوانین کو نہ صرف ملک کے دستور بلکہ عالمی قوانین کے بھی منافی قرار دیا جارہاہے۔ موجودہ حکومت نے ملک میں انتہا پسندانہ خیالات رکھنے والوں کو مکمل آزادی فراہم کررکھی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مالدیپ کے کم وپیش 200نوجوان اس وقت عراق اورشام میں داعش سمیت دیگر انتہاپسند تنظیموں کے ساتھ مل چکے ہیں۔

مالدیپ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر بھی عالمی برادری نے اپنے تحفظات کااظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت کس حدتک ان تحفظات کودورکرتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Maldeep Ka Siyasi Intishar is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.