پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی بدستور برقرار!

داعش نے محفوظ ٹھکانوں کی تلاش شروع کردی، امریکہ کی جانب سے ننگرہار میں بڑا بم گرائے جانے کے باوجود داعش کی طاقت میں کمی نہیں آئی۔

جمعہ 26 مئی 2017

Pakistan Aur Afghanistan Main Kasheedgi Badastur Barqarar
محمد رضوان خان:
افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں امریکہ دنیا کا بھاری بھرکم بم گرا عام تاثر تو یہ دینا چاہیے تھا کہ وہ داعش کو اس علاقے سے مکمل طور پر ختم کرڈالے گا لیکن عملی طور پر ایک بم سے نہ تو داعش نے ختم ہونا تھا اور نہ ہی ایسا ممکن تھا اس لئے اس بم کو گرانے کے بعد پہلے جو بات سرگوشیوں میں ہورہی تھی وہ اب علی اعلان افغان حکام بی کرنے لگے ہیں جواس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ امریکہ نے بموں کی ماتا کو داعش کو مٹانے کیلئے نہیں بلکہ اس جدید بم کا تجربہ غیر سرزمین پر کرنا چاہتا تھا جو اس نے کرلیا۔

افغانستان میں یہ تجربہ کرکے امریکہ نے اپنی سرزمین کو تو محفوظ کر لیا لیکن افغان سرزمین کا سینہ چیر ڈالا۔افغان حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر تو بموں کی گاؤ ماتا سے داعش کا خاتمہ کرنا ہی مقصود تھا تو پھر پہلے بم کے بعد دوسرے اور تیسرے یا پھر کسی اور قسم کے بموں کا سہارا لیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا بلکہ امریکہ ایک ہی بم چلا کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔

(جاری ہے)

امریکہ کے اس طرز عمل پر حال ہی میں افغانستان کے صوبہ فرح کے گورنر آصف ننگ نے بغیر کسی لگی لپٹی رکھے کہا ہے کہ”امریکہ کی جانب سے دنیا کا سب سے بڑا بم ننگر ہار میں گرائے جانے کے باوجود افغانستان میں داعش کی طاقت میں کمی واقع نہیں آئی ہے بلکہ اس کی طاقت بدستور قائم ہے۔آصف ننگ کا دعویٰ ہے افغانستان میں حقیقت یہ ہے کہ آج بھی مقامی سطح پر قانون نافذ کرنے والے افغان اداروں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے داعش نے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے،یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اس سے بم کو استعمال کرتے ہی پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکہ کے نئے ایلچی میک ماسٹر کی کوششوں سے تینوں ممالک داعش کی بیخ کنی کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے پر متفق ہو گئے تھے،یہ الگ بات ہے کہ اس نئے اتفاق کے تحت ابھی کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی لیکن دوسری طرف داعش افغانستان میں اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کی ذمہ داری بھی قبول کر رہے ہیں۔

جس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی بموں کی ماتا کی قربانی بے سود گئی،الٹا داعش نے اس حملے کے بعد افغانستان میں اب نئے اور نسبتاََ زیادہ محفوظ ٹھکانوں کی تلاش شروع کردی ہے جس کے بارے میں انکشاف بھی فرح کے گورنر آصف نے بات کرتے ہوئے کہا کہ”داعش کے جنگجوان افغانستان کے مغربی او ر جنوبی صوبہ فرح سے نکل کر افغانستان کے وسطی صوبے،خوراسان میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔

جہاں وہ سلطنت خوراسان قائم کرنے کی کوششیں کرتے رہے اور اب وہاں سے نکالے جانے کے بعد وہ پاکستان سے ملحقہ پہاڑی علاقوں میں روپوش ہو گئے ہیں“آصف ننگ کی اس قیاس آرائی کا جائزہ لیا جائے تو پھر امریکہ کا کام مزید آسان دکھائی دینے لگتا ہے،کیونکہ اس سے قبل جب ننگر ہار کے ضلع اچین جو داعش کا گڑھ جانا جاتا تھا میں بموں کی ماتا کر گرایا تو داعش کے جنگجووں سے زیادہ وہاں معصوم بے گناہ لوگ مارے گئے تھے اور ساتھ ہی ان میں 13 بھارتی بھی موجود تھے،اب یہ ان بھارتی لاشوں کا ”چمتکار“ تھا کہ امریکیوں اور افغانوں کی زبانیں گونگی ہو کررہ گئیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ امریکی اور افگان دونوں اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کو تیار نہیں جبکہ ساتھ امریکہ بہادو ننگرہار کی پہاڑیوں کو بھی تہس نہس کرنے سے کترا رہا ہے،شاید اس کا احتراز اس بناء پر ہو کہ کہیں مزید ہندوستانی لاشوں سے ”مڈبھیڑ“نہ ہوجائے،بہر حال امریکیوں کے تذبذب کی کوئی بھی وجہ ہو لیکن داعش کے جنگجو اس قدر تیز ہو گئے ہیں کہ انہوں نے جلال آباد میں ایک سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو سٹیشن پر حملے کئے اور پھر اس حملے اور اس کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری بھی قبول کرلی یوں داعش کے خلاف بڑے حملے کے بڑے اثرات تو مرتب نہیں ہوئے لیکن امریکہ کا تجربہ ہوگیا۔


