پاکستان، امریکہ اور افغانستان۔۔۔۔

دہشت گردی کے خلاف اتحاد کیا رنگ لائے گا؟ پاکستان اب بھی افغانستان میں دیرپا امن کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے

جمعرات 22 جنوری 2015

Pakistan America Or Afghanistan
محمد رضوان خان :
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے اقتدار کے ایام کی سنچری کیا مکمل کی کہ ان پر کڑی تنقید شروع ہو گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان کی کارکردگی بہترین رہی لیکن بہر حال ان پر جو تنقید ہوئی وہ شاید انہیں اس قدر راس آگئی کہ اقتدار کے ایام کی سنچری مکمل کرتے ہی انہوں نے مشترکہ کابینہ نہ صرف بنا ڈالی بلکہ اس کا امریکی سپانسرڈ اعلان بھی کر دیا گیا ۔

اس سلسلے میں چند روز قبل کابل میں صدر غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ کی سربراہی مں ہونے والی تقریب میں 25 وزراء پر مشتمل کابینہ کا اعلان کیا گیا۔ کابینہ کی تشکیل کا یہ اعلان خاصا صبر آزما تھا بہر حال یہ معاملہ طے پایااور اس کی باقاعدہ منظوری اب پارلیمانی سے لینا ہوگی۔

(جاری ہے)

تمام کابینہ نئے چہرو ں پر مشتمل ہے۔ کئی ایک کو تو عوام بالکل نہیں جانتی اس کابینہ میں تین خواتین وزراء بھی ہیں جن کے پاس خواتین، ثقافت اور اعلیٰ تعلیم کے امور سے متعلق قل دان ہیں۔

اس کابینہ میں سب سے اہم وزارت جو خارجہ اموکی ہے وہ صلاح الدین کو دی گئی ہے جو سابق صدر برہان الدین ربانی کے بیٹے ہیں، قارئین کو یاد ہوگاکہ برہان الدین ربانی کو 2011 میں ایک خودکش حملے میں مارا گیا تھا۔ ان کی موت پر افغانستان میں کافی واویلا بھی ہوا تھا تاہم صلاح الدین سمیت نئے بننے والے وزراء سے کافی امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں اور اس امید کی بنیادی وہ یہ ہے کہ ان وزراء میں سے کوئی بھی براہ راست افغان جنگ کے دوران کسی جنگ کا حصہ نہیں رہا اس حوالے سے ان نئے وزراء کی سوچ کافی سلجھی ہوئی ہے تاہم سوا یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پرجوش وزراء افغانستان میں کوئی تبدیلی لاپائیں گے کہ نہیں ؟ اس سوال کاجواب تو آنے والا وقت ہی دے گا لیکن سردست دونوں فریق میں حالات کافی بہتر ہوئے ہیں اور اب دونوں حریف ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں جس کے بعد اب تمام نظریں پارلیمنٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ پارلیمان سے اس کابینہ کی جس قدر جلد ہو سکے توثیق کروالی جائے تاکہ نئے وزراء اپنا کام کر سکیں ۔

واضح ہو کہ افغانستان کیلئے اعلان کردہ اس کابینہ میں طالبان کا کوئی وزیر شامل نہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشرف غنی اور طالبان کے درمیان جو مذاکرات جاری تھے وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ افغان حلقے ان مذکرات کیلئے ناکامی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ طالبان افغانستان کے منظر نامے میں ایک جیتی جاگتی حقیقت ہیں اور ان کو ساتھ ملانے کی حتی الوسع کوشش کی جائے گی تاکہ افغانستان کوترقی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔


افغان صدر اشرف غنی اس معاملے میں کافی سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان میں بھی جو واقعات ہوئے ہیں اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کافی بہتری آئی ہے۔ پاک افغان قربتیں بڑھ رہی ہیں اور وہ امور جن پربات کرنے سے بھی دونوں کنی کتراتے تھے اب کھل کر ان پر بات چیت ہو رہی ہے۔ دونوں نہ صرف اب اپنی طویل سرحد کی مشترکہ نگرانی کیلئے جدید تقاضوں کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں بلکہ امن کی خواہش دونوں میں پہلے سے بہت زیادہ ہوچکی ہے۔

