تاریخ کا دھارا بدلنے والا ایک نڈر لیڈر‘ولادی میر پیوٹن

پیوٹن نے نہایت کم عرصہ میں روس کو پھر سے ایک موثر عالمی طاقت بنادیا۔۔۔ روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے جی بی کے سابق کرنل اور روس کی ایف ایس بی میں خدمات انجام دے چکے ہیں

جمعرات 10 اگست 2017

Tareekh Ka Dhara Badalnay Wala Nadar Leader
محمد علی بیگ:
کیا یہ درست ہے کہ صدر پیوٹن نے عالمی نظام کو ایک Multipolar نظام میں بدل دیا ہے؟ آخر کیوں پیوٹن مشرق وسطیٰ کے لئے بالعموم اور مغرب کے لئے بالخصوص ایک درد سر بن گئے ہیں؟ کیا صدرپیوٹن نے اپنے تمام ناقدین کی رائے کے برعکس روس کو اس کا کھویا ہوا وقار اور مقام واپس دلادیا ہے؟ یہ سوالات ان تمام قیاس آرائیوں کا حصہ ہیں جو ایک عرصہ سے سیاسی مبصرین کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں۔

شاید بہت سے لوگ اس بات سے نا واقف ہیں کہ روس کے موجودہ اور چوتھے صدر ولادی میر پیوٹن سودیت یونین کی انٹیلی جنس ایجنسی کے۔ جی۔بی۔ کے ایک سابقہ کرنل ہیں اور سودیت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد وہ روس کی ایف ۔ ایس۔بی۔ میں بھی خدمات ادا کرچکے ہیں۔

(جاری ہے)

تقریباََ تمام مغربی سیاسی پنڈت صدر پیوٹن کو ایک مطلق العنان حکمران اور ڈکٹیٹر رتصور کرتے ہیں اور ہروقت کسی نہ کسی صورت ان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف رہتے ہیں۔

شاید اس زہر افشانی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پیوٹن نے نہایت کم عرصہ میں لوگوں کی رائے اور پیش گوئی کے بالکل برخلاف روس کو پھر سے ایک موثرعالمی طاقت بنادیا ہے۔ 1991 ء میں سودیت یونین کا ٹوٹنا درحقیقت اس گناہ کی سزا تھی جو اس نے 1945 میں اڈولف ہٹلر کے جرمنی کا بیڑہ غرق کرنے سے سرزد کی تھی۔ سودیت یونین کے جوزف سٹالن نے 1939 ء ہٹلر سٹالن معاہدہ کے باوجود جرمنی پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔

اور فِن لینڈ پر 1940 ء میں حملہ کر دیا تھا۔ اس کے پیشِ نظر ہٹلر نے سٹالن پر 1941 میں پیشگی حملہ کردیا تھا۔ سودیت یونین نے تقریباََ 45 سال تک جرمنی کو مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی میں تقسیم کئے رکھا۔ سودیت یونین کے خاتمہ کے بعد مغربی سیاسی ماہرین نے یہ خیال کرنا شروع کردیا تھا کہ امریکہ کی عسکری اور اقتصادی قوت کی بدولت وہ ایک تن تنہا سوپر پاور بن گیا ہے اور اسے شکست دینا نا ممکن ہے۔

ایک امریکی پروفیسرFranceis Fukuyama نے اپنی کتابEnd of History میں یہ دلائل دیے کہ اب دنیا میں مغربی جمہوریت واحد طرز حکومت ہے اور مستقبل میں جنگ کا ہونا نا ممکن ہے۔ صدر پیوٹن نے انھیں غلط ثابت کرتے ہوئے روس کو چند سالوں میں ایک با ر پھر عالمی طاقت بنا دیا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ چیچنیا کی مسلم ریاست ایک بار پھرروس میں بزور بازو شامل کردی جائے گی؟ کیا کبھی کسی یہ خیال کیا تھا کہ جارجیا کے ساتھ 2008ء کی لڑائی کے بعد ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا جیسی نئی ریاستیں جنم لیں گی؟ آخر کیا وجہ تھی کہ مغربی ممالک اور بالخصوص NATO کی تمام تر مخالفت اور زور آزمائی کے باوجود صدر پیوٹن نے 2014ء میں یوکرائن سے کریمیا کی ریاست کو واپس چھین لیا؟ ان تمام حقائق کے بعد اگر ہم ایک نظر مشرق وسطیٰ پر دوڑائیں تو شام میں تمام تر خون ریزی اور تباہی سے قطع نظر اگر اس عالمی معاملات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات بے حد اہم ہے کہ صدر پیوٹن نے حقیقی معنوں میں شام کی اندرونی جنگ اور افراتفری کے حالات کو اپنے لئے اور روس کے لئے ایک سنہرا موقع بنا کر عالمی سیاست اور معاملات کو یکسر طور پر بدل ڈالا ہے۔

اسی لئے امریکی اور روسی وزرائے خارجہ کی بار بار کی جانے والی ملاقاتیں آج تک بے نتیجہ ثابت ہورہی ہیں۔ صدر پیوٹن کے نظریات نے انہیں روسی اندرونی سیاست پر مکمل طور پر حاوی کردیا ہے اور اس کی بدولت وہ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ خاص طور پر شام اور یوکرائن پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ امریکی ایف ۔ بی۔ آئی۔اور این۔ ایس ۔

