سرزمین فلسطین پر یہودیوں کا دعویٰ ملکیت

اسرائیل نے طویل عرصے سے فلسطین کو تختہ مشق بنا رکھا ہے، 3 لاکھ سے زائد بے گناہ فلسطینی صہیونی قید میں ہیں!

پیر 10 جولائی 2017

Sarzameen e Falasteen Par Yahoodion Ka Dawa e Malkiat
رمضان اصغر:
اسرائیل کے یہودیوں کا کہنا ہے کہ فلسطین ان کے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے لہٰذا وہ اس سر زمین پر دوبارہ قابض ہونے میں حق بجانب ہیں۔ اگرچہ بین الاقوامی قوتیں یہودیوں کے اس دعوے پر ان کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہیں تاہم حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔دراصل یہودی خاص منصوبہ بندی اور عیاری سے سرزمین فلسطین پر قابض ہوئے او ر بلآخر اسرائیل کے قیام میں کامیاب ہو گئے۔

اس سازش میں بین الاقوامی طاقتوں مثلاََ برطانیہ اور امریکہ نے یہودیوں کو معاونت فراہم کی جبکہ 29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلے میں 33 ووٹوں سے اسرائیل کے قیام کی منظوری دے دی۔جنرل اسمبلی کے 10 ممبر ان سرزمین فلسطین کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے غیر حاضر رہے۔

(جاری ہے)

اس تقسیم کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ 1947ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہوچکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6فیصد زمین کے مالک تھے۔

اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کے ساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کی ریاست اسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے۔اس غیر منصفانہ اور بددیانتی پر مبنی تقسیم کی وجہ سے اسرائیل کو جود میسر آیا اور ہنوز یہودی توسیع پسند انہ عزائم کی تکمیل کی خاطر مظلوم اسلامیان فلسطین کی نسل کشی رہے رہیں ۔

حالیہ اسرائیلی دہشت گردی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ تاریخی حقائق کی جستجو کی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ آیا واقعی موجودہ فلسطین اور ماضی کے کنعان پر یہودیوں کا حق وراثت درست ہے یا نہیں۔تاریخی حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ حضرت اسحاق علیہ السلام مسجد الاقصی میں عبادت کیا کرتے تھے مگر حج کے لئے وہ مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے۔

ان کے پوتے حضرت یوسف علیہ السلام جب مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے خاندان کے 31 اشخاص کو جن میں ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام اور سارے بھائی بھی شامل تھے مصربلا لیا تھا۔بنی اسرائیل کے یہودی پہلے ہی دولت و ثروت کی خاطر فلسطین چھوڑ کر مصرمیں آباد ہوگئے تھے اور مصریوں کے غلام ہونا قبول کر چکے تھے۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے جاتے ہوئے مسجد اقصیٰ فلسطینی باشندوں کے سپرد کردی تھی جو کہ نیک لوگ تھے مگربنی اسرائیل میں نہیں تھے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے 300 سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر میں پیدا ہوئے۔جس سرزمین پر یہودی اپنی میراث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اسے انہوں نے اپنی مرضی سے حضرت موسی علیہ السلام سے 400 سال پیشتر خیر باد کہہ کر مصر میں دولت کی خاطر غلام بننا قبول کیا تھا۔حضرت موسی علیہ السلام کے 40 سال بعد تک بنی اسرائیل صحراے سینائی میں بھٹکے رہے یہاں تک کہ ان کی اگلی نسل آگئی اگر یہودیوں کا دعویٰ درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ حکومت اس وقت مکمل طور پر ختم ہوگئی تھی جب آج سے 2591 سال قبل بابل والوں نے اس پر قبضہ کر کے بمع عبادت گاہ سے کچھ مسمار کر دیاتھا۔

اور بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا تھا۔واضح رہے کہ بابل عراق کے شمالی علاقہ میں واقع ہے۔اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فلسطین تو کیا سرزمین عرب ست بھی تعلق نہیں رکھتا۔تھیوڈور ہرستل بڈاپسٹ (ہنگری)کا تھا بن گوریاں پولانسک (پولینڈ)کا۔گولڈ امیئر کِیو (یوکرَین)کی۔

