صنعتی تہذیب

آج ہم جسے مغربی تہذیب کہتے ہیں وہ دراصل صنعتی تہذیب ہے جو ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کارپوریشن کی قیادت میں کھلے بازار کی معیشت کے سہارے معیشت کی آفاقیت (گلوبلائزیشن) یا ایک ایسے آفاقی نظام ‘ معاشی نظام کے نصب العین کی تکمیل کے مرحلے میں ہے کہ دنیا کا تقریباً ہر سیاسی نظام اس کے زیر نگیں آ چکا ہے یا آنے والا ہے

جمعرات 8 جون 2017

Sanati Tehzeeb
آج ہم جسے مغربی تہذیب کہتے ہیں وہ دراصل صنعتی تہذیب ہے جو ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کارپوریشن کی قیادت میں کھلے بازار کی معیشت کے سہارے معیشت کی آفاقیت (گلوبلائزیشن) یا ایک ایسے آفاقی نظام ‘ معاشی نظام کے نصب العین کی تکمیل کے مرحلے میں ہے کہ دنیا کا تقریباً ہر سیاسی نظام اس کے زیر نگیں آ چکا ہے یا آنے والا ہے۔ اور دنیا کی ہر حکومت کسی نہ کسی شکل (غلامی نہ سہی دوستانہ معاہدوں ہی کے ذریعے سہی اس کے کنٹرول میں ہے۔

جس طرح ہر تہذیب کی اپنی اخلاقیات اور کچھ ضابطے ہوتے ہیں اسی طرح یہ صنعتی تہذیب کچھ مخصوص تجارتی اخلاقیات و اقدار کی پابند ہے۔ کنزیومر ازم اندھی اور بے لگام صارفیت فحاشی‘ بدامنی اور دہشت گردی کا فروغ اس کے ضابطے ہیں۔ سماج میں نقلی اور فرضی ضرورت پیدا کر کے بازار میں اپنا مال اس طرح پیش کرنا کہ جیسے بس وہی زندگی کی لازمی ضرورت ہو۔

(جاری ہے)

کنزیومر ازم ہے۔ فحاشی کیونکہ بذات خود تجارت اور صنعت بن چکی ہے اس لئے اس کا فروغ اس صنعتی تہذیب کا اٹوٹ انگ ہے۔ دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں بدامنی خانہ جنگی اور دہشت گردی کا ہونا اس لئے ضروری ہے کیونکہ صنعتی انقلاب کے بعد پہلی جنگ عظیم سے لے کر تا حال ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کارپوریشن نے سب سے زیادہ منافع اسلحہ کی تجارت ہی سے کمایا ہے جس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے نیوکلیئر اسلحہ کی تجارت بھی شامل ہو چکی ہے۔

رومیوں کے زوال کے قریب دو سو سال بعد اسلام کا ظہور ہوا انہی نظام حکومت اور آفاقی رحمت و اخوت کے ستونوں پر قائم عظیم اسلامی تہذیب ساتویں صدی عیسوی میں اس وقت تک کی معلوم دنیا کے نصف سے زائد قریب دو تہائی حصے تک وسیع ہو چکی تھی۔ نویں صدی عیسوی میں موجودہ سپین اور جنوبی اٹلی کا ایک حصہ بھی اسلامی پرچم کے سائے میں آ چکا تھا۔ یہ زمانہ کہ جنوبی چین ترکستان وسطی ایشیا ترکی جنوبی یورپ کی مشرقی افریقہ پر مشتمل اس وقت کی دنیا کے تقریباً تین چوتھائی حصہ پر مسلمان ہی حکومت کر رہے تھے۔

آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے نہ صرف علم و دانش کے چراغ جلائے رکھے بلکہ سائنس و حکمت کے پودے کو جسے خود انہوں نے لگایا تھا سینکڑوں درختوں میں تبدیل کر دیا جن کے سائے میں دنیا کا قافلہ علم و عقل آج تک سرگرم سفر ہے لیکن شمشیر و سناں اول والے لوگ یہاں بھی طاوٴس و رباب کے چکر میں پڑ کر قیادت و سیادت عالم کے تاج اور قافلہ انسانیت کی رہبری سے محروم ہو گئے۔

