مہاجرین کہاں جائیں

یورپی یونین چیخنے کی بجائے اصل مسائل حل کرے

جمعرات 17 مارچ 2016

Muhajreen Kahan Jayen
Katya Adler:
یورپ میں غیر ملکی مہاجرین کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے جس نے 28یورپی ممالک میں تشویش کی لہر پیدا کررکھی ہے۔ لاکھوں مہاجرین کی آبادی کاری یورپی ممالک کی گرتی ہوئی معیشت کیلئے پہلے ہی بوجھ سمجھی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی یورپی ممالک نے مہاجرین کواپنے ہاں آباد کرنے سے صاف انکار کررکھا ہے۔

یورپی یونین میں مہاجرین کے اعدادوشمار دوبارہ اکٹھے کئے گئے ہیں تاکہ اس مسائل کا کوئی مثبت حل نکال سکیں۔ تمام یورپی ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ وہ مشترکہ بحران سے گزرہے ہیں مگر فیصلہ سازی میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ سردست یورپی نقل مکانی کرانیولے مہاجرین کے بحران پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ ہر یورپی ملک اب اس پر علامتی جمع خرچ سے کام لے رہا ہے۔

(جاری ہے)

جرمنی واحد یورپی ملک ہے جو اس کے حل کیلئے مثبت رویہ اختیار کئے ہوئے ہے جس پر چانسلر انجیلا مرکل کو سخت اندرونی مشکلات کاسامنا ہے۔ حال ہی میں ترکی کے ساتھ ہونیوالے مذاکرات میں انجیلا مرکل نے مہاجرین کے مسئلے کو مشترکہ طور پر حل کرنے کی تجویز پیش کی اور ترکی کواس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرنے پر قائل کیا۔ آسٹریا اور مغربی بالکن ممالک مہاجرین کی آماجگاہ ہیں۔

وہ اسی راستے کے ذریعے مغربی یورپ تک رسانی حاصل کرتے ہیں۔ ویانا میں گزشتہ دنون ہونیوالے کئی غیر معمولی اجلاس کے دوران یہ بات زیر بحث لائی گئی کہ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو یہاں آنے سے کیسے روکا جائے۔ ہریورپی ملک مہاجرین کی محدود تعداد کوا پنے ملک میں داخل ہونے پر زور دے رہا ہے۔ یورپ آنے کیلئے مہاجرین کاسب سے اہم داخلی پوئنٹ یونان ہے اورلگ بھگ 100.000پناہ گزین پہلے ہی بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دباہونے کی وجہ سے سماجی اور معاشی مشکلات کاشکار ہے۔

یونان پر بالکن ممالک کی جانب سے سخت دباؤ ہے کہ وہ مہاجرین کو ان کے ممالک میں داخل ہونے سے روک ۔ پچھلے دنوں ایتھنز میں دو مہاجرین نے خود کو پھندہ لگاکر خود کشی بھی کی لیکن یورپی یونین مہاجرین کے معاملے پر کان دھرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ یونان پر پہلے ہی یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی کاالزام لگ چکا ہے کہ وہ مہاجرین کی بڑی لہر کو جنوب کاراستہ دینے کے بجائے فوری پناہ کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔

یونان نے مہاجرین کے معاملے پر یورپی یونین سے اربوں ڈالر کی مدد کی اپیل کررکھی ہے۔ وزیراعظم ایلکس ٹسپیر اس موجودہ حالات میں خود کو سخت بے بس محسوس کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ انہوں نے مہاجرین کے مسئلے پر مذاکرات کئے۔ انہوں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ مہاجرین کے معاملے کو سب سے پہلے سنے۔ برطانیہ بھی مہاجرین کی محدود تعداد کواپنے ہاں آباد کرنے کی اجازت دے چکا ہے۔

یورپ پہنچنے والے مہاجرین کے حوالے سے یورپی ممالک میں سخت چیخ وپکار جاری ہے، دوسری جانب مہاجرین بھی رکاوٹیں کھڑی کئے جانے پر سخت غیض وغضب کاشکار ہیں۔ آبائی وطن میں خانہ جنگی کے خوف سے نقل مکانی کرنیوالے مہاجرین کو سمندری سفر اور یورپ پہنچنے پر مزید مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ موت سے فرار پانیوالے مہاجرین یہاں آکر بھی موت کے خلاف سے باہر نہیں نکل پاتے۔

جرمنی اینٹی مہاجرین اے ایف ڈی پارٹی کی حمایت میں نمایاں اضافہ ہواہے۔ وہ ہفتے قبل ہونیوالے علاقائی انتخابات میں اس جماعت نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ برسلز میں بھی مہاجرین کے حوالے سے یورپی یونین میں اندرونی رسہ کشی پائی جاتی ہے جوکہ برطانوی ووٹرز کیلئے ایک فیصلہ کن صورت حال پیدا کرسکتی ہے۔ جیسا کہ برطانوی عوام ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین میں رہنے یا چھوڑنے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔

یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کاکہنا ہے کہ وہ اس انتخاب پر اثرانداز نہیں ہوں گے بلکہ وہ برطانوی ووٹرز کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ یورپی یونین میں برقرار رہیں اور یورپی یونین میں مہاجرین کی آباد کاری کیلئے اپنا صحیح کردار ادا کریں۔ ورنہ یورپی یونین کے ٹوٹنے کوکوئی نہیں روک سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Muhajreen Kahan Jayen is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.