نائجیریاکی مظلوم خواتین

بوکرحرام کے قہر سے کب چھٹکارا پائیں گی؟۔۔۔۔ نائجیریا کی سیاہ فام خواتین بوکرحرام تنظیم کے ظلم اور زیادتیوں کے قہر کا شکار ہو چکی ہیں۔ دو سال پہلے سینکڑوں سکول طالبات کو اغواء کر لیا گیا تھا۔ ان میں سے کئی لڑکیاں انکی قید سے فرار ہو چکی ہیں۔ انہیں قید کے دوران سخت نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تلخ دور کو یاد کرکے آج بھی ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں

جمعہ 13 مئی 2016

Nigeria Ki Mazloom Khawateen
Helene Cooper :
نائجیریا کی سیاہ فام خواتین بوکرحرام تنظیم کے ظلم اور زیادتیوں کے قہر کا شکار ہو چکی ہیں۔ دو سال پہلے سینکڑوں سکول طالبات کو اغواء کر لیا گیا تھا۔ ان میں سے کئی لڑکیاں انکی قید سے فرار ہو چکی ہیں۔ انہیں قید کے دوران سخت نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تلخ دور کو یاد کرکے آج بھی ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔انہی میں ایک نام ممی ابراہیم کا بھی ہے۔

انہیں اغوا کرنے میں کوئی اور نہیں بلکہ اس کا ہمسایہ لڑکا تھا جو بوکرحرام کا رکن تھا۔
ممی ابراہیم کا ہمسایہ مائی دو گوری گاوں کے گاوں کو کئی ماہ سے مسلسل بتا رہا تھا وہ دھیمے مزاج کی بڑی آنکھوں والی ممی براہیم کو زبردستی اپنی دلہن بنائے گا۔ اسے حاصل کرنے کا طریقہ اس نے بوکرحرام میں شمولیت کی صورت میں ڈھونڈ نکالا اور پھر زبردستی اسے اٹھانے کی منصوبہ بندی کرنے لگا مگر اس کی فیملی کو اس کی بھنک پڑ گئی۔

(جاری ہے)

وہ ہر صورت میں پندرہ سالہ ممی ابراہیم کو اپنانا چاہتا جس نے اس کے سامنے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔
ممی ابراہیم کی فیملی نے ایک رات خاموشی سے گھر چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ا نہیں ویوبا پہنچنے میں دو دن لگے جہاں دوستوں نے انہیں دو ہفتے تک چھپائے رکھا اور پھر ایک ہفتے کے بعد انہیں قصبے تک پہنچا دیا جہاں امریکیوں نے ایک پناہ گزین کیمپ قائم کر رکھا تھا۔

اس کیمپ میں ان خواتین اور بچوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں بوکوحرام کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہوتاہے۔
گزشتہ دنوں امریکہ کی اقوام متحدہ میں سفیر سمنتھا پاور نے اس کیمپ کا دورہ کیا۔ وہاں انہوں نے بوکوحرام نے قہر کا شکار ہونیوالی کئی خواتین اور لڑکیوں سے ملاقات کی جو کوئلے کی انگیٹھیوں، قالین پر بیٹھ کر اپنی بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔

مس پاور نے ان سے وعدہ کیا کہ صدر اوباما انہیں نہیں بھولے اور امریکہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک اغوا شدہ خواتین اور لڑکیوں کو ان کے شکنجے سے آزاد نہیں کرا لیتا۔
نائجیریا میں امریکی یونیورسٹی یولا میں مس پاور نے کیمپ میں مقیم خواتین میں باسکٹ بال کی شرٹ اور پاجامے عطیہ کئے۔ باسکٹ بال ایک ایسا کھیل ہے جسے نائجیریا میں امن کی بحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

ان کی آٹھ ”چکی بوک گرلز“ سے ملاقات بھی ہوئی 278 سکول گرلز کو دو سال قبل بوکوحرام تنظیم نے اغوا کر لیا تھا جس کی وجہ سے اس دہشت گرد تنظیم کو عالمی سطح پر شہرت ملی تھی۔ یہ چائی بوک لڑکیاں اغوا ہونے کے چند دنوں بعد ان کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں جبکہ 200 چائی بوک لڑکیوں کا اب بھی کچھ پتہ نہیں چلا۔
مس پاور کے دورہ یولا کا مقصد ان گمشدہ خواتین کی واپسی کو ممکن بنانا تھا کیونکہ ڈیڑھ ملین آباد یولا کے اردگرد رہائش پزیر ہیں۔

کیمپ میں مقیم خواتین کو مس پاور کی سکیورٹی نے ان سے دور رکھنے کی کوشش کی ۔ آفیشل نے انہیں کلینک ، کلاس روم اور آوٹ ڈور کیچن دکھائے جہاں کوئلے کی انگیٹھیوں پر برتن رکھے ہوئے تھے۔ یہاں مقیم ہر خاتون اور لڑکی کی کہانی بوکوحرام کے قہر کی منہ بولی داستان تھی جو ان کے ساتھ روا رکھی گئی تھی۔
ممی ابراہیم کی طرح بوکوحرام کے قہر کا نشانہ بننے والی خواتین میں 16 سالہ ممی جیبولا، 26سالہ ماریہ سعدی ، 20سالہ بلکیشو جدا اور دیگر شامل تھیں جنہوں نے مس پاور کے دورہ پر انہیں اپنی دکھ بھری کہانی سنائی۔

یہ لڑکیاں اب بوکو حرام کی وائف کی حیثیت سے بھی مشہور ہیں۔ان میں 20 سالہ بلکشو جدا ایک لڑکے کی ماں بن چکی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کو زیادہ وقت اپنی ماں کے گھر میں رکھتی ہے ۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بے حد خوش ہے مگر آئے روز اپنی دوست لڑکیوں کے اغواء پر اسے سخت تشویش ہے۔
مس پاور سے ملاقات کے موقع پر ممی ابراہیم نے اسے بتایا کہ اس کے ہمسایہ نے اسے زبردستی شادی کے لیے مجبور کیا تب وہ ایک بے بس اور مجبور لڑکی تھی مگر اب وہ ایک باہمت لڑکی بن چکی ہے ۔

اس نے ٹیلرنگ کا کام سیکھ لیا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بھی پریشان نہیں ہے۔
مس پاور اور اس کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ممی ابراہیم کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ بوکوحرام کی دہشت اب ان کے ذہن سے محو ہونا شروع ہو چکی ہے۔ اب خوف اس سے کہیں دور جا چکا ہے کیونکہ اب وہ ایک کاروباری خاتون ہے جو اپنے فیصلے خود کر سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Nigeria Ki Mazloom Khawateen is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 May 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.