شام کی خانہ جنگی

عالمی منظر بدل جائے گا ؟ عالمی سیاسی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ شام کے مسئلے سے براہ راست پانچ عوامل نے دنیا کو سخت متاثر کیا ہے۔ اس میں بڑا اور پہلا مسئلہ داعش کا ابھرنا ہے۔ یہ شام کی خانہ جنگی اور پیدا ہونے والے بدترین حالات کا نتیجہ ہے

بدھ 30 مارچ 2016

Shaam Ki Khana Jangi
Philip Issa :
شام کا مسئلہ نہ صرف مشرق و سطیٰ بلکہ اب گلوبل سطح پر گھمبیر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ عالمی سیاسی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ شام کے مسئلے سے براہ راست پانچ عوامل نے دنیا کو سخت متاثر کیا ہے۔ اس میں بڑا اور پہلا مسئلہ داعش کا ابھرنا ہے۔ یہ شام کی خانہ جنگی اور پیدا ہونے والے بدترین حالات کا نتیجہ ہے۔ القاعدہ کی ایک شاخ اب دنیا کی خوفناک دہشت گردتنظیم بن چکی ہے۔

2014 میں شدت گردتنظیم داعش نے شام کے مشرقی شہر رقہ اور عراقی شہر موصل پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے زیر قبضہ علاقوں کی سرحدوں کا سائز برطانیہ کے برابر ہو گیا تھا۔ انہی علاقوں کے اسلحہ، دولت اور وسائل پر بھی اس نے قبضہ کر لیا۔ شام کی حکومت نے اس کو روکنے کے لیے کوئی چیک نہیں رکھا۔

(جاری ہے)


داعش کی جانب سے اقلیتوں کے قتل عام جنسی غلامی کو ادارہ جاتی شکل ، ریاستی اسلحہ پر قبضہ اور مخالفین کا بیہمانہ انداز میں قتل عام نے عالمی سطح پر بے چینی مین نمایاں اضافہ کیا۔

اس نے ثقافتی مقامات کو تباہ وبرباد کر دیا جن میں قدیم شہر پالمیرا کا ٹمپل بھی شامل ہے اور قیمتی اشیاء کی تجارت کو گلوبل سطح پر فروغ دیا۔ داعش نے ہی فرانس اور یمن میں دہشت گرد حملے منظم کئے اور جنوبی لیبیا کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، عراق اور شام میں خود ساختہ خلافت کے قیام کا اعلان کیا۔ یورپ میں ہزاروں نوجوان مرد اور عورتوں کو بھجوایا جن میں سے اکثریت کا مسلم ممالک سے تعلق نہیں تھا۔


روس کی جانب سے بھی دوبارہ جنگجو یانہ کردار نے گلوبل سطح پر دنیا کو متاثر کیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ فلپ یمنڈ کاکہنا ہے کہ صدر پوٹن دنیا بھر میں واحد شخص ہیں جن کی ایک فون کال پر شام کی خانہ جنگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ صدر ولادیمیرپوٹن نے کئی برس کے مشاہدے کے بعد مشاہدے کے بعد مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار دوبارہ وضع کیا ہے جسے امریکہ خطے میں قتل عام کا نام دیتا ہے۔

گزشتہ ستمبر میں صدر بشار الاسد کے کردار کو بڑھانے کے لیے ہتھیاروں کی بھرمار، مشیر اور معاشی معاونین فراہم کئے۔ بشار کو مخالفین سے نمٹنے کے لیے اپنی فضائیہ بھی بھجوائی۔ شام کے حالیہ تشدد میں اضافہ اس لئے بھی ہوا ہے کہ رو س اس کی معاونت کر رہا ہے۔ شام کی قیادت آئندہ کون کرے گا۔ اس کا انحصار پوٹن پر ہوگا۔
شام سے پہلے روس 2008 میں جارجیا اور 2014 میں یوکرائن پر فوجی کشی کرچکا ہے۔

صدر پوٹن روسی مفادات کے تحفظ کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہیں۔ روس ایک بڑے بروکر کی حیثیت سے خطے میں تیل اور گیس ے مالا مال علاقے کا قبضہ حاصل کر چکا ہے۔
تیسرے بڑا چیلنج غیر مستحکم یورپ ہے۔ یورپ نے پچھلی صدی کے آخر میں اپنی سرحدوں کو کھولنے کا معاہدہ کیا ۔ اب صرف ایک سال 2015 میں اسے ایک ملین مہاجرین کے بوجھ کا سامنا ہے جن میں سے زیادہ تر شامی ہیں۔

یورپ نے مہاجرین کوروکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ آغاز میں یونان سے بالکن کے راستے جرمنی تک لاکھوں مہاجرین کو داخلے کی اجازت دی گی۔
نومبر میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے سے بھی یورپی یونین میں مہاجرین کو داخلے سے روکنے کی سوچ کو فروغ ملا تھا حالانکہ ان حملوں میں بلیجیئم اور فرانس کے شہری شامل تھے۔ یورپ یونان پہنچنے والے تمام مہاجرین کو واپس ترکی بھجوانے کا معاہدے کر رہا ہے۔

یورپ جانے والے مہاجرین کے مقابلے میں اس بحران سے شام کے ہمسائے ترکی، لبنان اور اردن میں 4.4 ملین مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔
مشرقی وسطی میں جنگجوں کی وجہ سے ایران کو اپنے معاملات میں بہتری لانے کا موقع ملا ہے جس نے علاقائی طاقت کے توازن کو دوبارہ متوازن کیا ہے۔ شیعہ ایران کا دائرہ اب بیروت سے تہران تک پھیلا ہو اہے جبکہ بغداد اور دمشق کی حکومتوں کابھی اس پر انحصار ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Shaam Ki Khana Jangi is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.