افغان صحافی سمیع یوسف زئی سے ٹیلیفونک انٹرویو

افغان امور، طالبان کی موجودہ صورتحال اور پاک افغان تعلقات پر گہرا تجزیہ اور حقائق جاننے کیلئے میں نے ٹیلی فون کیا نامور افغان صحافی سمیع یوسف زئی کو۔ سمیع یوسف زئی نیوزویک بی بی سی اور ڈیلی بیسٹ کیلئے ریوڑئنگ کرتے ہیں افغان امور اور القائدہ پر مہارت رکھتے ہیں۔

Rukhshan Mir رخشان میر بدھ 21 دسمبر 2016

Afghan Sahafi Sami Yousuf Zayi Se Telephonic Interview
افغان امور، طالبان کی موجودہ صورتحال اور پاک افغان تعلقات پر گہرا تجزیہ اور حقائق جاننے کیلئے میں نے ٹیلی فون کیا نامور افغان صحافی سمیع یوسف زئی کو۔ سمیع یوسف زئی نیوزویک بی بی سی اور ڈیلی بیسٹ کیلئے ریوڑئنگ کرتے ہیں افغان امور اور القائدہ پر مہارت رکھتے ہیں۔
سمیع یوسف زئی نے 1994میں اسپورٹس یورٹنگ سے اپنا صحافتی کرئیر شروع کیا اور 1977میں وار یورٹنگ کی طرف شفٹ ہوگئے ۔


افغان امور کی جب بھی بات کی جائے ، سمیع یوسف زئی کانام سر فہرست ہے۔
سوال:
سمیع یوسف زئی صاحب افغانستاں اور القائدہ کو کور کرنا کوئی آسان کام نہیں، سب سے پہلے قاریئن کو اپنی صحافتی ذندگی کے بارے بتائیے اور پھر افغان امور پر بات کرتے ہیں۔
جواب:
میری ذندگی کے 19 سال ریورئنگ کرتے ہوئے بیت گئے۔

(جاری ہے)

ریورئنگ کے دوران بہت سی مشکلات کاسامنا بھی کرنا پڑا۔ جن علاقوں میں ریورئنگ کرتارہاہوں آپ جانتے ہیں وہاں کام کرنا کس قدر دشوار ہے۔
گھروالوں نے صحافت چھوڑنے کو کہا مگر چونکہ میں بہت چھوٹی عمر سے اس پیشے سے وابستہ ہوں۔ اس لئے اس شعبے کو چھوڑنا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ 2008 میں طالبان نے مجھ پر حملہ کیا اور اس حملے میں مجھے دوگولیاں لگیں۔

ایک گولی میرے ہاتھ پراور دوسری دل کے قریب ، لیکن میں بچ گیا اور پھر بھی صحافت کو نا چھوڑا۔ ایک سٹوری کے لئے 48دن بھی کام کرنا پڑا۔
سوال:
جب تک افغانستان میں ملاعمر کی حکومت رہی آپ طالبان کے حق میں بولتے اور لکھتے رہے۔ پاکستان کے نجی ٹی۔ وی چینل جیوٹی وی کو اپریل 2012 میں آپ نے انٹرویو دیا اور کہا کہ افغان عوام کے دلوں میں طالبان کیلئے بہت محبت اور ہمدردی ہے۔

طالبان کی افغانستان میں بہت چاہت ہے۔ مگر ملا عمر کے بعد آپ نے طالبان کو خاصاََ آڑے ہاتھوں لیا۔ اب آپکی ساری ریورئنگ اور مضامین طالبان مخالف ہی دیکھنے کوملتے ہیں۔ ایسا کیوں ؟
جواب:
نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا۔ جب تک طالبان ٹھیک کام کرتے رہے میں انکے ساتھ کھڑا رہا ۔ جو بھی ہوتا رہا میں بولتا اور لکھتا رہا۔ اب طالبان بھی تویکساں نہیں رہے۔

اور افغان عوام بھی اب ان سے بدزن ہوچکی ہے۔ انہوں نے طالبان کی حکومت دیکھ لی ہے۔ اور اب وہ پارلیمانی نظام چاہتے ہیں۔
سوال:
طالبان کے مطابق توتمام فساد کی جڑ امریکی اور NATO افواج کی افغانستان میں سرگرمیاں ہیں، آپکو کیالگتا ہے۔ اگر NATO اور امریکی افواج یہاں سے چلے گئے توکیا افغانستان میں امن آسکتا ہے ؟
جواب:
نہیں ایسا ممکن نہیں۔