اے۔ کی رپورٹس نے جہاں یہ بات ثابت کر دی ہے کہ صدر پیوٹن نے 2016ء کے امریکی صدارتی الیکشن میں واضح طور پر دخل اندازنی کی تھی وہیں پر یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے اور نشان دہی کرتی ہے کہ پیوٹن کے عزائم جارحانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص سوچ اور نظریہ پر مبنی ہیں۔ صدر پیوٹن کے یہی نظریات اور سوچ پاکستان اور روس کو قریب لارہے ہیں اور وہ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے مکمل طور پر آشنا ہیں۔

مارچ 2017ء میں روسی افواج کا دورہء پاکستان اور مشترکہ فوجی مشقیں جہاں بھارت کے لئے سخت پریشانی کا باعث بنیں وہیں پر صدر پیوٹن نے اپنے نئے ارادوں کا عندیہ بھی دے دیا۔ صدر پیوٹن کی فہم وفراست کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب ترک فضائیہ نے نومبر 2015 میں روسی فضائیہ کا ایک لڑاکا بمبار طیارہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ما ر گرایا تھا تو انہون نے یہ بات بھانپ لی تھی کہ اس واقعہ کے پیچھے حقیقتاََ NATO او ر امریکی ہاتھ تھا۔

اگر پیوٹن اس وقت سیاسی ضبط اور تحمل سے کام نہ لیتے تو NATO کو ترک ممبر ملک کی حفاظت کا بہانہ مل جاتا اور صدر پیوٹن کی ساری توجہ شام سے ترکی کے ساتھ تعلقات کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ بعض سیاسی ماہرین کی رائے کے مطابق جولائی 2016 میں ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت میں امریکی ہاتھ کلیدی تھا اور صدر پیوٹن نے نہ صرف ترک صدر طیب اردگان کو حفاظت مہیا کی بلکہ پیشگی اطلاعات بھی فراہم کیں۔

اب تاریخی طور پر ایک دوسرے کے دشمن ترکی اور روس کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے کس کا اثر یہ ہو گا کہ یہ دونوں ممالک نئی عالمی صف بندی میں چین اور پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ چین میں منعقدہ حالیہ OBOR کانفرنس جسے امریکی خبر رساں ادارے CNNنے China's New World Order کا نام دیا ہے میں چین،ترکی،روس اور پاکستان کاساتھ کھڑا ہونا اور بھارت کا اس کانفرس کا بائیکاٹ کرنا اس بات کی دلیل ہے۔

اگر امریکی صدر ٹرمپ اپنے اندرونی معاملات اور خاص طور پر امریکی میڈیا پر حاوی ہونے میں کامیاب ہوگئے تو وہ اس پوزیشن میں آجائیں گے کہ صدر پیوٹن کا راستہ روک سکیں۔ صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے لے کر اب تک وہ شدید تنقید اور میڈیا کی جانب سے ایک جنگ کا سامنا کررہے ہیں ۔ اسے صدر ٹرمپ کی بہادری اور دلیری کہیں یا کچھ اور کہ وہ ان تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔

ٹرمپ اور پیوٹن میں موجود مبینہ تعلقات خواہ حقیقی ہوں یا مجازی، لیکن موجودہ امریکی سیکرٹری دفاع جنرل میٹس اور نیشنل سکیورٹی ایڈوایزر لیفٹیننٹ جنرل میک ماسٹر یقینا روس اور چین کو ایک خطرہ اور تاریخی دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ بات انوکھی نہ ہوگی کہ امریکی فوج جاپان ، بھارت اور جنوبی کوریا کو استعمال کرتے ہوئے روس اور چین کے گرد گھیرا مزید تنگ کرے۔

صدر پیوٹن کی بیشتر پالیسیاں مغرب کی سوچ اور سٹریٹجی کا ایک ردِ عمل ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کسی بھی ریاست کے سٹریٹجک کلچر کا اس کے باشندوں سمیت حکمرانوں پر ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ تاریخی طور پر روس کے حکمران سخت گیر اور غیر جمہوری گزرے ہیں لیکن سودیت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف جیسے لوگوں کی لائی ہوئی جمہوری اصلاحات سے یہ کہیں زیادہ بہتر ہے کہ روس میں صدر پیوٹن کی بظاہر مطلق العنان حکومت باقی رہے۔

کسی بھی ملک کا قومی مفاد اس کی اولین ترجیح ہوتا ہے اور اس قومی مفاد کی حفاظت حکمرانوں کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ صدر پیوٹن کی شخصیت اور ان کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن جس طرح انھوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست کا رُخ یکسر موڑ دیا ہے ، اس پر یہ رائے قائم کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ کہ صدر پیوٹن عصر حاضر کے صفِ اول کے حقیقی معنوں میں ایک نڈر اور باصلاحیت لیڈر ہیں۔ شاید اسی لئے ایک عالمی جریدےForbes نے 2016ء میں صدر ولادی میر پیوٹن کو دنیا کا سب سے طاقتور شخص قرار دیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Tareekh Ka Dhara Badalnay Wala Nadar Leader is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.