2941 عیسوی میں سقوط ہسپانیہ کے بعد اگرچہ مسلمانوں کی دو عظیم حکومتیں ترکی کی خلافت عثمانیہ اور برصغیر کی مغل امپائر موجود تھیں لیکن وہ اسلام کے عظیم علمی ورثے سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں اور نہ ہی انہوں نے اس علمی و سائنسی تحقیق کو آگے بڑھایا جس کی داغ بیل ہسپانوی عرب مسلمانوں نے رکھی تھی۔ یورپ کی علمی و سائنسی تہذیبی ترقی کا دور وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں مسلمانوں نے چھوڑا تھا لیکن اسلامی دنیا کے برخلاف یورپ کی علمی ترقی کی بنیاد خدا پرستی کی جگہ مادہ پرستی تھی لہٰذا وہ جلد ہی نری کھری بے روح مادی ترقی میں تبدیل ہو گئی۔

وقت کی تمام مذہبی اخلاقی اور سماجی قدروں کو کمرشلائز کر کے محض صنعتی تجارتی اور بازاری اقدار میں بدل کر رکھ دیا جہاں زیادہ سے زیادہ بے قید و بے حساب منافع کا حصول ہی تہذیب کی معراج قرار پایا۔ چار سال بعد0202 میں نئی مغربی تہذیب کے قائم کردہ تین بنیادی اداروں اقوام متحدہ ورلڈ بنک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کی ڈائمنڈ جوبلی یعنی ۵۷ ویں سالگرہ منائی جائے گی۔

ایک امریکی یہودی ماہر قانون بری کلین نے اقوام متحدہ کے قیام کے تین سال بعد زون رولز آف ورلڈ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی تھی وہ اس میں لکھتا ہے کہ اقوام متحدہ دراصل صہونیت ہی کا دوسرا نام ہے۔ الہ دین اور اخلاقیات کو الگ کر کے برپا ہونے والے علمی و سائنسی انقلاب موجودہ تہذیب کی اولین بنیاد بنے۔ فرائڈ مالتھس آدم اسمتھ انگلس اور مارکس نے سائنس فلسفے نفسیات معاشیات سماجیات اور تاریخ کے میدانوں میں جو نظریات پیش کئے وہ سب خدا سے بے زار کرنے کیلئے آغاز تھا۔

فرائڈ کی جنس زدہ نفسیات اور ڈارون کی انسان پہلے بندر تھا والے نظریہ ارتقا نے دنیا میں دین سے بیزاری زندگی کی بے مقصدیت اور جنسی انارکی نے جو گل کھلائے ہیں وہ آج اپنی گھناوٴنی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ جدید مغربی تہذیب کی دوسری بنیاد صنعتی انقلاب ہے جو تقریباً یورپ کے سیاسی انقلاب کے ساتھ ساتھ ہی رونما ہوا ہے بازار کی قوتوں کے ذریعے ہونے والی بے مثل مادی ترقی محنت کشوں کے غیر انسانی استحصال اور دولت کے غیر معمولی ارتکاز کی بدولت ہی صنعتی انقلاب برپا ہو سکا۔

برطانیہ میں صنعتی انقلاب کا دور ۰۵۷۱ میں شروع ہوا جبکہ امریکہ میں خانہ جنگی کے خاتمہ کے بعد1865 میں صنعتی انقلاب کا دور شروع ہوا۔1750ء سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی دی ہڈسن وے کمپنی دی رائل امریکن کمپنی پوری دنیا میں بنام تجارت محنت کشوں کا استحصال کرکے برطانیہ کے شاہی خزانے بھر رہی تھیں۔ انہوں نے افریقہ اور ایشیا کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر برطانیہ میں اتنی دولت جمع کرلی تھی کہ جہاں بھی اتنی دولت ہوتی وہیں صنعتی انقلاب آ جاتا اس انقلاب نے اس وقت کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ترقی کے آسمان کی نئی بلندیوں تک پہنچا دیا اس درمیان ہونے والی نئی ایجادات بھی ان کا کام آسان بناتی رہیں۔

