شام کے محصور شہر

بھوک ان علاقوں کونگل رہی ہے

جمعرات 11 فروری 2016

Shaam Kay Mehsoor Shehar
شامک کے شہر مضایا کے 40ہزار سے زائد شہری گزشتہ برس جولائی کے مہینے سے سرکاری فوج کے محاصرے میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ نومبر کے مہینے میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے دعویٰ کیا تھا کہ شام کے حوالے سے ایک بڑی اور مثبت تبدئلی اب محض چند ہفتوں کی بات ہے۔ ان کے اس بیان کوبھی کئی ہفتے گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں مضایا کے محصورین تک خوراک کاایک ذرہ بھی نہیں جاسکا اور انتہائی مجبوری کے عالم میں بے کس شہری گھاس بھونس کہ اپنی پالتوبلیاں اور کتے تک کھانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

دسمبر کے مہینے سے لے کر اب تک ” ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈر“ کے زیر اہتمام مضایا کے ایک طبی مرکز میں 23سے زائد افراد فاقہ کشی کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں اور ان میں چھ سے زائد ایسے معصوم بچے بھی شامل ہیں جن کی عمرایک برس سے بھی کم تھی۔

(جاری ہے)

اس شہر میں بھوکوں مرنے سے بچنے کیلئے ہجرت کرنے والوں کوشہرسے باہر نکلنے کے راستوں پر بارودی سرنگوں سے اٹے ہوئے علاقے سے گزرنا پڑتا ہے جہاں ایک ہی خاندازن کے کئی افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

مضایا شہر لینان کی سرحد کے قریب واقع ہے اور بشارالاسد کی حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے محصور شہر کیلئے بھجوائی جانے والی امدادی اشیاء کونہیں روکیں گے لیکن اس حکومتی وعدے کے باوجود تاحال وہاں کسی قسم کاامدادی سامان نہیں پہنچایا جاسکا۔ یہ بدنصیب شہر اس وقت لبنان کی حزب اللہ کے محاصے میں ہے جو شام میں بشارالاسد کی حکومت کوبچانے کیلئے ایران کی پراکسی بنی ہوئی ہے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ اس معاملے کوشام، روس اورایران کے ساتھ مذکرات کے ذریعے حل کیا جائے لیکن زمینی صورتحال اسقدرنازک ہے کہ اگرمضایا کی بستیوں پر بمباری کاسلسلہ نہ روکا گیا اور شہر تک خوراک پہنچانے کافی الفور بندوبست نہ کیا جاسکا تو آنے والے دنوں میں بھوک کاعفریت ہزاروں بے گناہ انسانوں کو نگل جائے گا۔ شام میں کانہ جنگی کے آغاز پر امریکی صدر نے سرخ لکیر کااعلان کیاتھا کہ اگر بشارالاسد کی حکومت نے اسی عبور کیاتوامریکہ کے پاس شام میں مداخلت کے سوا کوئی چارہ کارنہیں ہوگا۔

بشارالاسد کی حامی فوجیں صدر اوباما کی کھینچی ہوئی اس غیر مرئی سرخ لکیر کانام ونشان تک مٹا چکی ہیں لیکن نہ جانے صدر اوباما کو یہ لکیر اب تک کیسے صاف دکھائی دیتی ہے۔ اوباما کی سرخ لکیرے کے پامال ہونے اور جان کیری کے بیانات کی بازگشت تھمنے تک نہ جانے کتنے بے گناہ شامی شہری ہمیشہ کی نیند سوچکے ہونگے۔ امریکی، ایرانی اورروسی نمائندے دنیا کے بہترین ہوٹلوں میں انواع اقسام کے کھانے سامنے سجائے مضایا کے قحط زدہ عوام کوبچانے کاپرامن حل نکالنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس دوران مضایا کے شہری گھاس پھونس اورنہ جانے کیا کیا کچھ کھا کراپنی سانسوں کی ڈوری کو تھامے ہوئے بیٹھے ہیں۔

مضایا کے شہری بھوک بیماری اور سردی کے سامنے ڈھیرہورہے ہیں تودوسری جانب دیگر شہریوں میں درجنوں کے حساب سے ہسپتالوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شام کے جنگ زدہ علاقوں مین اب تک 177سے زائد ہسپتالوں کو نشانہ بنا کرتباہ کیاجاچکا ہے۔ مجموعی طور پر شام میں 330طبی سہولیات کے مراکز کوتباہ کیا گیا ہے اور ان حملوں کی زد میں آکر مارے جانے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی تعداد سات سو کے لگ بھگ ہے۔

شام کی خانہ جنگی میں مارے جانے والے بے گناہ شہریوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ روسی فضائی حملوں کی زد میں آکرجان سے جانے والے شہریوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی جانب سے شام میں امداد کی فراہمی کے حوالے سے جتنی بھی درخواستیں شامی حکومت سے کی گئی ہیں ان میں 75فیصد کا شامی حکومت نے جواب دینا بھی گورا نہیں کیا۔

رواں ماہ اقوام متحدہ نے 46محصور شامی علاقوں میں امداد کی فراہمی کے حوالے سے شامی حکومت کے ساتھ متعدد مرتبہ رابطہ کیا لیکن جواب ندارد۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق مضایا سے فاقہ زدہ بچوں اور بڑوں کی جوتصاویر سامنے آئی ہیں وہ تھوڑے ہی عرصے میں ہر محصور علاقے سے سامنے آئیں گی کیونکہ بشارالاسد کی حکومت محاصرہ اٹھانے پر رضا مند نہیں اور اقوام متحدہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں اس قدر ” بے بس“ ہیں کہ وہ شام کے شہریوں کو بچانے نہیں آسکتیں نتیجہ یہ کہ شامی شہریوں کوہر حال میں مرنا ہی ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Shaam Kay Mehsoor Shehar is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 February 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.