طالبان نے امریکی اندازے غلط ثابت کردیئے!

افغان حکومت نے آنکھیں موندھ لیں․․․․․

منگل 8 اگست 2017

Taliban Ne Amrici Andazay Ghalat Sabit Kar Diay
محمد رضوان خان:
پاکستان میں جب پاناما ہنگامے کے ڈراپ سین کی تیاری حتمی مراحل میں داخل ہوگئی تھی تو عین اس وقت افغانستان میں امن ایک قدم اور دور جاتا دکھائی دیا کیونکہ تین روز کے اندر طالبان نے دو اتنی بڑی کاروائیاں کیں کی اس کی وجہ سے قیام امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا۔ ان وارداتوں میں سے پہلی واردات طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے قندھار میں کی گئی۔

یہ واردات زیادہ اہم اس لئے تھی کہ اس کے دوران طالبان نے کسی عوامی مقام کی بجائے قندھار کے ضلع میں کرزلی فوجی اڈے کا انتخاب کیا اور اس پر دھاوا بول دیا۔ اس حملے میں 45 افغان فوجی ہلاک اور 13 زخمی ہوئے تھے ، عام طور پر اگر دیکھا جائے تو صوبہ قندھار جو طالبان دور حکومت میں ان کی راجدھانی ہوا کرتا تھا پر آج بھی زیادہ اضلاع میں طالبان کا ہی ڈنکا بجتا ہے لیکن خاکریز قندھار کے ان چندگنے چنے اضلاع میں سے ایک ہے جہاں کا انتظام وانصرام ان دنوں بھی افغان حکومت کے زیادہ اختیار میں ہے لیکن افغان طالبان کو خاکریز میں افغان حکومت کا غلبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ اس علاقے پر اپنے حملے جاری رکھتے ہیں تاکہ افغان حکومت کر پریشان رکھا جائے۔ طالبان کا حالیہ حملہ بھی خاصا زور دار بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے خاکریز پر قبضہ بھی کرلیا ہے جس کی بابت کہا جارہا کہ وہ ابھی تک طالبان کے کنڑول میں ہے، تاہم افغان حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ اس کھوئی ہوئی پوزیشن کو دوبارہ سے حاصل کریں۔


افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے فوجیوں نے بڑی بہادری سے طالبان کی یلغار کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کا ناکام بنادیا افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے اس بارے میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ فوجی کیمپ پر حملہ کرنے والے طالبان جنگجوؤں میں سے 80۔ کو افغان آرمی نے ہلاک کردیا تھا۔ اس دعوے کی آزاد حلقوں نے بھی تصدیق نہی کہ جبکہ طالبان کو تو اس دعوے کو سرے سے مانتے ہی نہیں وہ تو خاکریز پر قبضے کا دعویٰ بڑے دھڑلے سے کررہے ہیں، اس بارے میں خاکریز میں کرزلی فوجی کیمپ کے اطراف میں بسنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان کا حالیہ حملہ ماضی کے حملوں کے مقابلے میں بہت زوردار تھا اور اس میں نفری بھی بہت زیادہ تھی مقامی شاہدین کے ذریعے ملنی والی اطلاعات کے مطابق حملے سے قبل بیسیوں ٹرکوں کو کرزلی کیمپ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

مقامی آبادی کے مطابق افغان آرمی نے اس بار تہیہ کررکھا تھا کہ وہ خاکریز کا دفاع ہر صورت میں کرے گی، شائد اس وجہ سے افغان فوجیوں اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان لڑائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی جس میں دونوں جانب سے بھاری اسلحے کا بھی استعمال کیا گیا، اس لڑائی کے دوران بتا یا جاتا ہے کہ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جب افغان فوج کے پاؤں پوری طرح اکھڑ چکے تھے تب افغان فوج نے فضائی قوت کا سہارا لیا جس کے دوران بمباری کرکے طالبان کو اس حد تک منتشر کیا گیا کہ افغان فوجی جو زندہ تھے انہیں فرار کرایا جاسکے۔


کرزلی کے فوجی اڈے کو زیادہ محفوظ اس وجہ سے بنایا گیا تھا کہ اس اڈے کو نہ صرف طالبان کے مقابلے میں بچاؤ کیلئے استعمال کیا جائے بلکہ بوقت ضرورت کسی ممکنہ حملے کی صورت میں قبل از وقت حملے کیلئے بھی اسے ایک مضبوط دفاعی پوائنٹ بنایا گیا تھا۔ ان تیاریوں کے بعد گمان یہ کیا جارہا تھا کہ طالبان کا کوئی حملہ کامیاب نہیں ہوگا لیکن ساری کی ساری تیاریاں دھری رہ گئیں جس کے بعد افغان حکومت کو کرزلی میں اپنی شکست تسلیم کرنا تو نہایت ہی کٹھن لگ رہا ۔

