ٹرمپ کے اختیارات محدود‘ روس پابندیوں کی زد میں؟

امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت۔۔۔ کانگریس کی دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کا شمالی کوریا اور ایران کے گرد بھی گھیر تنگ

بدھ 9 اگست 2017

Trump Akhtiarat Mehdoood Roos Pabandion K Zad Main
محبوب احمد:
امریکہ کے حالیہ الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی پر ایک رپورٹ نے جو تہلکہ مچایا اس کے اثرات اب امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی طرف سے کی جانے والی کاروائیوں سے دکھائی دے رہے ہیں،یہ بات کس حد تک حقیقت پر مبنی ہے کہ روس نے ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن اور ڈیمو کریٹک نیشنل کمیٹی کی خفیہ ای میل چرا کر”وکی لیکس “ کو فراہم کیں جو الیکشن سے ایک ماہ پہلے منظر عام پر آئیں جس سے ہیلری کلنٹن کو شناخت بری طرح مجروح ہونے سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، یہاں قطع نظر اس سے کہ روس نے امریکہ کے حالیہ انتخابات میں مداخلت کی ہے یا نہیں لیکن امریکی ایوان نمائندگان نے 2016 ء کے امریکی صدارتی انتخاب میں مبینہ طور پر روس کی مداخلت کی وجہ سے امریکی کانگریس میں ایوان نمائندگان نے صدر ٹرمپ کی تنقید کے باوجود روس پر نئی پابندیاں لگانے کے حق میں ووٹ دیا، یہ بل امریکی صدر کی روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی امیدوں کو مشکل میں ڈالتا دکھائی دے رہا ہے، نئے قانون کے تحت جہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اختیارات بھی محدود ہوئے ہیں وہیں شمالی کوریا اور ایران پر بھی مزید پابندیاں عائد کرکے گھیرا تنگ کرنے کو شش کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

امریکی انتخابی سسٹم کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس قسم کی مداخلت کی تردید ہوتی ہے کیونکہ امریکہ کے انتخابی نظام کو دنیا کا بہترین انتخابی نظام سمجھا جاتا ہے۔ امریکی انتخابات میں ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ سے زائد تقریباََ 2.7 ملین ووٹ حاصل کئے تھے لیکن ٹرمپ الیکٹورل ووٹوں کی وجہ سے کامیاب ہوئے ، لہذا اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابات سے قبل ہیلری کلنٹن کی ای میلز لیکس ہونے کی وجہ سے ہیلری کی جیت پر بہت زیادہ اثر پڑا۔

امریکی ایوان نمائندگان نے متفقہ طور پر روس، ایران اور شمالی کوریا کے خلاف نئی پابندیوں کا جو بل منظور کیا ہے اس کی حمایت میں 419 جبکہ مخالفت میں صرف 3 ووٹ پڑے تھے، بعدازاں امریکی سینیٹ میں بھی روس ، ایران اور شمالی کوریا پر نئی پابندیوں کا بل بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا کیونکہ بل کے حق میں 98 جبکہ مخالفت میں صرف 2 ووٹ پڑے ، بعد ازاں اس بل کو حتمی منظوری کے لئے صدر ٹرمپ کو بھجوایا گیا۔

وائٹ ہاؤس ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ کو روس پر عائد پابندیوں ختم کرنے کا اختیار نہیں ہوگا جس کے بعد اس بل پر صدر ٹرمپ ٹرمپ کے ممکنہ دستخطوں کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہوئی تھیں۔ سینیٹ نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے پیش نظر اس پر پابندیاں سخت کی جائیں گی۔ امریکی ایوان نمائندگان کی بھاری اکثریت نے ان اقدامات کی بھی حمایت کی ہے جس کے ذریعے شمالی کوریا اور ایران پر بیلیسٹک میزائل کے تجربے کی وجہ سے پابندیوں عائد کی گئی ہیں، ان نئی پابندیوں کی وجہ سے روس کے تیل اور گیس کے پراجیکٹس پر یقینا برا اثر پڑے گا۔