برصغیر میں مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد سلطنت میں بادشاہ سے اجازت لے کر پچاس ہزار پاوٴنڈ سے تجارت شروع کرنے والی کمپنی1770ء تک بیس لاکھ پاوٴنڈ کما چکی تھی۔1866ء میں نوبل انعام کا آغاز کرنے والے مشہور ماہر علم طبیعات الفرید نوبل کی ڈائنامائیٹ بنانے والی کمپنی ہمبرنگ جرمنی میں قائم ہو چکی تھی۔1890ء تک امریکہ میں پانچ ہزار کمپنیاں موجود تھیں لیکن یورپ میں امریکی کمپنیوں کے داخلے پر پابندی لگی ہوئی تھی۔

اس پابندی کا مقابلہ کرنے کیلئے ان 5 ہزار کمپنیوں نے باہم انضمام کے ذریعے خود کو تین بڑی کمپنیز میں تبدیل کیا اور بے تحاشہ سرمائے کی بدولت یورپ میں داخل ہو گئی اور ان تینوں نے پورے یورپ میں صرف ہتھیاروں کی فروخت شروع کر دی اور پھر ہنگری کے ایک شہزادے کو قتل کروا کر پورے یورپ کو پہلی جنگ عظیم میں جھونک دیا۔ جنگ کے دوران ان اسلحہ ساز کمپنیوں کے مزید وارے نیارے ہو گئے اور دنیا کے غلام حکمرانوں کی وجہ سے عالمی اسلحہ مافیا کے ذریعے مغرب کا یہی کھیل آج 2017ء میں بھی بدستور جاری ہے۔


پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی کمپنیوں کے منہ کو ہتھیار سازی اور اس کی فروخت کا خون لگ چکا تھا اس خونی کاروبار سے ہونے والے بھاری منافع کو دیکھ کر1914 کے بعد ہر بڑی کمپنی نے اپنی پونجی کا بڑا حصہ اسلحہ سازی اور متعلقہ تجارت کیلئے وقف کر دیا۔یورپ کی ترقی کا دو1947ء میں شروع ہوا جب امریکہ نے یورپی بازار کے فروغ کیلئے ۷۱ ارب ڈالر کی امداد دی جس کے نتیجہ میں یورپ کی فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا لیکن غریب اور پسماندہ ممالک کو دی جانے والی امداد کا اصل چہرہ 1965ء میں سامنے آیا اور دنیا کو پتہ چلا کہ ترقی یافتہ ملکوں کی امداد دراصل غریب ملکوں میں بازار پیدا کرنے کیلئے ہے نہ کہ ترقی یافتہ ملکوں کی امداد دراصل غریب ملکوں میں بازار پیدا کرنے کیلئے ہے نہ کہ ترقی یافتہ بنانے کے لئے مشہور ناول دی گاڈ فادر کے مصنف نے اپنی کتاب The fourth K میں یہی سوال اٹھایا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ہر جنگ کے بعد کچھ لوگ پہلے سے زیادہ طاقتور اور دو لت مند ہو جاتے ہیں۔

پھر خود ہی اس نے جواب دیا کہ یہ سب ہتھیاروں کی تجارت سے ہوتا ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی ترقی اور ترسیل و ابلاغ کے انقلاب نے جس پر مغرب کی اجارہ داری ہے آج گھر گھر پر مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار کر رکھی ہے۔ ان کا نشانہ پوری دنیا ہے۔ یہ نام نہاد تہذیبی انقلاب مغرب دنیا کے عوام کی اس اکثریت کو اس اندھی صارفیت اور اس سے پیدا ہونے والی نفسا نفسی بے اطمینانی جنسی بے راہ روی غربت و افلاس کے سمندر میں غرق کر دینا چاہتا ہے تاکہ اعلیٰ طبقہ ارب پتی کھرب پتی سکون کے ساتھ اپنی دنیا میں مست رہیں ان کے محلات محفوظ رہیں۔ ان کے اختیار اقتدار کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔ یہ ساری اشتہار بازی جھوٹا پراپیگنڈہ جدید فلسفہ اور جمہوریت سب اسی کا رواحد میں مصروف ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sanati Tehzeeb is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 June 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.