لیکن وہ اس بات کیلئے بھی تیار نہ تھی کہ اپنے مردہ فوجیوں کی تعداد کے درست اعدادوشمار بتائے لیکن اس احتیاط کے باوجود افغان وزارت دفاع نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کو پہلے بتایا کہ اس حملے میں ان کے 40 فوجی لقمہ اجل بنے، ان اموات کا جب چرچا ہواتو اس وقت افغان وزارت دفاع نے ہوش کے ناخن لئے تو اس وقت تک بریکنگ نیوز کے چکر میں یہ خبر زبان زدعام ہوچکی تھی ، ان اعدادوشمار کی وجہ سے افغان فوج کی بہت سبکی ہوگئی تھی اس لئے افغان فوج جو حملے کے بعد میڈیا کو یہ کہہ چکی تھی کہ اس کے چالیس نہیں بلکہ 26 افغان فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

افغان فوج کی طرف سے جب یہ ”نئے“ اعدادوشمار دیئے جا رہے تھے اس وقت سرکاری اہلکار جائے وقوعہ سے اس خبر کی تصدیق کر رہے تھے کہ انہوں نے 30 افغان فوجیوں کی لاشوں کو قندھار منتقل کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موقع پر موجود سرکاری اہلکار بھی پورا سچ یا تو بول نہیں رہے تھے یا پھر جائے واردات کی ایک مخصوص افراتفری کی وجہ سے وہ پورے سچ سے اس وقت بے خبر تھے، بہر حال ہر دوصورتوں میں یہ اعدادوشمار بھی درست نہ تھے اور اس جنگ میں مجموعی طور پر 45 افغان فوجہ لقمہ اجل بنے۔

افغان حلقوں کے مطابق تو طالبان نے کرزلی کے فوجی اڈے میں موجود فوجیوں کو گھیر لیا تھا اور اس بات کے امکانات کم ہی تھے کہ کوئی فوجی حملہ آوروں سے بچ نکلے گا لیکن افغان فورسز نے فضائی قوت استعمال کرکے اپنے لئے فرار کا راستہ حاصل کیا۔
افغان فوجیوں کے بھاگنے کے بعد اب تک اس اہم فوجی اڈے پر طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا کنٹرول برقرار ہے، اس دعوے کی نفی حکومتی طرف سے نہیں ہوئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اڈا طالبان کے قبضے میں تو ہے لیکن افغان فورسز اس کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے جلد تیاری کے ساتھ حملہ کریں گی۔

افغانستان میں اب طالبان حملے کا بھرپور امکان ہے۔ کرزلی حملے کی اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کے دوران افغان فوج نے اس قسم کی جھڑپوں میں فضائی قوت کا بھی استعمال کیا جو اہمیت کا حامل ہے گویا افغان فوج اپنے دفاع اور پیش قدمی دونوں صورتوں میں زیادہ مربوط انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور کھوئے ہوئے علاقوں کو اب دوبارہ حاصل کرنے میں زیادہ مربوط انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور کھوئے ہوئے علاقوں کو اب دوبارہ حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھائی جارہی ہے ، یہ پالیسی امریکہ کی طرف سے دی گئی ہے جس میں وہ خود تو حصہ نہیں لیں گے البتہ افغانستان فوج کیلئے منصوبہ بندی وہ خود کریں گے۔

افغانستان میں موجود امریکی فوج اگر ایک طرف اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کررہی ہے تو دوسری طرف 2017ء کے آغاز سے طالبان نے اپنی پالیسی زیادہ جارحانہ کردی ہے، اس جارحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق 2017ء کی پہلی سہ ماہی میں افغانستان میں 1662 شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جس میں تقریباََ 20 فیصد ہلاکتیں کابل میں ہوئیں۔

