پانی یا زہر قاتل

ترقی یافتہ ممالک بھی پانی کی آلودگی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہاں فیکٹریوں سے نکلنے والے آلودہ پانی کو ٹریٹمنٹ کے بعد صاف کر لیا جاتا ہے

ہفتہ 19 جولائی 2014

Pani Ya Zeher e Qatil
خالدیزدانی:
کرہ ارض پر زندہ رہنے کیلئے جتنی ضروری ہوا ہے اتنی ہی ضرورت پینے کے صاف پانی کی ہے بلکہ صاف پانی کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی کہ تیز رفتار ترقی کے باوجود صاف پانی کا حصول ایک گھمبیر مسئلہ بنتا جارہاہے اس وقت پانی کی آلودگی صرف تیسری دنیا کے ممالک کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک بھی پانی کی آلودگی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہاں فیکٹریوں سے نکلنے والے آلودہ پانی کو ٹریٹمنٹ کے بعد صاف کر لیا جاتا ہے پھر بھی آلودگی کا بہت سا حصہ زیر زمین چلا جاتا ہے۔ اس کا حل انہوں نے یہ نکالا ہے کہ بے شمار پلانٹ قائم کرکے پانی کو صاف کرلیا جاتا ہے اور بوتلوں میں بند کرکے سپلائی کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اکثر لوگ پینے کیلئے یہی پانی استعمال کرتے ہیں اگرچہ ہمارے ہاں بھی ایسے پلانٹ لگ چکے ہیں مگر ایک تو ہمارا معیار کم ہے دوسرے زیادہ سے زیادہ نفع کی خاطر پانی کوصحیح طور پر ٹریٹ نہیں کیا جاتا یا لالچ و طمع کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام نلکے یا ٹیوب ویل کا پانی بوتلوں میں بھر کر مہنگے داموں فروخت کردیا جاتا ہے اور راتوں رات منافع حاصل کرلیا جاتا ہے کچھ لوگ پکڑے بھی جاچکے ہیں مگر بڑی بڑی کمپنیاں ایسا کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

اب ہمارے ہاں بھی رجحان تقویت پکڑتا جارہا ہے۔ مگر یہ پانی استعمال کرنے والے صرف 3یا 4فیصد لوگ ہیں۔ دیہاتوں کے رہنے والے اور شہریوں کو متوسط طبقات کے لوگ بوتلوں میں سر بمہر پانی خریدنے اور استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔واٹر کوالٹی مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ اسلام آباد کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے نواح میں پینے کے لئے استعمال ہونے والے پانی کی نمو نہ جات حاصل کئے گئے تو معلوم ہوا اس پانی کے اندر بظاہر کسی قسم کے ضرر رساں کیمیکلز تو موجود نہیں ہیں مگر اس کے اندر بھی یہ نظر آنے والے بے شمار جراثیم (Micro Biological)موجود پائے گئے۔

پاکستان کی واٹر سپلائی اور سینٹی ٹیشن رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں صاف پانی کی سپلائی کا نظام پورے ملک میں سب سے بہتر ہے مگر صارفین کو مہیا کردہ پانی بھی صاف پانی کی زمرے میں نہیں آتا ہنگامی صورتحال میں جو پانی اسلام آباد کو سپلائی کیا جاتا ہے اس معیار بھی بے حد گرا ہوا ہوتا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی شہروں کا کیا حال ہوگا۔

ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ساٹھ اقسام کی بیماریاں آلودہ پانی کے سبب لوگوں کو لاحق ہو رہی ہیں جن میں سے ٹائیفائیڈ، پولیو، ہیپاٹائٹس اے بی سر فہرست ہیں۔ کراچی اور اردگرد کے اضلاع کے پینے کے پانی کے تجزئیے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ پانی سو فیصد آلودہ اور گندہ ہے یہ ساری آلودگی دریا اپنے ساتھ لاتے ہیں اور یہ پانی زمین میں جذب ہوجاتا ہے جہاں سے پھر پینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ناقص سیوریج کی بدولت کیمیکلز زدہ پانی رس رس کر زمین میں جذب ہورہاہے پھر یہی پانی ٹیوب ویل کے ذریعے نکال کر پینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پانی کس قدر آلودگی سے بھرپور ہوگا۔ بڑے بڑے شہروں میں زیر زمین پانی کے تجزیہ کا نظام ضرور موجود ہے مگر ایسے آلات کا فقدان ہے جو پانی کا صحیح تجزیہ کرسکیں۔

پی سی ایس آر کے پاس اس ضمن میں بہتر نطام موجود ہے ایک طریقہ کیمیکل تجزیہ دوسرا جراثیمی تجزیہ ہے۔ آغا خاں یونیورسٹی ہسپتال پانی کا درست تجزیہ کرنے کااہل ہے۔
پورے ملک کا زیر زمین پانی آلودگی کا شکار ہوچکا ہے اس آلودگی کی وجہ ملک میں بے شمار فیکٹریوں سے نکالا گیا کیمیکلز زدہ پانی ہے جسے ضائع کرنے کا کوئی مناسب انتظام نہیں بلکہ اسے کھلازمینوں میں بہنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے یہ زمین کے اندر جذب ہوکر انتہائی خطرے کا سبب بنتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹیوب ویلوں کے ذریعے جو پینے کا پانی باہر نکالا جاتا ہے اس میں مضر صحت کیمیکلز موجود ہوتے ہیں جو بے شمار بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں۔ اب تو پہاڑی علاقوں کے چشموں کا پانی بھی آلودگی کا شکار ہوچکاہے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر وہاں جانے والے مسافروں، سیاحوں کا اس آلودگی کو دور کرنے کیلئے فلٹرلگائے جاتے ہیں مگر بروقت اور مناسب طور پر ان فلٹر کی صفائی کی طرف دھیان نہ دینے کی وجہ سے ان سے ہوکر گزرنے والا پانی بھی آلودگی کا حصہ لئے ہوئے ہوتا ہے صاف پانی کے حصول کا بہترین حل تو یہی ہے کہ گھر میں پانی 20-15منٹ تک ابال کر اور پھر اسے ٹھنڈا کرکے استعمال میں لایا جائے۔

ایک رپورٹ کے مطابق تیسری دنیا کے ممالک میں کثرت اموات اور معذوری کا ایک بہت بڑا سبب ناصاف پانی ہے جراثیم اور کیمیکل زدہ پانی انسان کی صحت کیلئے فی الوقت ایک بہت بڑے خطرے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک جائزے کے مطابق اس وقت ترقی پذیر ممالک میں کل اموات میں سے ایک تہائی اموات اور بیماریاں صرف گندے پانی کے استعمال کی بدولت ہیں۔

پاکستان میں گندے پانی کے استعمال کی بدولت ہیں۔ پاکستان میں گندے پانی سے متعلقہ بیماریوں کی صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ 30لاکھ افراد گندے پانی کے باعث بیماریوں کی لپیٹ میں آچکے ہیں یعنی 19فیصد اموات گندے پانی کے استعمال کے باعث ہو رہی ہیں۔ اسی طرح گندے پانی کے سبب چھوٹے بچوں کی اموات کی شرح ایک جائزے کے مطابق 60فیصد کے لگ بھگ ہے۔ بچوں کی بڑی بڑی بیماری پیچش ہے۔


یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچے آلودہ پانی سے سب سے زیادہ متاثر ہور ہے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ہر سال 5سال سے کم عمر کے دو لاکھ اٹھائس ہزار بچے موت کے منہ میں جارہے ہیں چونکہ شرح خواندگی اتنی زیادہ نہیں لہذا ہر شخص آلودہ پانی کے استعمال سے پیدا ہونے والی بھیانک خرابیوں کا اتنا زیادہ شعور نہیں رکھتا اور وہ پانی کے استعمال کے بارے میں اتنا زیادہ سنجیدہ بھی نہیں ہوتا۔