امریکہ ایک طرف تو پاکستان کے تعاون سے افغانستان کے سرحدی علاقے سے چاہتا ہے کہ وہاں سے داعش کی بیخ کنی کی جائے لیکن دوسری طرف افغانستان میں خارجہ امور پر بھی اشرف غنی کی گرفت کمزور پڑ گئی ہے جس کا ثبوت یہ ہے افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر پاکستان کے دو سفارتکاروں کو گرفتارکیا گیا ۔این ڈی ایس کے اہلکاروں نے پاکستانی سفارتکاروں سے خلاف قانون پوچھ گچھ کی اور پھر ان سفارتی اسیروں کو تفتیش کرکے انہیں 3 گھنٹے بعد چھوڑ دیا گیا۔

کابل سے موصول شدہ اطلاعات کے مطابق سفارت کاروں کر حراست کے دوران این ڈی ایس کے اہلکاروں نے ہراساں بھی کیا۔اطلاعات کے مطابق ان سفارتکاروں کو بڑے بھونڈے انداز سے این ڈی ایس نے حراست میں لیا۔این ڈی ایس نے پاکستانی سفارتخانے کے 2۔اہلکاروں کو سفارتخانے کی گاڑی سمیت اغواء کرایا،ان اہلکاروں میں ویزا اسسٹنٹ حسن خانزادہ اور انکے ڈرائیور منیر شاہ شامل ہیں۔

تفتیش کے دوران این ڈی ایس کے اہلکاروں نے پاکستانی سفارتی عملے کو دوران حراست ہراساں بھی کیا،اس واقعے پر پاکستانی حکومت نے کافی شور شرابہ بھی کیا انہوں نے دوسری طرف اسلام آباد میں افغان ناظم الامور عبدالناصر یوسفی کو دفتر خارجہ طلب کر کے کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے ملازمین کے اغواء پر احتجاج کیاگیا۔افغان ناظم الامور کو احتجاجی مراسلہ دیا گیا جس میں کہا گیا کہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس نے سفارتکاری قوانین کی خلاف ورزی کی ہے ،اس قسم کے واقعات کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کی اس وقت بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات کس قدر کشیدہ ہیں،یہ کشیدگی بظاہر تو بلوچستان میں افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن کے قریب افغان فورسز کی پاکستانی مردم شماری ٹیم پر فائرنگ اور سول آبادی پر شدید گولہ باری سے شروع ہوئی تھی۔

جس کے دوران گیارہ افراد شہید اور اہلکاروں سمیت 50 کے قریب زخمی ہو گئے تھے اور اس واقعے کے بعد باب دوستی گیٹ اور چمن سرحد کو بند کردیا گیا تھا،یہ جھگڑا بنیادی طور پر افغانستان کی طرف سے پاک افغان سرحدی حد بندی کے دیرینہ مسئلے کا شاخسانہ ہے۔افغانستان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان اس کی حدود میں اندر تک آچکا ہے۔لیکن پاکستان کی طرف سے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا جاتا رہا ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کی حکومتی تاریخ میں طالبان کو پاکستان کا سے زیادہ حامی جانا جاتا رہا۔