طالبان نے مجموعی طور پر 7 ماہ میں اپنا انداز جا رحانہ رکھا ہے اور اس دوران انہوں نے بھی عام جگہوں کے بجائے افغان فورسز کے اڈون کو نشانہ بنایا اس سلسلے میں طالبان کا اب تک کا بڑا حملہ رواں برس اپریل میں مزار شریف کے مقام پر دیکھنے میں آیا اس حملے میں 140 سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ مزار شریف کے قریب پاکستان کی کوئی سرحد نہیں لگتی اس لئے وہاں حملہ ہونا انتہائی حیران کن تھا اور اس حملے نے افغانستان میں یہ نئی بحث چھیڑ دی کہ طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکے ہیں اور اب وہ افغانستان کے کسی بھی حصے میں کاروائی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اس طرح قندوز پر طالبان کے حملے نے بھی افغان حکومت اور امریکہ کی آنکھیں کھول دی تھیں لیکن افغان حکومت کبوتر کی طرح طالبان کے ہرحملے کے بعد آنکھیں بند کرلیتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ خاکریز پر حملے کے بعد افغان حکومت نے آنکھیں موندھ لی تھیں اور انتظامیہ اپنی رہی سہی عملداری جو کابل تک محدود ہے کی سکیورٹی پر بھی نظر نہ رکھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان نے کرزلی فوجی اڈے پر حملے کے محض دو روز کے بعد کابل کا نشانہ بنایا۔

افغان دارلحکومت کابل میں ہونے والی اس واردات کے دوران ایک خودکش کار بم حملے میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، یہ خود کش حملہ کابل کی شیعہ آبادی والے علاقے میں ہوا اور حملہ آور نے ایک ایسی بس کے قریب دھماکہ کیا جس میں محکمہ کان کنی کے ملازمین سوار تھے، اس حملے کیلئے خصوصی منصوبہ بندی کی گئی تھی جس کیلئے نہ صرف محکمہ کان کنی والے ملازمین کو نشانہ بنایا گیا بلکہ ساتھ ہی اس سے وقت کا چناؤ کیا گیا کہ اس وقت بھیڑ ہو جس میں زیادہ تولوگ نشانہ بن سکیں، اس واردات کے بعد بعض حلقے یہ بھی سوچ بچار کرتے رہے کہ کہیں یہ افغانستان میں فرقہ واردیت کی کسی شکل کو تو زندہ نہیں کیا جارہا کیونکہ جس علاقے کو واردات کیلئے چنا گیا وہاں شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی خاصی آبادی ہے،ابتداء میں اس واردات کو اگر ایک طرف فرقہ واریت کی کسی شکل کو تو زندہ نہیں کیا جارہا کیونکہ جس علاقے کو واردات کیلئے چنا گیا وہاں شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی خاصی آبادی ہے، ابتداء میں اس واردات کو اگر ایک طرف فرقہ واردیت سے جوڑا جارہا تھا تو دوسری طرف اس کنفیوژن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک سیاست دان اور حکومت کے سینئیر اہل کار نائب چیف ایگزیکٹو محمد محقق کے مکان کے پاس ہوا ہے تو انہوں نے اس حملے کو خود پر حملہ قرار دینے کی کوشش کی۔


محمد محقق کے ترجمان نے اس ضمن میں میڈیا کو بھی بتایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حملہ آور محقق کے مکان کو نشانہ بنانا چاہتا تھا لیکن محافظ نے اسے روک دیا، اس ترجمان کا موقف اپنی جگہ لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ محمد محقق ہی نشانہ تھے یا نہیں۔ کابل خودکش حملے کے بعد یہ ساری کنفیوژن اس وقت دور ہوگئی جب افغان طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ حملہ انٹیلی جنس سروسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔

طالبان کی جانب سے اس قسم کی وضاحت کے بعد صورتحال بڑی حد تک واضح ہوگئی، اس حملے کے محرکات کا صحیح ادراک نہیں کیا جاسکتا کہ جس وجہ سے انٹیلی جنس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا نہ ہی طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بارے میں کھل کر کوئی اظہار خیال کیا انہوں نے اس کی ذمہ داری ہی قبول کی، اس حملے پر افغان صدر اشرف غنی نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے حملے انسانیت کے خلاف حملے ہیں انہوں نے غمزدہ خاندانوں سے بھی اظہار یکجہتی کیا۔

افغان صدر کا ردعمل فطری تھا، تاہم ایک ایسے موقع پر جب امریکہ افغانستان کے بارے میں اپنی نئی عسکری پالیسی بنانے میں کنفیوژن کا شکار ہے ، طالبان کا یہ حملہ اسے مزید بوکھلاہٹ کا شکار کردے گا کیونکہ خاص طور پر کرزلی فوجی اڈے کو حکومت کے چھیننے کے بعد امریکہ امریکی طالبان کی عسکری صلاحیتوں کا پھر سے نئے اندازوں کے مطابق اندازہ لگائیں گے جس کی بنیاد پر اسے اب اپنا مزید متحرک رول مجبوراََ رکھنا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Taliban Ne Amrici Andazay Ghalat Sabit Kar Diay is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.