ابھی تو افغان عوام میں امید کی ایک کرن موجود ہے کہ انٹرنیشنل کمیونٹی نفرت اور انتہا پسندی کے خلاف ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر وہ بھی انکا ساتھ چھوڑ گئے تو عوام بہت مایوس ہوجائے گی۔ جب افغان نوجوان دنیا کو دیکھتے ہیں توانکا بھی دل کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں یونیورسٹیاں بنیں سکول بنیں ، کالج بنیں، تمام ترقیاتی منصوبے جودوسری دنیا میں بنائے جارہے ہیں اب افغانستان میں ایسے ترقیاتی منصوبوں کاقیام ہو۔


سوال:
کیا آپ اشرف غنی کے اس بیان سے متفق ہیں کہ پاکستان ہی افغان طالبان کی پشت پناہی کرکے انہیں مضبوط کررہا ہے۔ ورنہ طالبان تو ایک مہینہ بھی لڑنے کے قابل نہیں؟
جواب:
یہ صرف اشرف غنی نہیں کہہ رہا۔ NATOامریکہ یورپ اور کئی ممالک کا موقف یہی ہے۔ اور یہ بات کافی حدتک درست بھی ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ پارلیمنٹ کاساتھ دے۔

افغان عوام کاساتھ دے۔ امن کیلئے سامنے آئے۔
سوال:
توکیا آپکو نہیں لگتا کہ بھارت کے ساتھ شدید کشیدہ حالات میں جب لائن آف کنٹرول پرفائزنگ جاری ہے ، مسئلہ کشمیر پوری دنیا کی توجہ کامرکز بناہوا ہے بھارت نے سارک کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کردیا۔ اور پورا بھارتی میڈیا یہ ٹکٹکی لگائے بیٹھا تھا کہ اب پاکستان ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت سے انکار کرے گا کہ اب ،مگر پاکستان نے ناصرف ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت اختیار کی بلکہ افغانستان کو 50ملین ایڈ کی پیشکش بھی کرڈالی۔

کیا یہ ایک پرامن افغانستان کی خواہش کے نتیجے میں نہیں ہوا؟
جواب:
یہ پاکستان کی طرف سے ایک اچھا اقدام تھا اور میں سمجھتا ہوں اشرف غنی نے پاکستان کے بارے میں وہ بیان دے کرغلط کیا ہے ۔ کہیں اور ایسی بات کرتے تو اتنا غلط نہ ہوتا مگر بھارت میں ایسے بیان دینے سے یقینا پاکستانی عوام کی بھی دل آزاری ہوئی گی۔ اس طرح کے بیان سے اشرف غنی کو گزیز کرنا چاہئے تھا۔


سوال:
27لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دینا۔ کیاآپ کے نزدیک یہ بھائی چارے کا ثبوت نہیں۔
جواب:
بالکل یہ بھائی چارے کا ثبوت ہے مگر انہیں اس طرح سے شارٹ نوٹس پرنکال دینا اور نکالنے کی باتیں کرنا بھی مناسب نہیں ۔ 1979میں روسی فوجوں کے خلاف جہادکے وقت جناب ضیاالحق اور انکے ساتھیوں نے گیٹ پر کھڑے ہو کر مہاجرین کااستقبال کیاتھا، کہ پاکستان بھی آپ ہی کا وطن ہے۔

مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اور اب مہاجرین کونفرت کی نگاہ سے دیکھنا قابل مذمت عمل ہے۔
سوال:
جومہاجرین افغانستان سے ہجرت کرکے یہاں آئے تعلیم اور کاروبار ناہونے کی وجہ سے بہت سے جرائم میں ملوث ہوئے۔ اور ہمارے پاسپورٹ پربیرون ملک جاکر بھی پاکستان کاناکام ہی بدنام کیا۔ مہاجرین کی ایک واضع تعداد جرائم پیشہ ہے۔

آپ کیاکہتے ہیں ؟
جواب:
دیکھیں ایسا نہیں کہ مہاجرین نے پاکستان کوکوئی بڑا نقصان پہنچایا ہو۔ یاکوئی ایسا نقصان جس سے پاکستان کوکوئی واضع فرق اور ٹھیس پہنچی ہو۔ ہاں البتہ چھوٹے اور سٹریٹ کرائمز کی ذمہ داری مہاجرین پر ڈالی جاسکتی ہے۔ اگرآپ مہاجرین کو پاکستان چھوڑنے کی کوئی ڈیڈلائن دے دیتے تو وہ ضرور اس پرعمل کرتے۔


