شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی رحلت

دی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے۔ 1992 میں اختیار کئے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی بنیاد ہے

پیر 26 جنوری 2015

Shah Abdullah Bin AbdulAziz Ki rehlat
وقار فانی:
خادم الحرمین الشریفین،سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز انتقال کرگئے،سال 2015 کے پہلے مہینے کی یہ پہلی روح فرسا خبر ہے ،عالم اسلام ایک عظیم مدبر،قائد،رہنما سے محروم ہو گیا ہے۔سعود ی سرکاری ٹی وی کے مطابق وہ کچھ عرصہ سے زیر علاج تھے۔مرحوم پاکستان دوست شخصیت تھے،حال ہی میں وزیر اعظم نواز شریف نے ہنگامی دورہ کر کے ان کی عیادت کی تھی۔

نئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا اعلان کردیا گیا ہے،اب شاہی خاندان کی وفاد دار کونسل شہزادہ مقرن کو ولی عہد مقرر ہونے کی توثیق کرے گی۔شاہ عبداللہ نے 79سالہ سوتیلے بھائی شہزادہ سلمان کو دو برس قبل شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد ولی عہد نامزد کیا تھا اور اب وہ سعودی عرب کے بادشاہ بن گئے ہیں جبکہ شہزادہ سلمان کے شاہ بننے پر مرحوم شاہ عبداللہ کے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن نئے ولی عہد ہوں گے۔

(جاری ہے)

سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے۔ 1992 میں اختیار کئے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی بنیاد ہے۔سعودی عرب میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ 2005 میں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔

بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان، علما اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہئے۔ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد اور قرآن اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔

قانون سازی وزرا کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پر شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالت شرعی نظام کی پابند ہیں جن کے قاضیوں کا تقرر اعلی عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔
شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزنے26جمادی الثانی 1426 ہجری کو اپنے رضاعی بھائی شاہ فہد بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔

شاہ عبداللہ اپنے والد ملک عبدالعزیزکے بارہویں بیٹے تھے۔ آپ 1924 میں ریاض میں پیدا ہوئے اور اپنے والد شاہ عبدالعزیز آل سعود سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی تعلیم و تربیت شاہی ماحول میں ہوئی۔ ان کے والد نے اپنی اولاد کے لئے خصوصی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں بڑے بڑے علما و مشائخ شہزادوں کی تعلیم کے لئے مختص تھے۔ شاہ عبداللہ کی ساری زندگی حکومتی ذمہ داریوں کو نبھاتے گزری۔

وہ اعلی درجے کے منتظم، نہایت جفا کش اور محنتی تھے۔شاہ عبداللہ نے اپنے دور میں سعودی عرب کو خوب ترقی دی۔دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے انھوں نے اپنے دور میں تعلیم پرخاص توجہ مرکوز رکھی۔ متحدہ عرب امارات کے الشیخ زید بک ایوارڈ کی جانب سے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو 2014 کی عالمی ثقافتی شخصیت قرار دیا گیا تھا۔

معاصر دنیا میں برداشت، رواداری، تعلیم، بین المذاہب مکالمے اور عفو و درگذر کے کلچر کو جس طرح شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایک مینارہ نور ہے۔ عرب ممالک، عالم اسلام اور عالمی برادری میں نظریاتی، فکری، تعلیمی کلچر کو فروغ دینے کے ساتھ خادم الحرمین الشریفین نے رواداری اور بھائی چارے برداشت کی روایات کو عام کیا۔

یوں سعودی عرب سے لے کر پوری دنیا تک شاہ عبداللہ کی ثقافتی خدمات کا شہرہ عام ہے۔ سعودی فرمانروا نے دنیا بھر میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور مکالمے کا کلچر متعارف کرایا،سعودی ثقافت کی بنیاد مذہب اسلام ہے ۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائم خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔

سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوتی ہے۔ قرآن مجید سعودی عرب کا آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقص ارضی ہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے۔سعودی عرب ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اقتصادی اعتبار سے اس کا دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ سعودی عوام کو حکومتی تعاون اور مدد اس طرح ملتی ہے کہ انھیں انڈسٹری لگانے کے لیے بغیر سود کے 20 سال کے لیے قرضہ دیا جاتا ہے جس کی ادائیگی بڑی آسان قسطوں میں ہوتی ہے۔