یورپ کی ایسی کمپنیاں جو روس میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کررہی ہیں وہ ان پابندیوں سے مستثنی ہوں گی۔ یار رہے کہ روس امریکی انتخاب میں مبینہ مداخلت کے معاملے میں تحقیقات بھی جاری ہیں اور اسی تناظر میں امریکی صدر نے ملک کے اٹارنی جنرل پر دباؤ بڑھادیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرم نے اس امر پر بھی بھی اصرار کیا کہ ان کے پاس لوگوں کو معاف کرنے کی مکمل طاقت موجود ہے ۔

امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق صدر روس سے تعلقات کے معاملے پر اپنے خاندان کے افراد، ساتھیوں، بشمول خود کو معاف کرنے پر غور کر رہے ہیں لیکن روس اور صدر ٹرمپ دونوں نے ان تعلقات کی تردید کی ہے۔ ٹرمپ اس بات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ کیا روس کے خلاف سخت پابندیوں والا بل امریکی عوام کے لئے بہترین سودا ثابت ہوگا ۔
روس پر امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید سنگین ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ماضی میں بھی امریکہ کی طرف سے معاشی و مالی پابندیوں کے جواب میں روس نے بھی امریکی درآمدات پر پابندی لگا دی تھی جس کا نتیجہ مہنگائی میں اضافہ اور معیشت کو نقصان پہنچنے کے علاوہ کچھ نہیں نکلا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکومت میںآ نے سے سب کویہ محسوس ہوا ہے کہ وہ اپنے غیر سنجیدہ سے امریکہ کو روس کے سامنے کمزور نہ کردیں اور اب امریکہ کے طاقتور اداروں نے ٹرمپ اور روسی حکام کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ان کے ہر طرح کے روابط کو دیکھا جارہا ہے اور ٹرمپ کو روس کے ساتھ ایک خاص حد سے زیادہ روابط رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امریکہ کا پہلا مقصد امریکہ کی عالمی بالادستی اور غلبہ کو ہر حال میں بحال رکھنا ہے اور اب ٹرمپ کے بیانات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کا اس بات پرایمان ہے کہ امریکہ ہی سب سے اعلیٰ ہے، حقیقت میں امریکی حکومت دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ وہ جب چاہیں روس اور چین جیسے ممالک پر پابندیاں عائد کرسکتی ہے۔

امریکہ یہ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اب بھی وہ اکیلا دنیا کے فیصلے کرنے کا اختیار کھتا ہے۔ لیکن یہاں تشویشناک امر یہ بھی ہے کہ جرمنی نے روس کے خلاف عائد امریکی پابندیوں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پابندیوں کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا ہرگز قابل قبول نہیں ہو گا، لہذا واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ یورپ اور امریکہ کی باہمی ہم آہنگی سے تجویز کردہ پابندیوں پر موافقت کرے۔

روس کی جانب سے امریکی انتخاب میں مبینہ مداخلت کا ان دنوں بہت شور برپا ہے، تاہم روس شروع دن سے ہی امریکی انتخابات میں مداخلت کے الزام کو مسترد کرتا آیا ہے، لہٰذا امریکہ کی طرف سے عائد کردہ نئی پابندیوں کے جواب میں روسی صدر پیوٹن نے ایک طرف امریکہ کو یکم ستمبر 2017ء سے پہلے اپنا سفارتی عملہ کم کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ دوسری جانب ماسکو کے نواح میں واقع ایسی دو عمارتوں کو بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے جو امریکی سفارت کاروں کے زیر استعمال تھیں۔ امریکہ کے حالیہ اقدامات پر روس جس طرح سخت ردعمل کا اظہار کررہا ہے اس سے یہ کشیدگی ماضی کی سردجنگ کی سطح پر پہنچ چکی ہے جو کہ خطے کیلئے بے حد خطرناک ثابت ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Trump Akhtiarat Mehdoood Roos Pabandion K Zad Main is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.