قیمتی نوادارات کے حصول کی جنگ

تاریخی اشیاء کو واپس حاصل کرنے کے دعوے بڑھ رہے ہیں! نوادرات کے حصول اور ان کی ملک میں واپسی کی طرف پہلی اہم کامیابی اٹلی کو حاصل ہوئی ہے جو امریکی عجائب گھروں سے 69 نادر اشیاء کو دوبارہ حاصل کر کے واپس لانے میں کامیاب ہو گیا ہے

بدھ 21 جنوری 2015

Qeemti Nawadraat K Husool Ki Jang
کامران امجد خان :
قیمتی نوادرات اور نادر اشیاء کا حصول ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے مگر ایک بار جو ان اشیاء پر قبضہ حاصل کر لیتا ہے ۔ وہ اُنہیں کسی اور کو دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر مختلف ممالک کے درمیان تاریخی اور نایاب اشیاء کے حصول کی ایک جنگ چھیڑ دی ہے اور یہ ممالک اب اقوام متحدہ کے ذریعے تاریخی طورپر اپنے ملک کی ملکیتی اشیاء کو واپس حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ مختلف ممالک کے دباوٴ پر اقوام متحدہ نے بھی اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے یہ قرار داد منظور کر لی ہے کہ نودرات کی ملکیت کا حق دار وہی ملک ہے جہاں سے یہ نوادرات حاصل کئے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے 192 رکن ممالک میں سے نصف ایسے قوانین رکھتے ہیں جن کی رو سے ریاست اُن تمام تاریخی اشیاء اور نوادرات کی مالک ہے جو ملک میں کہیں بھی برآمد ہوں یا ملک سے باہر لے جائے جا چکے ہوں۔

(جاری ہے)

نیز ایسی اشیاء کو ریاست کی منظوری کے بغیر ملک سے باہر لے جانے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔
نوادرات کے حصول اور ان کی ملک میں واپسی کی طرف پہلی اہم کامیابی اٹلی کو حاصل ہوئی ہے جو امریکی عجائب گھروں سے 69 نادر اشیاء کو دوبارہ حاصل کر کے واپس لانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ ان 69 اشیاء کی روم میں نمائش کی گئی۔ روم میں نمائش کے موقع پر اٹلی کے وزیر ثقافت فرانسکورد ٹیلی نے کہا تھا کہ ”ان نایاب اور تاریخی اشیاء کے عظیم سفر کا اختتام امریکہ کے عجائب گھروں میں پہنچ کر رُک نہیں سکا بلکہ اپنے اصل وطن کی محبت میں یہ اشیاء حقیقی مقام تک واپس آگئی ہیں ۔

یہ اشیاء اٹلی کی ملکیت تھیں اور اُن کا حصول اٹلی کی قومی شناخت کیلئے ازحد ضروری تھا۔
تاریخی اہمیت کی حامل ان اشیاء کے اصل وطن کی بنیاد پر واپسی کے مطالبات کے حوالے سے ترکی کوبھی کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ جرمنی کی حکومت ترکی کو ابولہول کی 3 ہزار سال پرانی ایک مورتی واپس کرنے پر رضا مند ہوگئی ہے۔ یہ مورتی جرمن ماہرین آثار قدیمہ نے وسطی اناطولیہ سے کھدائی کے دوران برآمد کی تھی۔

اس مورتی کو حاصل کرنے کے بعد ترکی کے وزیر ثقافت ارتعزل گنے نے کہا تھا کہ ” کے کے جس حصے میں بھی ترکی سے حاصل کردہ نوادرات ہوں گے وہ ہماری ریاست کی ملکیت ہی تصور ہوں گے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ان اشیاء کی واپسی کی مثالیں دیکھ کر حکومتیں خود ساختہ اور مقررہ ریاستی تشخص کی بنیادی پر نوادرات کی ملکیت کے بہت زیادہ دعوے کر ہی ہیں ۔ کئی ممالک اپنے جدیدی سیاسی تشخص کو اُجاگر کرنے کیلئے قدیم چیزوں کو اپن شاادنار ماضی کے تسلسل کو یقینی بنان ے کیلئے استعمال کرنے رہے ہیں جیسے کہ مصر فراعنہ کے دور کی اشیاء کے ساتھ ایرن قدیم فارس کی اشیا کے ساتھ اٹلی قدیم سلطنت روما کی اشیاء کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ کران قدیم ادوار کی تمام اشیاء کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔


نوادرات کے غیر ملکوں میں پہنچے کی کہانی بہت سادہ سی ہے ۔ ماضی میں مختلف ممالک نے آثار قدیمہ کی کھدائی کرنے والی عالمی ٹیموں کے ساتھ معاہدے کئے اور ان کے تحت ہی یہ ٹیمیں کھدائی کے نتیجے میں ملنے والی کچھ اشیاء کو ساتھ لے جانے کی حقدار ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں چونکہ مقامی حکومتوں کو نادر اشیاء کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتی تھیں اسلئے یہ کھدائی کرنے والی ٹیم پر منحصر تھا کہ وہ اشیاء کی اہمیت اور اصلیت کے بارے میں کیا تفصیلات بیان کرتی ہے۔