لیکن شو مئی قسمت کہ طالبان کے دورے میں افغانستان سے سرحدی تنازعے کی بازگشت اٹھی تھی۔طالبان نے سرحد کی حد بندی پر اگر سوال اٹھائے تھے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغان اس مسئلے کو آئندہ بھی اٹھاتے رہیں گے اور اس دوران وہ یہ بھی نہیں سوچیں گے کہ کس طرح پاکستان نے پاک افغان سرحد غلام خان کی سرحد پر کس طرح گیٹ بنایا لیکن افغانستان کی طرف سے جب اعتراص آیا تو پاکستانی حکام نے نیا کردہ سرحدی گیٹ اور پوسٹ ہی کمال فیاضی کا مطاہرہ کرتے ہوئے یہ پوسٹ ہی افغان حکام کے حوالے کردی تھی۔

اس کے باوجود بھی افغانوں اس وقت جو رویہ اپنارکھا ہے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ ان افغانوں کی پاکستانی قوم نے کس طرح میزبانی کی اور اس کے باوجود افغان قوم کے نہ صرف عوام بلکہ خواص بھی پاکستان مہمان نوازی کو جس طرح نظر انداز کرتے جا رہے ہیں وہ قابل مذامت ہے،یہاں برسبیل تذکرہ کئی عشروں تک پاکستان میں قیام کرنے والے سابق افغان وزیر اعظم اورحزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے افغانستان جاتے ہی اپنی زبان یوں بدلی کہ ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ بیان گلبدین کا ہے یا پھر حامد کرزئی کا جو پاکستان دشمنی پر منبی بنان دینے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

حکمت یار نے پاکستان اور ایران جیسے ہمسایہ ممالک سے کہا کہ وہ مداخلت سے باز رہیں۔حکمت یار نے عین ممکن ہے کہ افغانستان کے اند ر اپنی مخالفت کو کم کرنے اور اپنے مخالفین کی دشمنی کم کرنے کی نیت سے یہ بات کی ہو بہر حال قرائن چاہے جو بھی ہوں لیکن گلبدین کی اس قسم کی بات سے پاکستانی عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی لیکن یہ سلسلہ یہاں تھمے گا نہیں بالکل اسی طرح جس طرح افغانستان کی طرف سے سرحدی تنازعات کی بات کی جاتی رہی ہے افغان اس موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،تاہم دوسری طرف پاکستان نے بھی حالیہ تنازعے پر دو ٹوک مئوقف اپناتے ہوئے چمن کے سرحدی علاقے پر واقع گاؤں خالی کراکے واپس کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔

جس کا مطلب یہ ہوا کہ سرحدی تنازعات مستقبل میں بھی چلتے رہیں گے،اور بھارتی لابی اس قسم کے تنازعات کو مزید ہوا دے گی تاکہ پاکستان کو دباؤ میں رکھا جائے۔
افغانستان کی طرف سے اس قسم کے دباؤ بھی برقرار رکھے جا رہے ہیں جن کے تحت افغان قیادت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کر نے سے ہی احتراز برت رہی ہے اور یہ صورتحال جوں کی توں ہے یادرہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تنازعات کے حل کیلئے افغان صدر اشرف غنی کو پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کی طرف سے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں یہ دعوت مسترد کردی تھی جس کے بعد اب تک کی جانے والی کوششیں حالات کے جمود کونہیں توڑ سکیں۔

افغان صدر کو یہ دعوتیں پاکستان سے آنے والے پارلیمانی وفد اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے دی تھیں جنہوں نے کچھ عرصے قبل اشرف غنی سے ملاتات کی تھی۔افغانستان کی طرف سے اس قسم کے روئے سے دونوں ممالک میں بداعتمادی ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے،اس ضمن میں افغانستان کی طرف سے پہلے ان کے ہاں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں پر پاکستان کے خلاف زہر اگلا جاتا تھا لیکن اب اس میں سرحدی تنازعات کا نیا تڑکا لگا دیا گیا ہے،جو دونوں ممالک کے مثبت تعلقات کو آگے بڑھنے میں بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔

افغانستان میں پاکستان سے بات چیت کیلئے جو پیشگی شرائط رکھی جارہی ہیں وہ حکومت کے نائب ترجمان کے اس بیان سے بڑی حد تک واضح ہورہی ہیں جس میں نائب ترجمان نے بتایا کہ”صدر غنی نے کہا کہ’میں تب تک پاکستان نہیں جاؤں گا جب تک پاکستان مزار شریف،امریکن یونیورسٹی کا بل اور قندھار حملوں کے ذمہ داروں کو افغانستان کے حوالے نہیں کرتا اور پاکستان میں موجود افغان طالبان کے خلاف عملی طور پر قدم نہیں اٹھاتا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Aur Afghanistan Main Kasheedgi Badastur Barqarar is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 May 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.