مناخم بیگن بریسٹ لٹواسک(روس)کا۔تبِسہاک شمِیر روزینوف(پولینڈ)کا۔خائم وانسمَین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول (پولینڈ)کا تھا۔ثابت یہی ہوتا ہے کہ نہ تو اسرائیل کے لیڈروں کا فلسطین سے کوئی تعلق تھا یا ہے اور نہ فلسطین یا س کا کوئی حصہ کبھی بھی یہودیوں کی مملکت تھا۔ریاست اسرائیل کو وجود جوروجبر کامرہون منت ہے۔اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ چونکہ 1005 قبل مسیح میں حضرت داودد علیہ السلام کی حکومت شروع ہونے سے وہاں بابل والوں کے قبضہ تک یعنی 400 سال یہودی فلسطین کے علاقہ میں رہے (یعنی آج سے 2610 سے 3010 سال پہلے تک)لہذا اس بنیاد پر یہودیوں کی ریاست وہاں ہونا چاہیے تو پھر ہسپانیہ،مشرقی یورپ،مغربی چین،مغربی روس اور ہندوستان پر 800 سال یا س سے زیادہ عرصہ مسلمانوں کی حکومت قائم رہی ہے۔

چنانچہ یہ سارے ملک مسلمانوں کے حوالے کردئیے جائیں۔اسی طرح اور کئی ملکوں کا تنازع کھڑا ہوجائے گا۔ کوئی عجب نہیں کل کو بھارت ہندو کہیں کہ موجودہ پاکستان کے کافی علاقہ پر تو ہمارے موریہ خاندان نے 129سال پہلے حکومت کی تھی اور اسے واپس لینے کے لئے بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور امریکہ وغیرہ اسرائیل کے منذکرہ اصول پر بھارت کا ساتھ دیں۔

اسی طرح مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ سال مل کر جنوبی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردیں کہ یہاں کسی زمانہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔قدیم امریکی موجودہ سفید فام امریکیوں کو جو کہ دراصل انگریز ،جرمن اور ہسپانوی وغیرہ ہیں امریکہ سے نکل جانے کا کہیں۔ آسڑیلیا کے اصل باشندوں کی خاطر سفید فام آسٹریلویوں کا نکل جانے کا حکم دیا جائے۔اگر یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا تو پھر اسرائیل بنانا کس طرح جائز ہے۔

؟ حکیم الامت علامہ اقبال پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا
یہودیوں نے فلسطین میں صدیوں سے آباد لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی ہیں۔یہودی تو تیرہ سو سال قبل مسیح پہلی بار فلسطین میں داخل ہوئے تھے۔اس سے قبل عرب فلسطین میں آبادتھے۔تاریخی طور پر ثابت ہے کہ داخل ہوتے ہی مقامی فلسطینی آبادی کوزو ر اور زبردستی ان کے گھروں سے باہر نکا کر خود آباد ہوگئے تھے۔

یہ ویسا ہی ہے جیسے یورپ کے گورے انگریز امریکا میں داخل ہو کر وہاں کی قدیم آبادی ٓریڈانڈینز کو ان کے وطن سے نکال دیاتھا۔یعنی انسانیت کے ساتھ ظلم میں یہودی اور عیسائی برابر کے شریک ہیں۔ جب فلسطین میں بخت نصر نے پوری آبادی کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور یہودیوں کے ہیکل کوتباہ کردیا تھا اور یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا تھا۔مگر حضرت عمر کے دور حکمرانی میں ہیکل سلمانی کی بنیادیں دریافت کر کے دیوار گریہ کی یہودوں کو اطلاع کی۔

مگر یہ محسن شکن یہودی آج حضرت عمر کے احسان کا بدلہ چکانے کے بجائے فلسطینی مسلمانوں کے بوڑھے ،مرد و خواتین اوربچوں کو سفاکیت سے قتل عام کر رہے ہیں۔اُندلس پر مسلمانوں نے آتھ سو سال حکومت کی تھی۔عیسائی دنیا میں یہودیوں کو چین سکون نہیں ملتا تھا تو اندلس کے مسلمان حکمرانوں نے اپنے ہاں آرام و سکون سے رہنے دیا جس کا ذکر یہودیوں کے دانشور اپنی کتابوں میں کرتے آئے ہیں۔

پھر اسی اندلس سے جب مسلمانوں کو عیسائیوں نے شکست دی تو سلطنت عثمانی نے یہودیوں کو اپنے ملک میں پناہ دی۔عیسائیوں کا سرخیل امریکا جو اس دور میں اپنا ورلڈ آڈر دنیا میں چلا رہا ہے فلسطینیوں کے ساتھ ظلم وسفا کیت میں برابر کا شریک ہے ۔روس بھی مذہبی تعصب کی وجہ سے فلسطینیوں کے ساتھ ظلم میں شریک ہے۔ مرکز اچلاعات فلسطین کے مطابق الشیخ عمرالکسوانی نے مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ صہیونی فوج کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں گھس کر نمازیوں اور معتفکین کو تشدد کا نشانہ بنانا مذہبی اشتعال انگیزی اور ناقابل قبول اقدام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sarzameen e Falasteen Par Yahoodion Ka Dawa e Malkiat is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.