چانچہ اس دور میں مختلف ممالک سے کھدائی کیلئے جانے والی ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیموں نے متعدد تاریخی مقامات سے ملنے والی تاریخی اہمیت کی حامل اشیاء کو باقاعدہ معاہدوں کے تحت حاصل کیا اور اپنے ملکوں میں لے گئیں جہاں اُنہیں تاریخی نوادرات کے طورپر عجائب گھروں کی زینت بنا دیا جاتا تھا ۔تاہم بعد ازاں ان ممالک نے تاریخی نودارت کے حوالے سے ایسے قوانین تشکیل دیئے جو ملک کی سرحدوں کے اندر دریافت ہونے والی قدیم اشیاء کی ملکیت ریاست کو سونپنے کے علاوہ ریاست کی منظوری کے بغیر ان کو برآمد پر پابندی لگاتے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر قوانین کو 1970 کے بعد منظور کیا گیا تھا۔ اسی سال یونیسکو کے آثار قدیمہ کے تاریخی نمونوں کی غیر قانونی تجارت کے خلاف قرار داد منظور کی تھی۔ اُسی دور کے بعد سے ہی حکومتوں کے درمیان آثار قدیمہ پر مبنی اشیاء کی تحویل کے حوالے سے جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔
وطن واپسی کے متنازعہ ترین حالیہ دعووٴں میں تین خاصے اہم اور معروف ہیں۔

ان میں سے ایک بھارت کی طرف سے تاریخی اہمیت کے حامل کوہ نور ہیرے کی برطانیہ سے واپسی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔یہ ہیر1849ء میں برطانوی حکومت نے پنجاب کے مہاراجارنجیت سنگھ کو شکست دینے کے بعد حاصل کیا تھا ۔ برطانوی حکومت کے مطابق یہ ہیرا جنگ کے بعد ایک باقاعدہ معاہدہ کے تحت برطانہ کو دیا گیا تھا۔بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ ہیرا کئی مغل حکمرانوں اور مہاراجاوٴں کے قبضے میں رہا اور پھر انگریزوں نے اسے بزورقوت حال کر لیا تھا۔

دراصل ہندوستان کی ملکیت ہے ،چونکہ اسے غیرقانونی طور پر حاصل کیا گیا تھا لہٰذا سے واپس کیا جائے۔
دوسری طرف برطانوی حکومت اس تاریخی ہیرے کو واپس کرنے سے مسلسل انکار کرتی آئی ہے ۔اُسکا کہنا ہے کہ اگر بھارت کا دعویٰ درست تسلیم کر لیا جائے تو کوہ نور کی ملکیت کے بارے میں افغانستان ،ایران اور پاکستان بھی دعویٰ کر سکتے ہیں۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ہیرا باقاعدہ قانونی معاہدے کے تحت برطانیہ کی ملکیت میں آیا تھا اور اب اس کی ملکیت پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

تاہم بھارت اس تاریخی ہیرے کو حاصل کرنے کیلئے بھر پور لابنگ کر رہاہے اور اس نے اسے باقاعدہ عالمی تحریک کی شکل دے دی ہے۔
متنازعہ دعووٴں میں دوسرا اہم اور معروف دعویٰ پارتھینون سنگ مرمر (جسے ایلکن سنگ مرمر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے) کے ٹکڑوں سے متعلق ہے ۔ یہ دراصل یونانی مجسموں اور فن تعمیر سے نمونوں کا یاک مجموعہ ہے۔انہیں ایک برطانوی سفیر نے 1801 میں حاصل کیا اور پھر لندن بھیج دیا تھا اور اب یہ نادر نمونے برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔


تیسرا اہم دعویٰ نفرتپتی (مصر کے فرعون کی ملکہ) کی مورتی سے متعلق ہے۔
یہ مورتی 1912 میں جرمن آثار قدیمہ کے ماہرین نے دریافت کیا تھا اور بعد ازاں برلن لایا گیا تھا اب یہ برلن کی Neues میوزیم میں نمائش کیلئے رکھی گئی ہے ۔
جہاں تک یونان کے پارتھینون سنگِ مرمر کے نمونوں کا تعلق ہے اُنہیں کس وقت کی حکمران سلطنت عثمانیہ کے حکام کی اجازت سے حاصل کیا گیا تھا۔

یونان نے 1834 تک نوادرات اور قدیم اشیاء سے متعلق قوانین منظور نہیں کئے تھے۔ جب یونان نے1829 میں سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کی تو یونان نے ایکروپوس کمپلیکس کو اپنی قومی علامت بنا لیا جہاں سے یہ سنگ مرمر کے نمونے اُتارے گے تھے۔اب یونانی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ سنگ مرمر کے یہ نمونے پارتھینون کو ”ایک بار پھر یکجا“ کر دے گی۔
نفرتینی کی مورتی1913 س برلن میں ہے۔

اس وقت مصر عملی طور پر برطانیہ کے زیر تسلط تھا۔ مصر کی حکومت مورتی کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے 1920 سے درخواستیں دے رہی ہے۔ جرمنی نے ہمیشہ انکار کیا ہے جرمنی کا موقف ہے کہ مورتی کو قانونی طورپر کھدائی کرنے والی ٹیم اور مصری حکام کے درمیان طے شدہ تقسیم کے حصے کے طور پر لے جایا گیا تھا۔
دوسری طرف مصری حکام الزام لگاتے ہیں کہ جرمن آثار قدیمہ کے ماہرین نے مورتی کی اہمیت کے حوالے سے جھوٹ بولا تھا اور دھوکہ سے مورتی کو مصر سے باہر کے جایا گیا تھا۔

جرمن حکومت نے اس الزام کی مسلسل تردید کی ہے۔
اقوام متحدہ کے تحت یونیسکو کنونشن نے نادر اشیاء کی وطن واپسی کے مطالبات کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ کنونش 1970 سے پہلے موجود قومی ثقافتی رائے کے قواعد و ضوابط کی جگہ لے سکتا ہے اور نہ ہی یہ بذات خود کوئی قانون ہے اسلئے مختلف ممالک کے دعووٴں میں تومسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر ان میں سے زیادہ تر دعوے بے نتیجہ رہے ہیں اور ان سے محض مختلف ممالک کے درمیان کشمکش میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qeemti Nawadraat K Husool Ki Jang is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 January 2015 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.