افغانستان میں صدر اشرف غنی ملک کو پرامن بنانے کیلئے طالبان کے کردار کو گوریلا جنگجو سے نکال کر ذمہ داری کی طرف لارہے ہیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے پاکستان سے مدد طلب کی ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے فوجی اور انٹیلی جنس حکام کے درمیان ملاقاتیں بھی ہور ہی ہیں تاکہ سرحد مسئلے کو بہتر طور پر دیکھا جاسکے۔ افغان صدر اس ضمن میں اگرچہ چاہتے تو ہیں کہ وہ طالبان کو اقتدار میں شریک کرلیں لیکن وہ اپنے مستقبل کا پلان واضح کھول کر نہیں بتا رہے جس کی وجہ سے پاکستان کا اندازا بھی تک کافی محتاط ہے اس کی طرف سے ابھی بھی سوچا جا رہا ہے کہ طالبان کو راضی کرنے کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں ؟ پاکستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا طالبان میں کافی اثررسوخ موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس وقت طالبان کے اندر بھی دھڑے بندیاں موجود ہیں جن میں سے بعض ایسے بھی ہیں جہ جو پاکستان پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے بہر حال اعتماد کی اس کمی کے باوجود اشرف غنی اور ان کے ہم خیال لوگوں کایہ ماننا ہے کہ پاکستان اب بھی افغانستان میں دیرپا امن کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنا ہی ہوگا کیونکہ دوسری طرف افغانستان سے بھی تعاون کیا جا رہا ہے۔ اس تعاون کی حالیہ مثال اس وقت سامنے آئی جب افغان حکومت نے آرمی پبلک سکو ل پشاور پر حملے کے 5 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے ۔ ان ملزمان کی پاکستان کو حوالگی کا عمل ابھی جاری ہے۔
پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والے ان منصوبہ سازوں کو افغان حکومت نے کنٹر کے علاقے سے گرفتار کیا بتایا جاتا ہے کہ یہ منصوبہ ساز ہی پاکستانی طالبان میں سیہیں اور یہ گروپ دیگر متعدد ہشتگردانہ حملوں میں بھیملوثتھا۔

ان ملزمان کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور اس بات کے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ ی تعلقات مزید بھی آگے بڑھیں گے اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل نے جس انداز سے 16 دسمبر کو ہی افغانستان کا دورہ کیا تھا اس سے پاکستان کی تو عجلت عیاں تھی لیکن دوسری طرف محض 27 روز میں کنٹر اور نورستان جیسے علاقے میں ہونے والے آپریشن کے دوران ان منصوبہ سازوں کی گرفتاری سرحد ہونے والے تعاون کی مثال ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ پاکستان نے بھی اس افغان کارروائی کے جواب میں کابل مں ہونے والے میچ کے دوران حملے کے منصوبہ سازوں کی گرفتاری کی ہے۔ سرحد کے آرپار ہونے والی گرفتاریوں نے اگر ایک دونوں ملکوں کا اعتاد بلند کیا ہے تو دسری طرف اب بھی امریکہ ”ڈومور“کی رٹ سے پیچھے نہیں ہٹا اس کی سوئی حقانی نیٹ ورک کے خلاف کل بھی پھنسی ہوئی تھی اور اب بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی البتہ اے پی ایس کے واقعے کے بعد یہ ضرور ہوا ہے کہ فاٹا میں تین ڈرون حملے کئے جا چکے ہیں ۔

ان حملوں کو اگر ”فرمائشی“ڈرون حملے کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ ان حملوں میں سے ایک تو اے پی ایس کے واقعے کے بعد 2014 میں ہواتھا تاہم دوسرا حملہ سال نو کی 4 جنوری اور پھر 16 جنوری کو تیسرا حملہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے تو ا س نے ڈرون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن پشاور سکول حملے کے بعد اب حالات اس حد تک بدل چکے ہیں کہ ان حملوں پر کسی نے لب کشائی نہیں کی، یہ تیسرا حملہ تحصیل شوال کے سرحدی علاقے میں کیا گیا تھا جس میں ڈرون نے ایک مکان کو نشانہ بنایا اور اس پر دو میزائل داغے گئے حملے میں ہلاک شدگان کی تفصیل معلوم نہیں ہو رپاہی۔

اس سے قبل 4 جنوری کو شمالی وزیرستان کی ہی تحصیل دت خیل میں الوڑہ منڈی کے قریب کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے ایک دھڑے کے مرکز پر حملے میں سات شدت پسند مارے گئے تھے تاہم تعداد کے علاوہ ان کے بارے میں بھی زیادہ تفصیل منظر عام پر نہ آسکی ۔ اس حملے میں بھی جولقمہ اجل بنا اس پر اطمینان کا اظہار خاموشی کی زبان سے کیا جا رہاہے جو اس امر کی دلالت کرتاہے کہ امریکہ اور پاکستان اس وقت بعض امو ر پر توقعات سے بڑھ کر تعاون کر رہے ہیں۔


تعاون تو امریکہ کا اس بات سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اس نے اے پی ایس کے دلخراش سانحے کے بعد ملا فضل اللہ کو بھی بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کی طرح عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر کے ان پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ امریکہ کو یہ اقدام بہت پہلے کرلینا چاہیے تھے لیکن اب بھی شاید فضل اللہ امریکہ کے قریب اس قدر گناہ گار نہیں جس کا وہ حقدار ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو فضل اللہ کیسر کی بھی قیمت لگائی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ امریکی محکمہ خارجہ نے ملا فضل اللہ کو خصوصی عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملا فضل اللہ کے وہ تمام اثاثے جو امریکی دائرہ کار میں آتے ہیں منجمد ہو جائیں گئے اور امریکی شہریوں پر فضل اللہ سے کسی بھی ایسے لین دین کرنے پر پابندی ہو گئی۔