اگر کوئی پوری ذمہ داری سے قسطیں ادا کردے تو حکومت اس کی آخری قسطیں معاف کردیتی ہے۔ آل سعود کی مضبوط حکومت کا اصل راز اس کی عوام میں بے پناہ مقبولیت ہے۔سعودی عوام اپنے بادشاہ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں اور بادشاہ بھی اپنے عوام کی بہتری کے لیے ہروقت سوچتے رہتے ہیں۔ سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پٹرول نہایت سستا ہے۔ شاہ عبداللہ نے اپنے عوام کی سہولت کے پیش نظر 1427ھ کے آغاز میں پٹرول کی قیمت 90 ہللہ فی لیٹر سے60 ہللہ فی لیٹرکردی(100ہللہ 1ریال)۔

یہ ان کانہایت تاریخ ساز فیصلہ تھا۔ ہر چند کہ پوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے جس سے سعودی معیشت بھی یقینا متاثر ہوئی مگر آج بھی دیگر ممالک سے مقابلہ کیاجائے تو سعودی عرب بہت سارے سیکٹرز میں دنیا کا نہایت سستا ترین ملک ہے۔ پٹرول کے رعایتی نرخوں نے ملکی اقتصادیات پر بڑا مثبت اثر ڈالا اور ٹرانسپورٹ سمیت بہت سے شعبوں میں اشیا کی قیمتیں کم ہوئیں۔

شاہ عبداللہ کے دور میں سعودی عرب کی معیشت نے بے حد ترقی کی۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا یہ ملک اقتصادی اعتبار سے بڑا مضبوط ہے۔ جتنا کاروبار اس ملک میں میسر ہے شاید کہ کسی دوسرے ملک میں دولت کی اس قدرریل پیل ہو۔
سعودی عرب کو اللہ تعالی نے جہاں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے وہاں حرمین شریفین کا وجود سب سے بڑی نعمت اور باعث برکت ہے۔

دنیا میں کونسا ایسا مسلمان ہوگا جس کا دل حرمین شریفین کے لیے نہ دھڑکتا ہو اور وہ یہاں کی زیارت کے لیے نہ آناچاہتا ہو۔ سعودی حکمرانوں نے ہر دور میں حرمین شریفین کی توسیع کو اولیت دی ہے۔ خادم الحرمین الشریفین کہلانے والے شاہ عبداللہ نے اپنے عہد میں حجاج اور معتمرین کی سہولتوں میں مزید اضافے کے احکامات جاری کیے۔ جمعہ اور عیدین کے موقع پر مسجد نبوی ﷺکے طویل و عریض صحن نمازیوں سے بھر جاتے تھے۔

رمضان المبارک اور حج کے ایام میں پوری دنیا سے مسلمان جمع ہوتے تو شدید دھوپ میں عبادت مشکل ہوجاتی تھی۔1427 ہجری میں شاہ عبداللہ مدینہ طیبہ گئے تو انہوں نے مسجد کے تینوں اطراف میں برقی سائبان لگانے کا حکم دیا جن کی تنصیب سے آج نمازی مستفید ہو رہے ہیں۔ان سائبانوں کے نیچے دو لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے۔ بلا شبہ یہ شاہ عبداللہ کا بڑا عظیم کارنامہ ہے جو یقینا ان کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔


گزشتہ کئی سالوں سے حرم مکی کی توسیع کا کام بھی جاری ہے۔ طواف اب پہلے سے کہیں سہل طریقہ سے ادا ہو جاتا ہے ،گول چکر اب خوبصورتی میں بدل چکا ہے،مروہ کی طرف حد نگاہ تک عمارتوں کو خرید کر انہیں حرم میں شامل کرنے کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔جبل عمر کا منصوبہ ایک تاریخی منصوبہ ہے۔ یہاں بھی دن رات کام جاری ہے۔سعودی عرب کی بڑی بڑی کمپنیاں توسیع حرم میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔

شاہ عبداللہ کی عمیق نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ دنیا بھر سے حج بیت اللہ کے لئے آنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ شاہ کی ہدایت پر مکہ مکرمہ میں کئی ایک ماسٹر پلانز پر کام کیا گیا ہے جو آج بھی رکا نہیں ،حجاج کرام اور معتمرین کو جن مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے اس میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بڑا اہم ہے۔جدہ سے مکہ مکرمہ اور پھر مکہ سے مدینہ طیبہ قریبا ہر حاجی کو جانا ہوتا ہے۔

بعض اوقات جدہ سے مکہ پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ تک آنے جانے میں بعض اوقات پورا دن صرف ہوجاتا ہے۔شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی ہدایت پر ایک جامع منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے تحت جدہ سے مکہ مکرمہ تک اور پھر مدینہ طیبہ تک ٹرین چلائی گئی ہے۔اس منصوبے کو حرمین ٹرین کا نام دیا گیا ہے۔ جدہ کے ائیر پورٹ سے شروع ہوکر یہ ٹرین پہلے جدہ شہر اور پھر مکہ مکرمہ روانہ ہوگی۔