دودھ پیتے بچے بھی ماؤں کے دودھ میں موجود کیمیکلز کے باعث متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور پیچش اور نمونیا کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی نشوونما کیلئے صاف پانی اور صاف ہوا بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے مگر ان بچوں کو دونوں چیزیں خالص صورت میں میسر نہیں۔ زمینی اور فضائی آلودگی کے باعث ہماری ہوا جو ہم اپنے پھیپھڑوں میں لے جاتے ہیں بھی انتہائی درجے کی آلودگی ہو چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سانس اور پھیپھڑوں کی نئی نئی خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں جن سے شرح اموات میں معتد بہ اضافہ ہورہا ہے کچھ عرصہ قبل لاہور کی صورتحال سی ڈی جی ایل ہیلتھ کے بیکٹریالوجی ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ راوی کے ساتھ ملحقہ آبادیوں سے زیر زمین سے حاصل کردہ پانی پانی کے نمونے جب حاصل کئے گئے تو پانی کے اندر سیوریج کی آلودگی پائی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کی بڑی وجہ آج سے پچاس سال پہلے کی سیوریج پائپ ہیں جو جگہ جگہ سے لیک ہوکر زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہے ہیں چند سال قبل پنجاب انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب کے متعدد اضلاع سے پینے کے پانی کے نمونے حاصل کئے جب تجزیہ کیا گیا تو ہر جگہ کا پانی آلودگی کا شکار پایا گیا اینالسٹ نے سفارش کی کہ حکومت اس سلسلہ میں اقدامات کرے تاکہ لوگوں کو پینے کیلئے صاف پانی مہیا ہوسکے اور یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں موجود صنعتوں کو اس امر کا پابند کیا جائے کہ وہ فیکٹریوں کے گندے پانی کو کھلا چھوڑے جانے سے روکے کیونکہ یہ فیکٹریاں زیر زمین پانی کو آلودہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

گندے پانی کے استعمال سے ملک میں طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ یہ تو شہری علاقوں کا حال ہے پاکستان کے دور دراز دیہات اور خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں پینے کا صاف پانی سہل الحصول نہیں۔ دیہات میں عام طور پر کنوؤں اور نلکوں کے ذریعے سے پانی نکال کر استعمال کیا جاتا ہے جوکسی صورت بھی صاف پانی کے زمرے میں نہیں آسکتا کیونکہ نہ تو کنویں اتنے گہرے ہوتے ہیں اور نہ نلکے اتنے گہرے لگائے جاسکتے ہیں جو نیچے سے پانی کھینچ کر اوپر لاسکیں لہذا دیہات کو گندے پانی پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے پہاڑی علاقوں می عام طور پر تالابوں می بارش کا جمع شدہ پانی ہی پینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

تالابوں میں جانوربھی داخل ہوتے ہیں وہاں سے پانی پیتے ہیں اور لوگ باگ ان تالوبوں میں نہاتے بھی ہیں پھر اس پانی کو پینے کیلئے استمعال میں لایا جاتا ہے اسے سے اکثر لوگ مختلف النوع بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں خصوصی طور پر ڈیرہ غازی کان اور پوٹھوہار کے علاقوں میں رنگ ورم کی بیماری عام ہے اس میں انسانی جسم کے اندر ایک باریک اور لمبا کیڑا پپننے لگتا ہے۔

جسم پر ایک پھنسی نمودار ہوتی ہے اور وہ کیڑا اس کے اندر اپنا سر نکالتا ہے اگر اس کیڑے کو کھینچنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس سے بدن میں نئی نئی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ اس طرح خصوصی طور پر بچے اور بڑے بھی پیٹ کی مختلف النوع بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں جس کی وجہ سے شرح اموات میں افسوسناک اضافہ ہورہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pani Ya Zeher e Qatil is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 July 2014 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.