پاناما پیپرز

امریکی سی آئی اے کی سازش؟۔۔۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بہت بعد میں یہ بات کہی ہے کہ” پاناما لیکس کی آڑ میں جمہوری حکومت کے خلاف سیاسی چال چلی جا رہی ہے“ پاکستانی میڈیا اور مغربی میڈیا میں تو شروع دن سے ہی یہ بات اٹھائی گئی تھی

ہفتہ 23 اپریل 2016

Panama Papers
سالک مجید:
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بہت بعد میں یہ بات کہی ہے کہ” پاناما لیکس کی آڑ میں جمہوری حکومت کے خلاف سیاسی چال چلی جا رہی ہے“ پاکستانی میڈیا اور مغربی میڈیا میں تو شروع دن سے ہی یہ بات اٹھائی گئی تھی کہ اس میں امریکی لوگوں میں سے کسی کا نام نہیں ہے لہٰذا اس کی ٹائمنگ اور اس کا بنیفشری اہم ہو گا۔

اب خود مغربی میڈیا بول پڑا کہ ” پاناما لیکس سی آئی اے کی سازش ہے اس لیے کوئی امریکی کمپنی اور کوئی امریکی فرد اس میں شامل نہیں حالانکہ امریکیوں کی 1.3 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری آف شور کمپنیوں میں ہے لیکن ان کا کوئی ذکر نہیں کیا جا رہا۔
پاناما لیکس میں صرف ان ملکوں کو نمایاں طور پر نشانہ بنایا گیا ہے جن کو امریکہ مین امریکہ کا دشمن یا شدید مخالف مانا جاتا ہے یہ بات خود مغربی میڈیا اور مغربی تجزیہ کاروں نے کہی ہے کہ پاناما پیپرز کا ہدف روس، چین ، پاکستان اور ارجنٹائن جیسے ملکوں کیوں ہیں اس میں امریکیوں نے نام کیوں نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

امریکی سی آئی اے جب دشمن ملکوں اور بڑی طاقتوں کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کر لیتی ہے تو ایک لاء فرم کے ڈیٹاتک رسائی حاصل کرنا تو امریکی سی آئی اے کے لیے بائیں ہاتھ کا کام ہونا چاہیے اور امریکی سی آئی اے نے من پسند ڈیٹا پاناما لیکس کی صورت میں ریلیز کرا دیا جس پر ایک ہنگامہ بھی برپا کرایا گیا اور مختلف خطوں میں امریکی مفادات کے حصول کے لیے پریشر بڑھایا جا رہا ہے۔

پاناما لیکس کا شور اٹھنے سے کچھ دن پہلے امریکی سفیر کی عمران خان سے خصوصی ملاقات ہوئی تھی ۔شاید یہ بھی حسین اتفاق ہوگا کہ اسکے کچھ دن بعد یہ ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
علاج کی غرض سے لند ن پہنچنے والے وزیراعظم نواز شریف نے بھی نام لیے بغیر کہہ ہی دیا کہ ” ایک صاحب ہیں جو ہر وقت حکومت کو پریشان کرنا چاہتے ہیں ہم نے 2014 کا تماشہ بھی صبروتحمل سے برداشت کیا تھا آجکل بھی خندہ پیشانی سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔

“ اب زیادہ کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں رہی۔ لوگ خود سمجھ دار ہیں اور بخوبی سمجھتے ہیں کہ کہاں کیا کچھ کون کر رہا ہے اور کس کا کیا مفاد ہے ؟
چین، روس اور سعودی عرب نے تو پاناما لیکس کو اہمیت ہی نہیں دی۔ برطانوی وزیراعظم نے ایوان میں وضاحت پیش کر دی۔ آئس لینڈ اور یوکرائن کے حکمران گھر چلے گے لیکن ہر جگہ ہر کیس ایک دوسرے سے مختلف ہے۔


پاکستان کے حوالے سے دو سے ڈھائی سو لوگوں کے نام فہرست میں شامل ہیں کہ ان کی آف شور کمپنیاں ہیں یا وہاں انکی دولت موجود ہے۔ اس فہرست میں وزیراعظم نواز شریف کا نام ہی نہیں اور مخالفین نے صبح سے شام تک شور مچا رکھا ہے اور ان کے گھر کر گھراوٴ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے حالانکہ وزیراعظم نے رضا کارانہ طور پر پیشکش کر دی تھی کہ انکوائری کمیشن بنا دیتے ہیں جس کسی کو شکایت ہے وہاں چلا جائے جس کسی کے پاس کوئی دستاویز ہے یا ثبوت ہے وہاں انکوائری کمیشن کو پیش کر دے۔

