تیل و گیس سے مالا مال ہونے کی امریکی پالیسی

امریکہ اپنی فوجیں دنیا میں اس نقطہء نظر سے پھیلا رہا ہے کہ وہ تمام دنیا کے وسائل بالخصوص تیل اور گیس کے وسائل اپنے لئے مختص کرے اس مقصد کے لئے امریکی حکمرانوں نے مختلف کمانڈ بنا لئے ہیں

منگل 28 اکتوبر 2014

Tail O Gas Se Mala Maal Hone Ki Amarici Policy
رانا زاہد اقبال:
دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک فریب ہے یہ جنگ صرف ان علاقوں میں لڑی جا رہی ہے جہاں تیل اور گیس موجود ہے یا توانائی کے ان وسائل کے لئے راہداری کا کام کرتے ہیں۔ جوں جوں تیل اور گیس پر امریکی انحصار میں اضافہ ہو رہا ہے توں توں امریکہ اپنی فوجیں دنیا میں اس نقطہء نظر سے پھیلا رہا ہے کہ وہ تمام دنیا کے وسائل بالخصوص تیل اور گیس کے وسائل اپنے لئے مختص کرے اس مقصد کے لئے امریکی حکمرانوں نے مختلف کمانڈ بنا لئے ہیں جنہیں دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی تسلط قائم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

اس مقصد کے لئے سینٹ کام مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کے مشرقی ساحل پر واقع ممالک کے لئے، نارتھ کام کی ذمہ داری کینیڈا، امریکہ اور میکسیکو کی بری، بحری اور فضائی حدود پر امریکی گرفت قائم رکھنا ہے، اس طرح ای کام ہے جو یورپ، اسرائیل اور افریقہ کے بیشتر ممالک کو گرفت میں رکھنے کے لئے بنائی گئی ہے، ایک افریکام ہے جس کے ذمے مصر کو چھوڑ کر دیگر تمام افریقہ کے تیل اور گیس کے وسائل امریکہ کے لئے مختص کرنا ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ میں تیل و گیس کے وسائل کم ہونے اور تیل کی زیادہ کھپت کے باعث امریکہ کو دنیا کے ہر اس خطے سے دلچسپی ہے جہاں تیل اور گیس پائے جاتے ہیں۔ امریکہ جانتا ہے اگر اسے تیل و گیس کی قلت کا سامنا ہوا تواس کا دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا کیونکہ امریکی ائر فورس، فوج اور نیوی دنیا میں تیل استعمال کرنے والے بڑے ادارے ہیں ان کی تیل کی کھپت دنیا کے ممالک میں 35ویں نمبر پر ہے گویا امریکی محکمہ دفاع تنہا ایک ملک کے برابر سالانہ تیل خرچ کرتا ہے۔

امریکہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈھونگ رچا کر کرئہ ارض پرامن قائم کرنے کی بات کرتا ہے یہ امریکی امن اقوامِ عالم کے وسائل چھین کر انہیں جبراً خاموش کرنے کی کیفیت ہے۔ امریکی امن، عالمی غلبہ، نیو ورلڈ آرڈر اور گلوبلائزیشن جیسی تمام اصطلاحیں صرف اور صرف ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں۔
امریکی قوم اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں سے تنگ ہیں لیکن امریکہ کی دونوں سیاسی پارٹیاں امریکہ کے متمول گروہ کی آلہء کار ہیں لہٰذا عوام کی سنی نہیں جا رہی ہے۔

حکمران تیزی کے ساتھ عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا انجام ہولناک تباہی ہو گا۔ تہذیبِ انسانی مٹ جائے گی اور اگر بنی نوع انسانی معدوم ہونے سے بچ بھی گئی تو انتہائی پسماندہ حالت میں رہ جائے گی۔ جب بھی کبھی امریکی حکومت نے اپنے عوام کو کسی بڑی جنگ میں جھونکنا ہوتا ہے تو اس کی ایجنسیاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایسے واقعات کرا دیتی ہیں جو معصوم امریکی جانوں کے ضیاع پر منتج ہوتے ہیں۔

اس سے عوام میں جو غم و غصہ پیدا ہوتا ہے اسے دشمن کے خلاف جنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اس لئے کروائے جاتے ہیں کہ طبعاً امریکی عوام امن پسند ہیں اور جنگ و جدل سے نفرت کرتے ہیں دونوں بڑی جنگوں میں امریکہ کی شمولیت عوام سے اسی قسم کے دھوکہ کے باعث ممکن ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ 9/11بھی امریکی ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے۔

2000ء میں معروف بلکہ بدنامِ زمانہ رپورٹ منظرِ عام پر آئی تھی جس کا عنوان تھا امریکی دفاع کی تعمیرِ نو 90 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے خالقوں میں اکثریت یہودیوں کی تھی اس رپورٹ کا مقصد امریکی عظمت اور عالمی غلبے کا خواب قوم کے سامنے رکھ کر اسے بنی نوع انسان کے خلاف مستقل جنگ و جدل میں جھونکنا ہے تا کہ چند سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ اور فروغ ہو سکے۔

اس کا مقصد جہاں کرئہ ارض کے تیل کے وسائل ہیں ان پر قبضہ کیا جائے اور جہاں دیگر قیمتی ذخائر ہیں وہاں انہیں مقامی لوگوں سے چھین لیا جائے اس رپورٹ میں امریکی حکومت کو ترغیب دی گئی تھی کہ وہ زیادہ تعداد میں فوج تیار کرے جنہیں تیزی سے میدانِ جنگ میں پہنچا کر بیک وقت بڑی جنگیں جیتنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔
آج امریکہ شدید اندرونی اور خارجی مسائل سے دوچار ہے امریکی معاشرے میں امیر اور غریب کی بڑھتی ہوئی تفریق، غرباء کی خستہ حالی جنہیں بنیادی طبعی سہولتیں بھی میسر نہیں۔

امریکی کارپوریشنوں کی لوٹ مار اور بے لگام منافع خوری کے ظالمانہ اور مجرمانہ طرزِ عمل نے انسانیت کشی کے کلچر کو جنم دیا اس غیر منصفانہ صورت حال نے امریکی معاشرے میں دراڑیں ڈال دی ہیں لیکن امریکی حکمران اور ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے پوشیدہ سرمایہ دار اس صورتحال سے نمٹنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ امریکی حکمران جس راہ پر چل رہے ہیں وہ روز افزوں جنگ اور بالآخر بنی نوع انسان کے لئے کثیر جانی نقصان اور ہولناک تباہی پر منتج ہو گی۔

قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں میں قانونِ قدرت کے عبرت آموز سبق ہیں ابھی کل کی بات ہے کہ سوویت یونین جیسی سپر پاور کو افغانستان جیسی پسماندہ قوم نے شکست و ریخت سے دوچار کر دیا کیا امریکہ کا موجودہ غلبہ بھی ایسے ہی انجام کو پہنچ رہا ہے یا اسے ابھی مہلت ملے گی اس کا جواب وقت دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Tail O Gas Se Mala Maal Hone Ki Amarici Policy is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 October 2014 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.