ریلوے لائن کی دو رویہ پٹڑی کے ڈیزائن بڑی حد تک مکمل ہوچکے ہیں جن کے مطابق مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ تک اور جدہ سے مکہ مکرمہ تک ریلوے لائن بچھائی جائے گی۔ اس ٹرین کے چار بڑے اسٹیشن ہونگے۔ پہلا اسٹیشن کنگ عبدالعزیز ائر پورٹ، دوسرا اسٹیشن جدہ سٹی سنٹر، تیسرا مکہ مکرمہ اور چوتھا مدینہ طیبہ ہوگا۔ تین سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی یہ ٹرین صرف آدھ گھنٹے میں مکہ مکرمہ پہنچ جایا کرے گی۔

مکہ مکرمہ یا جدہ سے مدینہ طیبہ کے لیے حرمین ٹرین450 کلو میٹر کا فاصلہ صرف دو گھنٹے میں طے کرے گی۔ حرمین ٹرین شرق الاوسط میں سب سے زیادہ تیز رفتار ٹرین ہوگی۔ اس طرح حجاج اور معتمرین کو نہایت محفوظ اور تیز وسیلہ سفر میسر آجائے گا۔مکہ مکرمہ یا جدہ سے مدینہ طیبہ جاتے ہوئے راستے میں پہاڑی سلسلہ ہے۔ وادیاں ہیں اور صحرا بھی ہے۔ فاصلوں کو کم کرنے کے لیے کئی سرنگیں اور فلائی اوور پلوں کو بنانے کا منصوبہ شروع کردیا گیا ہے۔

کل 94 نئے پل بنائے جارہے ہیں۔اس وقت تک 16پلوں کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔ان پلوں کی کل لمبائی 10850 میٹر ہوگی۔ سعودی عرب میں ابھی تک اونٹ صحرا میں چرتے ہیں۔ دوران سفر آپ کو دور دور تک صحرا میں اونٹ چرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے بدو پیدل ان کے پیچھے بھاگتے تھے۔اب گاڑیاں لیے وہ اپنے اونٹوں کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں۔ اونٹوں کے گزرنے کیلئے خصوصی طور پر13پل اور بارش کے پانی کو گزارنے کے لیے 141 پل بنانے کا منصوبہ پر کام جاری ہے۔

اس عظیم منصوبہ کو دو بڑے مرحلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔حجاج کرام کی تعداد میں سالانہ 41 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔اسی طرح معتمرین کی تعداد میں 14 فیصد سالانہ اضافہ ہورہا ہے۔اس وقت بھی سالانہ کئی ملین حجاج اور معتمرین سعودی عرب آرہے ہیں۔اگلے پچیس برسوں میں ان کی تعداد دوگنا ہونے کی توقع ہے۔ تمام صاحب استطاعت مسلمانوں پر حج فرض ہے،دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان رہتے ہیں ان کے لیے سفری اخراجات کوئی مشکل کام نہیں۔

سعودی عرب امن کا گہوارہ ہے۔حجاج اور معتمرین کی سلامتی سعودی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ حاجیوں کو لوٹنے والی باتیں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں، یورپ اور امریکہ سے بے شمار مسلمان حج اور عمرہ کرنے آتے ہیں۔ حرمین ٹرین کا منصوبہ بلا شبہ تاریخی منصوبہ ہے اور خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا نام صدیوں تک یاد رکھا جائے گا کہ ان کے عہد میں یہ عظیم الشان منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے۔

خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ کی قیادت میں بہت سے ترقیاتی اور تاریخی کام ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اس دوران ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن(W.T.O) کا بھی ممبر بنا۔ یہ عظیم ہستی اب ہم میں نہیں رہی، آج ہر پاکستانی دکھی ہے،سعودی عرب میں مقیم ہم وطن سوگوار ہیں،شاہ عبداللہ کی رحلت عالم اسلام کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے انکی اسلام اور ملت اسلامیہ کے لیے خدمات کو سنہرے ھروف مین لکھا جائے گا۔آج دنیا بھر کے مسلمان شاہ عبداللہ کے بلندی درجات کے لیے دست دعا بلند کیے ہوئے ہیں اور آنے والے وقتوں میں بھی اس عظیم قائد کے لیے خراج عقیدت و تحسین کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Shah Abdullah Bin AbdulAziz Ki rehlat is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 January 2015 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.