پھر جو فیصلہ آئے گا قبول کیا جائے گا۔ لیکن شور مچانے والے بغلیں بجانے لگیں۔ جب کوئی ثبوت نہ ہو صرف زبانی کلامی الزامات ہوں تو پھر ”میں ناں مانوں“ جیسا رویہ ہی اپنایا جاتا ہے لہٰذا کہہ دیا گیا کہ انکوائری کمیشن نہیں مانتے۔ ریٹائرڈ جج کی سربراہی قبول نہیں۔ پہلے فرانزک انکوائری کمیٹی کی بات کی گئی۔ کبھی ایف آئی اے کے افسر کی سربراہی کی بات کی گئی چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں انکوائری کامطالبہ پیش کر دیا گیا۔


یہی مطالبہ 2014 کا لانگ مارچ اور 126 دن کا دھرنا دینے کے بعد جوڈیشل کمیشن بناتے وقت کیا گیا تھا اور یہ لکھ کر دیا گیا تھا کہ دھاندلی کے الزامات ثابت نہ ہوئے تو دھاندلی دھاندلی کا شور مچانا بند کر دیا جائے گا لیکن سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور دھرنا دینے والوں نے اس کی رپورٹ کے بعد بھی اپنے الزام لگانے کا رویہ نہیں بدلا لہٰذا ایسے لوگوں سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ آئندہ یہ لوگ کیا کسی کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کریں گے یا نہیں۔

یہ تو وہ لوگ ہیں جو کھلین کو مانگیں چاند۔ ان کو تو بغیر منتخب ہوئے قوم سے خطاب کرنے کا شوق بھی ہے اور سوتے جاگتے ان کی بس ایک ہی خواہش ہے کہ کسی طرح وزیراعظم استعفیٰ دے دیں اور ان کو وزیراعظم بنا دیا جائے۔
دنیا بھر کے مالیاتی امور کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ آف شور کمپنیاں بنانا بالکل قانون کے مطابق عمل ہے ان ملکوں کا قانون اجازت دیتا ہے تبھی وہاں آف شور کمپنیاں بنائی جاتی ہیں ۔

ایک دو نہیں لاکھوں کمپنیاں ہیں وہاں دولت رکھنا بھی قانون کے مطابق ہے۔ پاکستان کے چوٹی کے قانون دان اور مالیاتی امور کے ماہرین بھی کہہ رہے ہیں کہ آف شور کمپنیاں بنانا کسی بھی طریقے سے غیر قانونی اقدام نہیں ہے پھر جن لوگوں کا نام آیا ہے اس پر الزام کیسا ؟ لیکن وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بالکل ٹھیک نشاندہی کر دی ہے کہ پاناما لیکس کی آڑ میں جمہوری حکومت کے خلاف سیاسی چال چلی جا رہی ہے۔


عمران خان نے سب سے زیادہ شور مچا رکھا ہے ان کے اپنے اسپتال شوکت خانم نے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے تاکہ بہتر منافع کمایا جا سکے اور یہ فیصلہ اسپتال کے ٹرسٹ بورڈ نے کیا ہے۔اگر آف شور کمپنیوں میں پیسہ رکھنا غیر قانونی ہوتا تو شوکت خانم ٹرسٹ وہاں سرمایہ کاری کیوں کرتا۔ عمران خان جس گھر میں رہتے ہیں بنی گالہ کا یہ محل نما گھر بھی جمائما نے اپنے پیسوں سے خرید کر دیا تھا وہی جمائما جس کے والد گولڈ اسمتھ کی دولت ان آف شور کمپنیوں میں لگی ہوئی ہے جمائما کو بھی اس کے والد کی دولت سے ہی پیسہ ملتا تھا اور وہی پیسہ جمائما نے بنی گالا کا محل خریدنے کے لیے استعمال کیا۔

بھلے عمران خان کہیں کہ بعد میں انہوں نے اپنا فلیٹ بیچ کر رقم جمائما کو دے دی تھی اور علیحدگی کے بعد جمائما نے بنی گالا کا محل ان کو واپس کر دیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ بنی گالا کا یہ محل دراصل جمائما نے کس کمائی سے خریدا تھا۔ جمائما کی کون سی پاکستان میں فیکٹریان اور کارخانے چل رہے تھے وہ تو لندن سے ہی پیسہ لاتی تھی وہی پیسہ جو اس کے باپ نے آف شور کمپنیوں میں انویسٹ کر رکھا تھا۔