ہونا تویہ چاہیے تھا کہ امریکہ فضل اللہ سے سر کی اس کے پیش رو کی طرح قیمت مقرر کرتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کا عین ممکن ہے کہ امریک کے نزدیک کوء فائدہ ہوگا کیونکہ نہ تو فضل اللہ کا امریکہ یا کسی اور ملک میں کوئی کاروبار ہے اور نہ وہ وہاں جاتا ہے اور نہ ہی جاسکتا ہے امریکہ کی مرضی کے بغیر دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پر گڈیا بیڈ طالبان کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ان عالمی دہشتگردوں کے سر کی بھی قیمت اس وقت مقرر کی تھی کہ جب انہوں نے امریکہ میں ہونے والی کارروئیوں کی ذامہ داری قبول کی تھی۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ امریکہ نے بیت اللہ محسود کا نام عالم دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا اور اس کے سر کی قیمت بھی اس وقت رکھی گئی تھی جب اس کی امارت کے دورن امریکہ میں ہونے والی کارروئی کی طالبان نے ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسی طرح حکیم اللہ محسود کا بھی معاملہ رہا اسے اس وقت امریکہ اور اس کے حواریوں نے تب دہشت گرد مانا جب 2010 میں افغانستان کے صوبے خوست میں سی آئی اے کے ایک مرکز پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں سات امریکی ایجنٹوں کو ہلاک ہوگئے تھے۔

اس حملے کے بعد تحریک طالبان کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں سی آئی اے مرکز پر حملہ کرنے والے خودکش حملہ آور کو ایک پیغام پڑھتے ہوئے دکھایا گیا تھا جس کے پہلوں میں حکیم اللہ محسود بھی بیٹھا تھا۔ اس ویڈیو کے منظر عام کے چند ماہ بعد امریکہ نے بیت اللہ محسود کوبھی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر کے اس کے سرپر پانچ ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا۔

عین ممکن ہے کہ ماضی کے ان تجربات کی طرح فضل اللہ کے سر کی بھی دوسری قسط میں قیمت لگ جائے تاہم سردست س کے کوئی آثار رکھائی نہیں دے رہے۔
آثار تو بظاہر سرحد پا شمولیت کے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ی آثار کبھی بالکل منظر سے غائب ہو جاتے ہیں توکبھی عیاں ہو جاتے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت جو پاکستان کی حمایت کا منظر موجود ہے اس نے پاکستان سے تقاضے بھی بڑھا دئے ہیں ۔

افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی اپنے پیش روحامد کرزئی کے برعکس واضح طور پر ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کے صدر کو پاکستان میں دوستانہ نظرسے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان مخالف بیان بازیوں سے پرہیز کیا ہیاو اس سے بھی بڑی بار ی بات یہ ہے کہ اشرف غنی نے پاکستان کے حریف ہندوستان کا ابھی تک دورہ نہیں کیا ہے حالانکہ وہ چین سمیت اپنے تمام اہم پڑوسی ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔

اشرف غنی پاکستان کی قربت میں افغانستان میں ہندوستان کے تعاون سے ٹینک اور جنگی طیارے کو بہتر کر نے کے چار ارب ڈالر کے پلانٹ کوبھی بند کردیا اور پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون اور تربیت پررضا مندی ظاہر کی ہے جس کے جواب میں ہندوستان ماضی میں افغان طالبان کی حمایت کر نے پر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہا ہے ۔ افغان حلقوں کے مطابق اسردست ہندوستان کی امور کابل میں بات نہیں بن رہی کیونکہ اشرف غنی یہ چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کا اثررسوخ استعمال کر کے طالبان کو اقتدار کے دھارے میں لائیں اوراس مقصد کیلئے انہوں نے اپنے دورہ چین کے دوران طالبان کے ایک گروپ سے ملاقات بھی کی تھی۔

ان طالبان میں زیادہ تر دوحہ اور قطر میں مقیم رہنما شامل تھے جو پاکستان جانے کے لئے تیار نہ تھے اس لئے ان کی ملاقات کا اہتمام چین میں کراویا گیا میں پس وپیش کا شکار رہتے ہیں اس ملاقات میں کچھ معاملات چین کے بھی زیر غور آئے لیکن ابھ بات بن نہیں پائی ۔ یاد رہے کہ پاکستان کی کوششوں سے ہی دسمبر2014 میں ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ جب افغان حکومت اور طالبان امن معاہدے پر دستخط کرنے تک تیار ہو گئے تھے لیکن پھر یہ بات پگڑ گئی اور بات جہاں تھی وہیں تک ہی ہے اس وقت صدر اشرف غنی کا مطالبہ ہے کہ وہ تمام گروپس کے ساتھ بات کر کے ہی آگے بڑھیں گے تاہم طالبان کے اپنے اندورنی اختلافات کی وجہ سے ابھی تک براہ راست مذاکرات کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تاہم افغان حلقے پر امیدیں ہیں کہ خطے میں دیرپا امن کیلئے جلدیابدیر کوئی راہ نکل آئے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan America Or Afghanistan is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 January 2015 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.