ترکی، شامی پناہ گزینوں کا گڑھ

خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں شامی بیرون ملک انخلا پرمجبور ہو چکے ہیں ۔ شام کے جنوب میں ہمسایہ ترکی پناہ گزینوں کو پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے جن کی تعداد تین ملین سے تجاوز کر چکی ہے

ہفتہ 4 جون 2016

Turkey Shami Panah Guzenoon ka Garh
M Ziya Pakoz :
پچھلے سال ریوٹگرز یونیورسٹی نیو برنزدیک امریکہ میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ماہرین تعلیم نے ترکی کے صوبے کیلیس میں شامی مہاجرین کی آمد کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کا بطور خاص ذکر کیا ۔ ان مہاجرین کی تعداد مقامی باشندوں سے کہیں تجاوز کر گئی ہے جس پر شرکاء کی توجہ مبذول کرائی گی۔
تین ماہ بعد صوبہ کیلیس کے مئیر نے اعلان کیا ہے کہ ان کے صوبے کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے کیونکہ صوبہ نے مقامی باشندوں سے کہیں زیادہ شامی پناہ گزینوں کو پناہ دے رکھی ہے۔

اب کیلیس ایک مرتبہ پھر ٹاپ خبروں میں آ گیا ہے کیونکہ سرحد پار کرنے کے دوران راکٹوں حملوں سے شہریوں کی ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ جرمن چانسلر انجیلامیر کل نے اپریل میں کیلیس کا دورہ سکیورٹی تحفظات اور راکٹ داغے جانے کے واقعات میں نمایاں اضافہ کی وجہ سے منسوخ کر دیا تھا۔

(جاری ہے)


خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں شامی بیرون ملک انخلا پرمجبور ہو چکے ہیں ۔

شام کے جنوب میں ہمسایہ ترکی پناہ گزینوں کو پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے جن کی تعداد تین ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ ترکی کی بارہا مرتبہ تجاویز پیش کر چکا ہے کہ شامی سرحد پر ایک محفوظ ”بفززون“ قائم کی جائے جسے ابھی تک پذیرائی نہیں مل سکی۔ یوں کیلیس شامی سرحد کے قریب ترین ایک محفوظ اور بفرزون کے طور پر کام شروع نہیں کر سکا۔


کیلیس میں پچھلے پانچ برسوں کے دوران سوشل، معاشی ، ثقافتی اور مکانی تبدیلیاں آچکی ہیں جس کا ثبوت 120000 شامی پناہ گزینوں کا یہاں آنے والا بہاو ہے۔ یوں کیلیس کے پرانے اور نئے رہائشیوں کے باہمی ملاپ نے ایک نئے سوشل معاہدے کی جانب راہنمائی کی ہے۔
اب یہاں دونوں قومیتوں کے ملاپ سے ثقافتی تبدیلیاں سامنے آرہی ہیں ۔ پہلے دونوں کی ثقافتوں میں نمایاں صرف تھا، جیسا کہ کام ، آرام کے دورنیہ، ملبوسات، کھانے پینے، شادی اور تعزیت کی الگ الگ روایات تھیں۔

اب باہم روابط کے نتیجے میں دو ثقافتوں میں مشابہت دکھائی دینے لگیی ہے۔ یہ مشاہبت بہ صرف مقامی بلکہ روز مرہ زندگی میں بھی سامنے آچکی ہے۔ شامی پناہ گزینوں نے بھی اپنی ثقافتی روایات میں نمایاں تبدیلیوں کی ہیں تاکہ وہ خود کو یہاں زیادہ پر سکون محسوس کر سکیں۔
شامی باشندوں نے کیلیس کی دیواروں کو رنگنے کے لیے انہی تکنیک کا استعمال شروع کر دیا ہے جو وہ شام میں کرتے رہے ہیں۔

ان میں سے کئی نے لکڑی کے فرشوں کو پتھروں یا ٹائٹلز سے تبدیل کر دیا ہے تاکہ انہیں دھونے میں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔ دوسرے لفظوں میں کیلیس میں ایک ملٹی کلچر فروغ پا رہا ہے۔
کئی شامی پنا گزین اس بات کو تسلیم کرنے ہیں ک اس لڑائی میں مزید کئی سال ضائع ہو سکتے ہیں اور انہیں ترکی میں کئی دہائیوں تک رہنا پڑ سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ شامی پناہ گزین مقامی کمیونٹی کے ساتھ موافقت پیدا کر رہے ہیں اور خود کو منظم بھی کر رہے ہیں تاکہ وہ یہاں اپنی صلاحیتوں کا بہتر انداز میں استعمال کر کے بہتر مستقبل کو فروغ دے سکیں۔


ترکی میں شامی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اس کی عمدہ مثال ہے جو 260 شامی طالب علم بچوں اور 18شامی اساتذہ کی مدد سے ایک سکول چلا رہی ہے۔
شامی باشندوں کے لیے کیلیس میں روز مرزہ زندگی گزارنا کیسے ممکن ہے۔ ایمسٹرڈیم یونیورسٹی کے پروفیسر رانواس پینکس رابطے کی تعریف یون کرتے ہیں کہ ”یہ معاشرے کے لیے ناقابل قبول بننے کا عمل ہے“۔

یہ دو صورتوں میں عمل میں آتا ہے ۔ پہلی صورت میں پناہ گزین کیلئے بنیادی سہولیات جن میں پناہ ، خوراک ادویات شامل ہیں تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔
دوسری ملازمت یا بزنس کے مواقع کی تلاش تاکہ وہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم ، میڈیکل کیئر اور سوسائٹی کے لیے بہتر سرگرمیاں ادا کر نے کے لیے تیار کر سکیں۔ یہاں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پہلی صورت مکمل ہو چکی ہے ۔

اب جب درمیانی اور طویل المدت پالیسی پر عمل درآمد کے لیے قومی یا مقامی حکام پالیسی ترتیب دے رہے ہیں تاکہ دوسری صورت کی تبدیلی کو یقینی بنایا جا سکے ۔
قصبے پر داغے جانیوالے راکٹ نہ صرف کیلیس پر حملے ہیں بلکہ وہ دونوں کمیونٹیز کو اکٹھے رہنے کے تجربے کو تعطل کا شکار بنانے کا باعث بن رہے ہیں جو ملٹی کلچرل مقاصد کے حصول اور تنومندروابط کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ اس حملوں کو بند نہ کیا گیا تو کیلیس میں شامی مہاجرین کی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں جنہیں پہلے ہی یہاں سخت جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Turkey Shami Panah Guzenoon ka Garh is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 June 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.