امریکہ اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے طوطے کی طرح آنکھیں پھیرنے میں ماہر ہے ایک دن تک وہ جس کی حمایت کر رہا ہوتا ہے اگلے دن ہی اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینے میں دیر نہیں کرتا۔برطانیہ سے امریکہ کی دشمنی نہیں ہے لیکن مغربی میڈیا ہی کہہ رہا ہے کہ برطانوی وزراعظم ڈیوڈ کیمرون نے امریکی مرضی اور خواہش کے برعکس برطانوی دفاع بجٹ میں کمی کر دی جس کی سزا دینے کے لیے پاناما لیکس میں برطانوی وزیراعظم کے باپ کا نام شامل کرا دیا گیا اور اب برطانوی وزیراعظم کو اپنے عوام کے سامنے وضاحتیں پیش کرنی پڑ رہی ہیں۔


دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان امریکہ کے ساتھ بھر پور تعاون کر رہا ہے اس کے باوجود افغانستان کے تناظر میں امریکہ پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں اور اس نے پاکستان کو سزا دینے کے لیے حکمرانوں سمیت ٹاپ کے خاندانوں کے نام پاناما لیکس میں شامل کرادئیے جس کے بعد پاکستان میں حکومت کیخلاف اپوزیشن جماعتوں نے واویلا مچا رکھا ہے۔


شور مچانے والوں میں عمران خان کا نام سب سے نمایاں ہے یہ الگ بات ہے کہ ان کے لیفٹ رائٹ موجود لوگوں میں بھی وہ لوگ شامل ہیں جو پاناما لیکس میں بتائی گے ہیں اس کے باوجود عمران خان اپنے اردگرد موجود ساتھیوں کے خلاف کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں اور سارا زور وزیراعظم کو گھر بھیجنے کی پرانی کی پوری کرنے پر دے رہے ہیں جس کا جواب چودھری نثار علی خان نے بھی زور دار طریقے سے دیدیا ہے اور خود وزیراعظم نواز شریف بھی لندن پہنچ کر واضح کر چکے ہیں کہ ایک صاحب کے عزائم کبھی پورے نہیں ہوں گے اور حکومت اگلے دو سال میں وہ وہ ترقیاتی کام اور منصوبے مکمل کر جائے گی کہ مخالفین دیکھتے رہ جائیں گے۔


پاکستانی عوام پر بھی یہ حقیقت عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ پاناما لیکس کی آڑ میں لوگوں کو سڑکوں پر لانے کا اعلان کرنیو الے دراصل ذاتی مفادات کے تابع ہیں اور ان کا واحد مقصد اقتدار پر کسی بھی طریقے سے قبضہ کرنا اور وزیراعظم بننا ہے لین عوام ایے لوگوں بخوبی پہنچان چکے ہیں اور پہلے کی طرح آئندہ بھی ان کو مسترد کرتے رہیں گے۔ پاکستان کے باشور عوام نے عام الیکشن ، ضمنی الیکشن، بلدیاتی الیکشن اور کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن میں اپنا فیصلہ دے کر ثابت کر دیا ہے کہ مسلم لیگ ن ہی ملک کی تعمیر و ترقی کی طرف گامزن کر رہی ہے جبکہ سڑکوں کی سیاست کرنے والا ملک میں انتشار اور تخریب کاری کے سوا کچھ نہیں کر رہا ۔


پاکستان کے چیف جسٹس نے بھی واضح کر دیا ہے کہ تحقیقات کرنا کمیشن قائم کرنا عدالت کا کا م نہیں عدلیہ کے پاس اور بھی بہت کام ہیں۔ اسی طرح آرمی چیف نے بھی گوادر میں خطاب کرتے ہوئے واضح پیغام دے دیا کہ کنفرنٹیشن ختم کریں اور کو آپریشن پر توجہ دیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے لندن سے بھی یہی کہا ہے کہ تمام تر شور شرابے کے باجود حکومت اپنی توجہ ترقیاتی منصوبوں اور ملک کو خوشحالی کے راستے پر آگے بڑھانے کے کام پر مرکوز رکھے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Panama Papers is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 April 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.