سوال:
اب تو افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں ہے تو اب افغانستان کے کیاحالات ہیں؟ تعلیمی نظام ، جمہوری سرگرمیاں آزاد میڈیا ان سب کی صورتحال کیا ہے؟
جواب:
حالات اب بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ طالبان کے دور مین افغانستان میں صرف 3جامعیات تھیں مگر اب سوسے زیادہ ہیں۔ خواتین کی آزادی اور خود مختاری کے بارے طالبان کے جونظریات ہیں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

اور آزاد میڈیا یا صرف میڈیا کاطالبان کے نزدیک کوئی نہیں کونسیپٹ ہیں۔ طالبان اپنے اوپر تنقید برداشت نہیں کرتے۔ مگر اب چونکہ انکی حکومت نہیں رہی تو میڈیا کے حالات بہت بہتر ہیں۔ افغانستان کامیڈیا نہایت ہی ذمہ داری کے ساتھ اپنی ذمیداریاں سرانجام دے رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی طرح سنسنی پھیلانے سے اسے کوئی غرض نہیں۔ معاملات کو سمجھ کر ریورئنگ کرتا ہے۔


سوال :
کیا افغان صحافیوں پر حملے ہوتے ہیں ؟
جواب:
ہاں ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ افغان صحافیوں کو قتل کیا گیا ہو۔ مگر حالات برے نہیں ہیں۔ طالبان بھی توخبر بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ایسے کام کرتے ہیں جن سے انہیں میڈیا میں جگہ ملے۔
سوال:
سوشل میڈیا پر افغان عوام کاجائزہ لیاجائے تو افغانی پاکستانیوں سے نفرت اور بھارتیوں سے محبت کرتے ہیں۔

کیا یہ درست ہے؟
جواب:
نفرت تو نہیں۔ کچھ گلے شکوے ضرور ہیں۔ مگر آج بھی مسلمان بھائی ہونے کے ناطے افغانیوں کے دل میں پاکستانیوں کیلئے محبت اور بھائی چارے کاجذبہ ہے۔ رہی بات بھارت کی توجس طرح وہ افغانستاں کی مدد کرتے ہیں، پارلیمانی نظام کی مدد کرتے ہیں اور تعلیم نظام کو بہتر بنانے کیلئے باقاعدہ طور پر ایڈ فراہم کرتے ہیں۔

ان تمام کاموں سے وہ کافی حد تک افغانیوں کے دل میں جگہ بناچکے ہیں۔ ایک بات یاد رکھیں پاکستان افغانستان میں ہارچکا ہے اور پاکستان کی فارن پالیسی بھی فیل ہوچکی ہے۔
سوال:
تو پھر اب اس ساری صورتحال کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اس کشیدگی کاکیا حل ہے؟
جواب:
میرے اور تمام افغاینوں کے نزدیک حل صرف اور صرف Peace talks ہیں۔

افغان طالبان مذاکرات کو ہار ماننا سمجھتے ہیں۔ وہ Peace talks کو Hands up کے مترادف مانتے ہیں جبکہ ایسانہیں ہے۔ ں ا طالبان اتنے مضبوط ہیں کہ دوبارہ اپنی حکومت قائم کرسکیں اور سارا نظام درہم برہم کرسکیں اور ناہی حکومت اتنی طاقت ور ہے کہ طالبان کو ختم کرسکے۔ امریکہ تو بس اب افغانستان سے نکل ہی رہا ہے۔ اور مذاکرات کی میز سجا کر پاکستان قلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔


سوال:
کیا طالبان اب سیاسی قوت بن کرسامنے آنا چاہتے ہیں۔
جواب:
ہاں بالکل۔ طالبان چاہتے ہیں کہ وہ ملٹری فورس کی بجائے سیاسی فورس بن کر سامنے آئیں، پر مجھے نہیں لگتا کہ یہ کام انکے بس کا ہے۔
انہوں نے کبھی اس Process سے گزرے نہیں ہیں شائد اسی لئے انہیں اس کام سے ڈر بھی لگتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghan Sahafi Sami Yousuf Zayi Se Telephonic Interview is an interview, and listed in the interviews section of the site. It was published on 21 December 2016 and is famous in interviews category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint interviews.